صاف گوئی

239

سلطان بایزید ترکوں کا ایک بہت مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ وہ بہت دلیر اور انصاف پسند تھا۔ صوم و صلوٰۃ کا بھی پابند تھا۔ مگر نماز باجماعت نہیں پڑھتا تھا۔ اسی کے دور کا ایک واقعہ ہے۔
ایک بار جج کی عدالت میں ایک مقدمہ پیس ہوا۔ اس میں ایک فریق کی طرف سے سلطان خود گواہ تھا۔ عدالت کے جج مولانا شمس الدینت ھے۔ یہ روم کے رہنے والے، اور شریعت کے بہت پابند تھے۔
سلطان گواہی کے لیے حاضر ہوا۔ مولانا نے اس کی شہادت منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ سلطان خود بھی منصف تھا، اور جج کی انصاف پسندی سے بھی واقف تھا۔ اس لیے ان کے اس رویے پر خفا تو نہ ہوا۔ البتہ انکار کا سبب دریافت کیا۔
مولانا بولے:
’’شریعت کی رو سے ان لوگوں کی گواہی معتبر نہیں جو باجماعت نماز ادا نہیں کرتے۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیںکہ آپ کی شہادت کیوں رد کر دی گئی۔‘‘
سلطان پر اس بات کا بڑا اثر ہوا۔ اس کے بعد وہ نہایت مستعد سے جماعت کی پابندی کرنے لگا۔
سوالات:
1۔ سلطان بایزید کون تھا؟,2۔ اسلامی عدالت نے اس کی گواہی کیوں نہ مانی؟3۔ جج اور سلطان میں کیا بات چیت ہوئی؟4۔ سلطان نے جج کی بات سے کیا اثر لیا؟5۔ جج کی کون سی خوبی تمہیں سب سے زیادہ پسند ہے؟

حصہ