خود دار اونٹ

328

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لومڑی نے ایک گاؤں سے بھاگ کر ایک اور گاؤں میں رہائش اختیار کرنے کی فیصلہ کیا۔ اس نے بیابان میں ایک بھیڑیے کو دیکھا کہ وہ بھی اسی رستے پر چلا جا رہا تھا۔ دونو کی مڈبھیڑ ہوئی اور انھوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور اکٹھے چل پڑے۔ انھوں نے ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے کے لیے بات چیت کا آغاز کیا۔ معلوم ہوا کہ بھیڑیے کو اس گاؤں کے بھیڑوں کے گلّے کے محافظ کتّوں سے شکایت پیدا ہو گئی تھی جو اُسے بھیڑوں کو ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ بھیڑیا چاہتا تھا کہ اِس گاؤں کو بالکل چھوڑ دے اور کسی دور دراز مقام پر جا ٹھکانا کرے۔
وہ دونوں جب تقریباً چار میل آگے نکلے تو انھیں ایک اونٹ دکھائی دیا جو صحرا میں بھٹک رہا تھا۔ وہ اونٹ کے نزدیک پہنچے اور اس سے کہا: تُو تو پالتو جانور ہے اور لوگ تجھے مفت خوراک مہیا کرتے ہیں آخر تُو تنِ تنہا اس صحرا میں کیا کر رہا ہے؟
اونٹ بولا: پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی کسی کو مفت خوراک مہیّا نہیں کرتا۔ اگر انسان روزی رساں ہوتے تو پہلے اپنے ہم جنسوں کو فراہم کرتے اور یوں دنیا میں اتنے سارے لوگ بھوکوں نہ مرتے اور یہ جو تم دیکھتے ہو کہ لوگ مجھے خشک گھاس کھانے کو دیتے ہیں تو یہ میری اُون، دودھ، گوشت اور باربرداری کی وجہ سے ہے۔ اگر تم کام کرنے اور بوجھ ڈھونے کے لیے تیار ہوتے تو یہ قلیل خوراک وہ تمھیں بھی دیتے۔ رہی یہ بات کہ میں پالتو جانور ہوں، بالکل ہوں مگر اُسی وقت تک جب تک اہل لوگوں کے ساتھ میرا واسطہ ہو۔ جب مجھے بے انصافی اور ظلم کا سامنا کرنا پڑے تو مجھ پر وحشت طاری ہو جاتی ہے۔ کیا تم نے ”شترکینہ“کا لفظ نہیں سُنا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب لوگ مجھ پر ظلم کرتے ہیں البتہ جب تک میں لوگوں کو انصاف پسند دیکھتا ہوں، میں بھی ایک حلیم طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا جانور ہوتا ہوں اور اگر ایک چوہا بھی میری رسی کھینچتا ہے تو جہاں لے جانا چاہتا ہے، میں اس کے ساتھ چل پڑتا ہوں۔ میں دن رات کام کرتا ہوں۔ بھوک پیاس برداشت کرتا ہوں۔ بے آب و گیاہ بیابانوں کی خاک چھانتا ہوں، بوجھ اُٹھاتا ہوں، کانٹے کھاتا ہوں اور دم نہیں مارتا۔ خیر، اِس صحرا میں اِس وقت میرے آوارہ پھرنے کی وجہ یہ ہے کہ میرا مالک ناانصاف تھا۔ مجھ پر زیادہ بوجھ لادتا، مجھے لاٹھیوں سے پیٹتا اور کبھی آرام کرنے کا موقع نہ دیتا۔ میں بھی وحشی ہوگیا اور میں نے صحرا کا رستہ لیا۔ ہر بات کی حد ہوتی ہے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو میں کہ ایک اونٹ ہوں اور ہر ایک سے بڑا ہوں آخر اپنے سے چھوٹوں کا ظلم کس لیے برداشت کروں؟
بھیڑیا بولا: یہ کیا بات ہوئی۔ ممکن ہے کوئی ایسا شخص موجود ہو جو تجھ سے چھوٹا ہو مگر اس کی عقل اور شعور تجھ سے بڑھ کر ہو یا وہ ایسے کاموں سے آگاہ ہو جن سے تو واقف نہیں، اُس صورت میں تیرا یہ بھاری بھرکم جسم کس کام کا؟
اونٹ گویا ہوا: یہ بھاری بھرکم جسم اس لیے ہے کہ بھاری بوجھ اُٹھائے، اس لیے نہیں کہ دھمکی آمیز باتیں سنے۔
لومڑی بولی: اونٹ سچ کہتا ہے۔ اب ان باتوں کو چھوڑیں اور یہ دیکھیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ آخر ہم دوپہر اور شام کا کھانا کہاں سے لائیں گے؟
بھیڑیا بولا: اس کی فکر نہ کرو۔ کھلا ہوا منہ بے روزی کے نہیں رہتا۔ کوئی بھی جگہ ہو، کُچھ نہ کُچھ مل ہی جاتا ہے۔ لومڑی بولی:بہت خوب، اب یہ طے کرلیں کہ اس سفر میں ہم باہم مل کر رہیں گے تاکہ بچھڑ نہ جائیں اور بالآخر کسی دوسری آبادی تک پہنچ جائیں۔
اونٹ ہنسا اور بولا: آبادی، آبادی! مجھے ان جانوروں پر بہت غصہ آتا ہے جو ہمیشہ آبادی، شہر اور اس طرح کی دوسری چیزوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ آبادی میں میرے لیے صرف بوجھ ڈھونا ہے اور بس اور تمھارے لیے بھی صرف لاٹھی اور ڈنڈا ہے۔ اللہ کی نعمتیں صحرا اور بیابان میں ہیں۔ آبادی میں رہنے والے انسان بھی اپنا نان و آب، لباس اور دیگر ساری چیزیں انھی صحراؤں، پہاڑوں اور جنگلوں سے حاصل کرتے ہیں۔ آبادی میں کُچھ بھی نہیں۔ جو شے بھی ہے صحرا، پہاڑ اور جنگل میں ہے، اللہ کی زمین میں ہے۔ تم بھی اگر مرغے کو پکڑنے کی فکر میں نہ ہوتے، بھیڑ کو ہلاک کرکے ہڑپ کر جانے کے پھیر میں نہ ہوتے، اگر صرف چرندے ہوتے تو میری طرح آرام سے رہتے، سو مجھے تو آبادی سے کُچھ لینا دینا نہیں لیکن خیر اب ہم سفر کا آغاز کرتے ہیں اور چونکہ ابھی تک ہم میں سے کسی نے کسی سے بدی نہیں کی سو ہم اکٹھے سفر کرتے ہیں۔
جب وہ ایک لمبی مسافت طے کرچکے اور ہر موضوع پر بات چیت ہوچکی تو وہ ایک ٹیلے کے کنارے موجود چشمے پر آپہنچے اور چونکہ سب کو پیاس لگی تھی، انھوں نے پانی پینے کا فیصلہ کیا۔ وہ جونہی چشمے کے پاس پہنچے، بھیڑیے نے ایک صاف پتھر کے اوپر ایک خشک روٹی دیکھی اور خوشی سے چلّایا:یہ لیجیے، میں نے کہا نہ تھا کھلا منہ بے روزی کے نہیں رہتا۔ یہ پانی اور یہ نان! لومڑی اور اونٹ بھی قریب آگئے اور انھوں نے قیاس کیا کہ کسی مسافر نے وہاں قیام کیا اور وہ ایک ٹوٹے ہوئے برتن، تھوڑی سی گھاس، راکھ اور اس طرح کی دوسری چیزوں کے علاوہ نان کی ایک ٹکیا بھی وہاں چھوڑ گیا تھا۔
اونٹ بولا: کیا کیجیے، صرف ایک نان ہے اور ہم تین لوگ۔ اگرچہ یہ بہت کم ہے لیکن اس خیال سے کہ کوئی بھی کل تک بھوک سے ہلاک نہ ہو جائے، ہمارے لیے کافی ہے۔
بھیڑیا بولا:اس نان پر میرا حق ہے کہ سب سے پہلے میں نے اسے دیکھا۔ لومڑی بولی: یہ کیا بات ہوئی؟ پہلے ہی مرحلے پر حیلہ گری اور درشتی۱ مناسب نہیں۔ بہتر ہے کہ ہم اس نان کے تین حصے کرلیں۔ اگر سچ پوچھو تو یہ نان مجھے کھانا چاہیے کیونکہ اونٹ صحرا میں گھاس کھا سکتا ہے۔ بھیڑیے کو بھی شکار کرنا چاہیے۔ میں سب سے زیادہ اس کی مستحق ہوں لیکن اب چونکہ ہم ایک دوسرے کے دوست بن چکے، یہی بہتر ہے کہ اس کے تین حصے کرلیں۔
بھیڑیا بولا: یہ بات تم نے درست کہی کہ اونٹ کو صحرا میں گھاس چرنی چاہیے مگر جہاں تک میرا تعلق ہے، سرِدست مجھے کوئی شکار دکھائی نہیں دیتا سوائے اس کے کہ اونٹ کو چیر پھاڑ دوں لیکن میں یہ کام کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اُسے ہم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم قرعہ اندازی کرلیں اور وہ جس کے نام کا نکلے، وہ نان کو اکیلا کھالے تاکہ کسی ایک کا تو پیٹ بھرے۔ پرانے وقتوں سے یہ کہاوت چلی آتی ہے کہ سو اُجڑے شہروں سے ایک آباد گاؤں بہتر۔
یہ سن کر اونٹ کو سخت غصہ آیا۔ اس کے منہ سے کف جاری ہوگیا اور وہ بولا: منہ سنبھال کر بات کر اور میرے مقابل مت آ کیونکہ تو اونٹ کے مقابلے میں پدّا سا ہے کہ اسے شکار کرسکے اور اگر تجھے ایسی ہی الٹی بات سُوجھی ہے تو میں تیرے سر پر ایک لات رسید کروں گا اور تو ڈھیر ہو جائے گا۔ میں تیرے منہ پر ایک تھپڑ دوں گا اور تو ستّرقلابازیاں کھا کر پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر جاگرے گا۔ ایک بات تو یہ ہوئی، دوسرے یہ کہ میں قرعہ اندازی کا بھی مخالف ہوں کیونکہ قرعہ ایک اندھی شے ہے اور قرعہ اندازی کے نتیجے میں حق دار کو اُس کا حق نہیں ملتا۔ لگتا ہے کہ تو بدفطرتی اور مکاری پر اُتر آیا ہے۔ اب جب معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے تو سن لے کہ اس نان پر میرا حق ہے کہ میں سب سے بڑا ہوں اور بزرگ کا احترام لازم ہے۔
بھیڑیا اونٹ کی باتیں سن کر خوف زدہ ہوگیا تھا لیکن ہمت کرکے بولا: بہت خوب بڑے میاں! مگر آخر بزرگی کا ثبوت کیا ہے۔ بزرگی عقل سے ہے۔
اونٹ بولا: نہیں بزرگی قد کاٹھ سے ہے۔ جب یہی طے کرلیا گیا کہ کسی امر میں دلیل اور منطق سے کام نہیں لیا جائے گا اور انصاف نہیں کیا جائے گا تو اس وقت بزرگی، زور اور مُکّے کا نام ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجھے نان کھانے پر اصرار نہیں۔ میں بہرحال کسی کی دَھونس میں نہیں آتا۔
لومڑی بولی: اب لڑائی جھگڑے سے باز آئیں۔ میں اپنے حق سے دستبردار۳ ہوتی ہوں لیکن اگر بزرگی عقل سے ہوتی ہے تو نان پر میرا حق ہے چونکہ میں سب سے زیادہ ہوش مند ہوں۔ اب میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے جس سے حق دار کو اس کا حق مل جائے گا۔ یہ کیسا رہے گا کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی آپ بیتی بیان کرے اور جس کی آپ بیتی سب سے عمدہ ہو وہ نان کا حق دار قرار پائے؟
بھیڑیا بولا: مجھے اس سے اتفاق نہیں کیونکہ ہر شخص کی آپ بیتی اس کے اپنے زعم میں عمدہ اور پرکشش ہوتی ہے۔ ہر کوئی کُچھ نہ کُچھ خودپسند ہوتا ہے اور ممکن ہے میں اپنی آپ بیتی کو تمھاری آپ بیتی سے زیادہ عمدہ سمجھوں اور تم اس سے اتفاق نہ کرو اور ذوق کے فرق کی وجہ سے پھر سے اختلاف شروع ہو جائے۔ بہتر یہی ہے کہ اونٹ کے قول پر عمل کریں اور کم عمری اور بزرگی کے احترام میں ہر کوئی اپنی اپنی تاریخ پیدائش بتائے اور جس کسی کی تاریخ پیدائش زیادہ پہلے کی ہو اور اس کی عمر زیادہ ہو وہ نان کا حق دار ٹھہرے۔
لومڑی بولی: تجویز تو عمدہ ہے۔
اونٹ نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اور بولا: یااللہ، تو شروع کریں۔ پہلے اپنی تاریخ پیدائش کون بتائے گا“؟ لومڑی نے جو مکاری میں مشہور ہے، تجویز پیش کی کہ سب سے پہلے بھیڑیا شروع کرے۔ اس نے دل میں سوچا کہ اس میں کیا برائی ہے کہ جو کُچھ بھیڑیا کہے میں اس سے زیادہ عمر کی بات کروں اور اونٹ کو بھی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے فریب دوں اور بالآخر نان کی اکیلی حق دار ٹھہروں۔ اونٹ نے اس سے اتفاق کیا کہ سب سے پہلے بھیڑیا اپنی بات شروع کرے۔
تب بھیڑیا بولا: جیسا کہ میرے والد نے اپنی دعا کی کتاب کی جلد کے پیچھے لکھا ہے، میری ماں نے مجھے حضرتِ آدمؑ کی خداوند کے ہاتھوں تخلیق سے سات روز پہلے جنم دیا۔
یہ سن کر حیرت سے اونٹ کا منہ تو کھُلے کا کھُلا رہ گیا مگر لومڑی نے بھیڑیے کی بات کو بہت آسان لیا اور کہا:ہاں ہاں ٹھیک کہا اس نے۔ جب بھیڑیے کی ماں اسے جنم دے رہی تھی، میں نے شمع ہاتھ میں تھام رکھی تھی اور روشنی کا اہتمام کر رہی تھی۔ اس وقت میں دس سال کی تھی۔“
اونٹ نے جب یہ باتیں سنیں تو اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کے ساتھی جھوٹ کی راہ پر چل پڑے ہیں اور اب اس کے لیے کہنے کو کُچھ نہیں رہا۔ یہ سوچ کر اونٹ نے اپنی گردن لمبی کی اور نان کی ٹکیا کو دانتوں سے پکڑ ایک لقمے کی طرح نگل گیا اور اسے کھانے کے بعد بولا: میں نے شروع ہی سے فیصلہ کیا تھا کہ میں یہ نان نہیں کھاؤں گا کیونکہ میری خوراک تو اصل میں گھاس ہے اور میں نے گمان کیا کہ چونکہ طے ہے کہ تم لوگ سچ بات کہو گے اور انصاف کو پیشِ نظر رکھو گے اس لیے میں چاہتا تھا کہ یہ نان اگر میرے مقدّر میں ہوا بھی تو میں یہ تمھیں بخش دوں گا لیکن اب جب تم نے کام کی بنیاد مکّاری پر رکھ دی اور معاملہ دگرگوں ہوگیا سو میں بھی ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ جو مائی کا لال بھی میرے جسم اور قد کاٹھ کو دیکھے گا، جان لے گا کہ میں بھی اپنی ماں کے بطن سے کل رات پیدا نہیں ہوا بلکہ تم سے بہت پہلے اس دنیا میں آیا ہوں اور اُسے بہت دیکھا ہے اور جو چیز عیاں ہے اس کے بیان کی کیا ضرورت؟

حصہ