ہم کیوں مسلمان ہوئے(آخری حصہ)

اب تو یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات ان لوگوں کی طرف سے تحریک اسلامی کے رہنمائوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کے مندروں میں آکر ان کے اجتماعات سے خطاب کریں اور ان کے سامنے اسلام کو اس کے اصل رنگ میں پیش کریں۔ چنانچہ انہی دنوں کی بات ہے کہ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد یوسف نے جن سنگھی رہنمائوں کی دعوت پر احمدآباد جا کر ان کے مندر میں درسِ قرآن بھی دیا اور اسلامی نظامِ زندگی کے مختلف پہلوئوں پر خطاب بھی کیا۔ اسی دوران نماز کا وقت آیا تو انہوںنے مندر ہی میں اذان دے کر اپنے احباب اور رفقا کے ساتھ نماز با جماعت ادا کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کے سلسلے میں افہام و تفہیم کی یہ کوششیں جاری رہیں تو ان شاء اللہ یہ لوگ اسلام سے قریب سے قریب تر آتے جائیں گے اور کعبے کو اس صنم سے خانے سے کتنے ہی پاسبان مل جائیں گے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر نے بتایا ’’میرا یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا۔ بھارت میں‘ میں پچیس دن ٹھہرا اور یہ عرصہ شمالی ہندوستان سے جنوبی ہندوستان تک مسلسل سفر میں گزرا۔ جہاں بھی گیا میرا بڑا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام منعقدہ جلسوں طلبہ کے اجتماعات اور مسجدوں میں عامۃ المسلمین سے اکثر خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ہر جگہ مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلے میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں سے کس طرح عہدہ براں ہو سکتے ہیں۔
اس دورےکے دوران کئی ہندو نوجوان بھی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ اس بات سے حد درجہ متاثر تھے کہ ایک ایسا نوجوان جو ابھی چند ہی سال پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا‘ اسلام کی دامانِ عاطفت میں آنے کے بعد کیا سے کیا ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ اسے اسلام کے تصورِ مساوات کے مطابق باقی مسلمانوں کے برابر سمجھا گیا بلکہ اس کی صلاحیتوںکے بنا پر رابطۂ عالمِ اسلامی ایسے اہم عالمی اسلامی ادارے میں ایک اہم منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔ ان میں اکثر نوجوان مجھ سے تخلیے میں ملنے کے خواہش مند تھے لیکن میرا پروگرام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ میں اپنی مسلسل مصروفیتوں کی بنا پر ان نوجوانوں سے الگ ملاقات کے لیے وقت نہ نکال سکا۔ بہرحال وہ لوگ میری شخصیت میں قبولِ اسلام کے نتیجے میں رونما ہونے والے انقلاب سے حد درجہ متاثر تھے۔ آئندہ کبھی مجھے بھارت کے دورہ پر جانے کا موقع ملا تو اپنا پروگرام کچھ اس طرح ترتیب دوں گا کہ میں ان نوجوانوں سے خصوصی ملاقات کے لیے وقت نکال سکوں۔‘‘
’’کیا آپ اپنے والدین سے بھی ملے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں میں اپنے والدین سے بھی ملا تھا۔ وہ بھی میری شخصیت کے اندر اسلام کی برکت سے پیدا ہونے والی عظیم تبدیلی نیز میرے رابطۂ عالمِ اسلامی میں ایک اہم منصب پر فائز ہو جانے کی وجہ سے بے حد متاثر تھے۔ انہیں مزید متاثر میرے طرزِ عمل نے کیا جو میں نے پانچ چھ سال سے ان کے بارے میں اختیار کر رکھا تھا۔ میں ان کی کفالت کی ساری ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں اور یہ بات ان پر واضح کر دی ہے کہ میرا ان کے ساتھ یہ طرزِ عمل اسلام کے واضح احکامات اور تعلیمات کی بنا پر ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ اگر کسی کے والدین اسلام نہ قبول کریں تو بھی ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا جائے۔ میں نے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسلام کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں لیکن سرِدست ہم اپنے اندر قبول اسلام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔ میں نے بھی زیادہ اصرار کرنے کے بجائے یہی مناسب سمجھا کہ ان کے حق میں اللہ سے دعا کرتا رہوں اور اس دن کا انتظار کروں جب اللہ کے فضل سے ان کے دل میں اسلام کے لیے شیفتگی خود بہ خود تڑپ میں تبدیل ہو جائے۔ وہ کسی خارجی دبائو کے بجائے خود اپنے داخلی دبائو سے حلقۂ بگوش اسلام ہو جائیں۔ اللہ نے چاہا تو وہ دن دور نہیںہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات صبح دس بجے ان کی رہائش گاہ پر جو مسجد الحرام سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہے‘ شروع ہوئی تھی اور اب مغرب کی اذان کو صرف آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ اس دوران میں ہماری گفتگو تقریباً تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ صرف ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھنے کے لیے اٹھے۔ دوپہر کے کھانے اور چائے کے دوران بھی گفتگو ہوتی رہی اور اب جب میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری اس گفتگو کو شروع ہوئے سات گھنٹے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دل چسپ باتوں نے وقت کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ میں نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے آخری سوال پوچھا:
’’کیا آپ ملتِ اسلامیہ کے نام کوئی پیغام دیں گے؟‘‘
’’ملتِ اسلامیہ کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ خیرالامت کی حیثیت سے وہ دنیا میں نوعِ انسانی کی قیادت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس کا کام دوسری قوموں کے پیچھے چلنا نہیں‘ ان کی رہنمائی کرنا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ خدا سے پھرے ہوئے انسانوں کو اسلام کے زندگی بخش نظام کی طرف دعوت دے اور انہی تباہی اور بربادی سے ہمکنار ہونے سے بچائے۔ اس نے ایسا نہ کیا تو وہ خود بھی تباہ ہوگی اور باقی نوع انسانی کی تباہی کا وبال بھی اسی کے سر ہوگا۔ اس سلسلے میں تحریک اسلامی کے کارکنوں پر شدید ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کو دین کی دعوت یعنی فریضہ اقامتِ دین سے روشناس اور وابستہ کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں وقف کردیں تاکہ صحیح اسلامی نظام کا قیام عمل میں آسکے اور ملتِ اسلامیہ ایک بار پھر خیر امت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو کر نوع انسانی کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ یہ کام بلاشبہ جان و مال کی غیر معمولی قربانیوں کا طلب گار ہے لیکن اگر ہم اسلامی انقلاب برپا کرنے کے سلسلے میں واقعی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو ہمیں جان و مال کی یہ قربانیاں بہرحال دینی پڑیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے دنیا کے کسی ایک خطے میں بھی اسلامی نظامِ حیات کو عملاً قائم کر لیا تو وہ دن دور نہیں جب خدا سے پھری ہوئی وہ قومیں جو آج اپنے خود ساختہ لادینی نظام ہائے زندگی کے ہاتھوں تباہی کے کنارے پر کھڑی ہیں‘ اسلامی نظامِ زندگی کی برکتوں کو دیکھ کر اسلام کے دامنِ عاطفت میں آجائیںگی۔‘‘
انٹرویو مکمل ہو چکا تھا‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا‘ ان سے اجازت لی اور حرم کی جانب روانہ ہو گیا کہ مغرب کی اذان میں صرف چند منٹ باقی تھے۔ حرم کی طرف چلتے ہوئے میں نے سوچا اسلام نہ صرف یہ کہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے بلکہ یہ ایک زندگی بخش نظام بھی ہے اور اگر اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر قرنِ اوّل میں عرب کے بدوئوں میں ابوبکرؓ اور عمرؓ جیسے انسان پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کے اثر سے آج اس گئے گزرے دور میں بھی ایک ہندو نوجوان حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد ڈاکٹر ضیا الرحمن بن سکتا ہے۔