قمر جمیل کا انٹریو (حصہّ آخر)

350

طاہر مسعود: آیئے ہم نثری نظم کے معاملے کو یہاں پر قارئین کے سپرد کرکے اردو تنقید کے مختلف مکاتب فکر کی طرف چلیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی دھرتی پوجا‘ افتخار جالب کی لسانی تشکیل‘ شمس الرحمن فاروقی کی جدیدیت‘ سلیم احمد کی کلاسیکیت اور آپ کی ادبی تصورات ان تمام ادبی مسلکوں میں بعد المشرقین ہے۔ یہ بتایئے کہ آپ سب اپنے تصورات میں ایک دوسرے سے کس طرح مختلف ہیں اور کیا ان تصورات میں کسی نکتۂ اتصال کا امکان موجود ہے؟
قمر جمیل: نکتۂ اتصال تو ناممکن ہے۔ یہ ساری جہتیں جدید ادب کے مختلف نقاط نظر سے پیدا ہوئی ہیں۔ میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کی تحریروں سے بہت زیادہ واقف نہیں ہوں اس لیے ان پر بہت زیادہ رائے نہیں دے سکتا۔ صرف اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں جدید رجحانات کو آگے بڑھایا ہے اور وہاں جدیدیت کے سب سے بڑے علم برداروں میں سمجھے جاتے ہیں۔ سلیم احمد صاحب ادب کو سماجی اور تہذیبی پس منظر میں دیکھتے ہیں اور ان کے ادبی خیالات پر عسکری صاحب کا بہت گہرا اثر ہے۔ ان کا مضمون ’’ادھوری جدیت‘‘ جدیدیت سے ان کی بے اطمینانی ظاہر کرتا ہے۔ وزیر آغا صاحب شاعری میں تہذیبی فضا کے ساتھ ساتھ نظموں کی ساخت پر زور دیتے ہیں اور زمینی عناصر کو بہت زیادہ اہم ٹھہراتے ہیں۔ افتخار جالب کی لسانی تشکیلات کے پس پردہ وٹگنسٹائن کے نظریۂ لسانیت کا ہاتھ ہے اور اس کے علاوہ گسٹارٹ نفسیات کا تعلق برطانیہ کے ان فلاسفروں سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاعری کی زبان اور بول چال کی زبان میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے۔ شاعری کی زبان اپنی ایک مخصوص ساخت رکھتی ہے۔ شاعری دراصل اسی ساخت کی پیداوار ہے اور گسٹارٹ نفسیات کی رُو سے ہم اشیا کا ادراک کُل کے ذریعے کرتے ہیں‘ جزو کے ذریعے نہیں۔ ان دو بنیادی نظریات سے افتخار جالب نے اپنی لسانی تشکیلات کا نظریہ مرتب کیا تھا اور اس نظریے کے مطابق انہوں نے اپنے شعری مجموعے ’’ماخذ‘‘ میں شاعری بھی پیش کی۔ پاکستان اور ہندوستان میں افتخار جالب کی لسانی تشکیلات کو رد کر دیا گیا اور افسوس کی بات یہ بھی ہے وٹگنسٹائن نے اپنی آخری تصانیف میں اپنے ابتدائی نظریے کی تردید کر دی تھی۔ اس پر افتخار جالب نے توجہ نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ وٹگنسٹائن کے بعد جو دوسرے عالمی شہرت رکھنے والے ماہرین لسانیات آئے‘ انہوں نے بھی شاعری اور زبان کے نظریے کی تردید کر دی۔ اس طرح افتخار جالب کا نظریہ نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ جہاںسے یہ آیا تھا‘ وہاں بھی رد کر دیا گیا۔ پھر افتخار جالب نے کروٹ بدلنے کی کوشش کی اور یہ اعلان کیا کہ جدیدیت امریکی سامراجی سازش کا نتیجہ ہے اور پھر اس مضمون میں انہوں نے حبیب جالب کی شاعری کو ایک اعلیٰ شاعری کے نمونے کے طور پر قبول کیا۔ اس طرح عملاً اپنے نظریات کی تردید کے مرتکب ہوئے۔ بہرحال افتخار جالب کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک مغربی نظریے کو سنجیدگی سے اوڑھا‘ بچھایا اور آخر میں لپیٹ دیا۔ اس طرح ان کا نام ان لوگوں کی صفوں میں ضرور رہے گا جنہوں نے ادب میں سنجیدگی سے تجربے کیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے‘ میں اب بھی اپنے امریکا کی دریافت نہیں کر سکا ہوں لیکن مجھ میں مشرقی روایات سے اور تہذیب سے محبت کے باوجود مغربی عوام کا احترام باقی ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ مغربی نظریات کو اپنے کلچر کی روشنی میں جذب کیا جائے۔ انجذاب کا یہ عمل اتناسطحی نہیں ہوتا جتنا ڈاکٹر وزیر آغا اور افتخار جالب سمجھتے ہیں۔
طاہر مسعود: کہیں عسکری صاحب سوچی سمجھی ادبی سیاست بازی اور گروہ بندی کا شکار تو نہیں ہو رہے ہیں؟
قمر جمیل: جی ہاں اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ متضاد سیاسی رائے رکھنے والے لوگ عسکری کو اپنے درمیان لڑائی جھگڑے کی ہڈی نہ سمجھ لیں۔ بہرحال یہ صورت حال خوش گوار نہیں ہے۔
طاہر مسعود: شہر میں آئے دن کتابوں کی تقریب رونمائی منعقد ہوتی رہتی ہے لیکن میںنے آج تک کسی ایسی تقریب میں آپ کو نہ شرکت کرتے نہ مضمون پڑھتے دیکھا‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
قمر جمیل: ایک بار مجھے ایک تقریب رونمائی میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس میں شریک ہونے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس قسم کی تقریبات شادی بیاہ کی تقریبات کی طرح بے معنی ہیں۔ جس طرح ان تقریبات میں سہرے پڑھے جاتے ہیں‘ کتابوں کی تقریب رونمائی میں تقریریں کی جاتی ہیں۔ ان تقریبات میں مجھے ادب کی بے حرمتی کے علاوہ کچھ نہیں نظر آتا۔ ایک صاحب صدر کو تو میں نے اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد یہ کہتے سنا کہ بھئی ’’بس یا اور کچھ کہوں؟‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ ادب کی اس سے زیادہ بے حرمتی اور لفظوں کی اس سے زیادہ بے عزتی اور کہیں کی جاتی۔
طاہر مسعود: ایک شاعر کے لیے تنہا رہنا کس حد تک ضروری ہے؟
قمر جمیل: میرے خیال میں جو شاعر تنہا نہیں رہ سکتا‘ وہ شاعر نہیں ہو سکتا۔ ایک فرانسیسی شاعر کا قول ہے کہ ’’شاعری کی دیوی ڈائننگ ٹیبل پر نہیں آتی۔‘‘
طاہر مسعود: شاعر تو بے شمار ہیں‘ شاعری کی دیوی کس شاعر کا انتخاب کرتی ہے اور کس کے پاس آتی ہے؟
قمر جمیل: بہت کم شاعروں کے پاس۔ کچھ لوگوں کے پاس اگر آئی بھی ہے تو اپنی چپلیں چھوڑ گئی ہے۔ دو چار ایسے شاعر لاہور میں بھی ہیں اور کراچی میں بھی۔
(2)
طاہر مسعود: آپ کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مغربی تہذیب کو انسانی اقدار کے معیار سے فروتر پاتے ہیں لیکن عملاً دیکھا جائے تو مغرب کی اخلاقی اقدار اب بھی کئی اعتبار سے مشرقی ملکوں سے بہت بہتر ہیں مثلاً وہاں احترامِ آدمیت پایا جاتا ہے۔ جھوٹ‘ دھوکا دہی سے نفرت کی جاتی ہے۔ ایمان داری اور دیانت و امانت کا لحاظ پاس ہے۔
قمر جمیل: مغرب کا یہ تصور محض خوش گمانی پر مبنی ہے۔ وہاں اصل چیز مادّہ پرستی ہے۔ اصل اہمیت دولت کی ہے‘ اگر دولت نہیں ہے تو ایمان داری بھی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے جو تہذیبی مسائل ہیں کیا اس کی نمائندگی ہمارے ادب میں ہو رہی ہے؟
قمر جمیل: روحانی ادب ناکام ہو گیا ہے۔
طاہر مسعود: روحانی ادب سے آپ کی کیا مراد ہے؟
قمر جمیل: ایسی غزلیں جن میں تصوف کے مضامین بیان کیے جاتے تھے۔ اس کے برعکس منٹو اور عصمت چغتائی حسّی کلچر کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان کے ہاں تصادم ہے مثلاً عصمت افسانے میں اور ن م راش شاعری میں۔ ن م راشد کے ہاں توخدا کے خلاف نظمیں ملتی ہیں۔
طاہر مسعود: نثری نظم کی تحریک بھی اسی رجحان کی مظہر تھی؟
قمر جمیل: جی ہاں یہ تحریک بھی روحانیت سے گریز اور مادّہ پرستی کی مظہر تھی۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں نثری نظم کا تجربہ ناکام رہا؟
قمر جمیل: ہاں میرے خیال میں یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ سب بچکانہ باتیں ہیں۔ اب میرا ذہن کسی اور سمت میں ہے۔ میں نثری نظم کو مفید نہیں سمجھتا اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ بھی نہیں نکلا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے طالب علم امتحان میں بیٹھیں اور امتحان دینے کے بجائے پرچے پھاڑ کر چلے آئیں۔
طاہر مسعود: آپ کی رائے میں کوئی بھی شاعری نثری نظم میں کامیاب نہیں ہوسکا؟
قمر جمیل:اب میں کیوں کہوں کہ کوئی نثری نظم کا شاعر مجھے اچھا نہیں لگتا کیوں کہ بنیاد تو میں نے ہی رکھی تھی لیکن سچی بات یہی ہے کہ کوئی شاعر نثری نظم میں اچھا نہیں آیا۔ سب انتشار کا شکار ہیں۔
طاہر مسعود: پھر پوچھنا چاہوں گا کیا کوئی ایک شاعر بھی نثری نظم میں کامیاب نہیں ہوا؟
قمر جمیل: جی ہاں اب تک کوئی کامیاب نہیں ہے۔ اگر کوئی کامیاب ہوئی ہے تو وہ عذرا عباس ہے جس کی نظم ’’نیند کی مسافتیں‘‘ ہے۔
طاہر مسعود: بہت سے شعرا نے جو روایتی غزلیں بہت اچھی لکھ رہے تھے انہوں نے آپ کے زیر اثر نثری نظمیں لکھیں مثلاً رسا چغتائی اور رئیس فروغ۔ یہ شعرا نثری نظم تو کیا لکھتے غزل سے بھی گئے۔
قمر جمیل: یہ روایت کا پروردہ ذہن تھا اس لیے وہ واپس چلے گئے۔ وہ غزل کے آدمی تھے غزل کے آدمی کونظم کی طرف دھکیل دیا اس لیے کامیابی نہیں ہوئی۔ اب تو نثری نظم کا گراف نیچے گر گیا ہے۔
طاہر مسعود: ادب کی موجودہ صورت ہال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
قمر جمیل: تہذیبی صورت حال کا ادب سے گہرا تعلق ہے۔ مغرب اور مشرق کے درمیان کشمکش کی صورت حال ہے۔ افسانے لکھے جارہے ہیں لیکن ایک افسانہ بھی ایسا نہیں ہے جسے جدید کہا جاسکے۔
طاہر مسعود: تخلیق کے سوتے خشک کیوں ہو گئے ہیں؟
قمر جمیل: اپنے تہذیبی مرکز سے رابطہ ٹوٹ جائے تو سوتے خشک ہو جائیں گے۔ حسن عسکری صاحب کا ذہن بہت بڑا تھا۔ ان کی افسانہ نگاری اور ناول پر بڑی گہری نظر تھی۔ جو چیزیں انہوں نے لکھی ہیں‘ ان میں جو مقام اور کیفیت ان کے ہاں ہے کسی اور کے ہاں نہیں ملے گی سوائے منٹو کے۔
طاہر مسعود: آپ نے ایک ادبی رسالہ ’’دریافت‘‘ نکالا‘ بہت عمدہ رسالہ تھا بند کیوں ہو گیا؟
قمر جمیل: اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے سارے رسالے ڈاک خانے سے بھیجنے پڑتے تھے۔ خطوط کا جواب دینا پڑتا تھا۔ میرے بچوں کو بھی اس سے دل چسپی نہیں تھی۔
طاہر مسعود: رسالے سے کوئی آمدنی ہوتی تھی؟
قمر جمیل: کوئی آمدنی نہیں ہوتی تھی۔
طاہر مسعود: کوئی خسارہ؟
قمر جمیل: نہ خسارہ نہ فائدہ۔
طاہر مسعود: مگر ادیبوں سے رسالے کے ذریعے رابطہ قائم تھا؟
قمر جمیل: ہاں رابطہ تو تھا۔
طاہر مسعود: اعزازی رسالے کتنی تعداد میں آپ بھیجتے تھے؟
قمر جمیل: ابتدا میں ایک ہزار رسالہ بعد میں پانچ سو اور ہر رسالے پر دس‘ پندرہ روپے کے ٹکٹ لگتے تھے۔
طاہر مسعود: اس سے خوشی ہوتی تھی؟
قمر جمیل: بہت زیادہ۔ بچوں کی طرح خوش ہوتا تھا۔
طاہر مسعود: کسی ادیب نے کبھی آپ کو لکھا کہ ہم آپ کا رسالہ خریدنا چاہتے ہیں؟
قمر جمیل: میں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ ادیب خلوص میں کہتے تھے کہ چندہ بھیجیں گے۔ بعض بھیجتے بھی تھے لیکن مجھے برا لگتا تھا۔
طاہر مسعود: آپ رسالے کو خود بھی بیچنا نہیں چاہتے تھے‘ مفت دینا چاہتے تھے؟
قمر جمیل: ہاں میں مفت دینا چاہتا تھا۔ میری سب سے بڑی شرط تھی کہ کم علم آدمی کے ہاتھ میں میرے رسالے کو نظر نہیں آنا چاہیے۔
طاہر مسعود: اگر کوئی کتب فروش آتا کہ قمر بھائی آپ اپنے رسالے کی سو کاپیاں دے دیجیے تو آپ کیا کرتے؟
قمر جمیل: کچھ رسالے لاہورکے بک سیلروں کو دیے مگر وہ بیچ کر پیسے کھا گئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں ایسے ادیب ہیں جنہیں رسالہ بھیجنا چاہیے لیکن جن کو ایسا سمجھتا تھا‘ انہیں بھیجتا تھا۔ کئی ادیبوں کو رسالہ نہیں بھیجتا تھا۔ گوپی چند نارنگ اور وارث علوی کو رسالہ بھیجتا تھا‘ جو انتہائی پڑھے لکھے ادیب ہیں۔
طاہر مسعود: اب میں آپ سے ایک سوال صاف صاف پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اپنی زندگی کے تیس سال ادب کو دیے آپ اگر اب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پچھتاوا تو نہیں ہوتا کہ آپ نے اپنی زندگی کیاتنے برس خواہ مخواہ ضائع کر دیے؟
قمر جمیل: بھائی مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ ادب سے جو کچھ حاصل ہوا وہ کسی اور ذریعےسے ہو ہی نہیں سکتا تھا‘ جو کچھ ادب کے مطالعے کے بعد اب میں ہوں‘ میں نے فزکس یا ریاضی بھی پڑھی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میرا مطالعہ بہت وسیع ہے لیکن پھر بھی ہے۔ آج کل تو ادب کا مطالعہ بھی لوگ ڈھنگ سے نہیں کرتے اور جب گفتگو کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ فائر کر رہے ہیں۔ مغرب اور مشرق کی تہذیب کا مطالعہ ہونا چاہیے اور ہو سکے تو اسلام کا بھی۔ بہرحال مطالعہ کیے بغیر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔
طاہر مسعود: ایک ادیب کو کتنا پڑھنا چاہیے؟
قمر جمیل: ادیب بننے کے لیے۔ ادیب بننے کا عمل اور مطالعے کا عمل ساتھ ساتھ جارہی رہنا چاہیے۔ مطالعہ اگر وسیع نہیں ہوگا تو آپ کو معلوم ہی نہیں ہو سکی گا کہ ادب کا سفر کتنا آگے بڑھا ہے۔ (اختتام)

حصہ