ڈاکٹر قدیر کوفیوں سے رخصت ہوئے

422

ڈاکٹر صاحب کا اپنا شعر ہے۔۔
گزر تو خیر گئی ہے میری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
وفاقی اردو یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا مگر اس دن جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔کھچاکھچ بھرا آڈیٹوریم جو اندر نہ آسکے باہر کھڑے منتظر کہ وہ اپنے محسن کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔۔
شگفتہ فرحت کی کتاب تذکرۂ شخصیات بھوپال ، کی تقریب رونمائی میں ہم بھی ان کے مدعوئین میں تھے۔
تقریب کی کشش ڈاکٹر عبد القدیر خان کی آمد تھی۔
نوجوانوں کا جوش دیدنی تھا۔ان کو جو محبوبیت حاصل تھی وہ صدیوں میں کسی کا مقدر بنتی ہے۔
سخت سیکورٹی میں ڈاکٹر صاحب آڈیٹوریم کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔ان پر نظر پڑتے ہی نوجوانوں نے فلک شگاف نعرے لگائے اور آڈیٹوریم کے درودیوار پر ثبت ہوا کہ
مشک آنست کہ خود ببوید ناکہ عطار بگوید
وہ مشک صفت فخر پاکستان ہی نہیں فخر عالم اسلام تھے.
آڈیٹوریم میں ان کی گھن گرج سے پاک عاجزانہ گفتگو،جس میں تقریر کا شائبہ بھی نہ تھا۔یوں ہم کلام ہوئے جیسے دوستوں کی محفل۔۔۔
سخت سیکورٹی کے حصار نے انھیں کسی سے ملنے نہ دیا۔
سب خوش تھے اس عظیم انسان کو دیکھ کر جس نے مسلم دنیا کی آبرو قائم رکھی تھی۔
وہ اپنی پر تعیش زندگی چھوڑ کر صرف وطن کی محبت میں واپس آئے تھے۔مورخ سوال کرے گا کہ وہ ایک آزاد ملک میں کس جرم کی پاداش میں نظر بند کیے گئے۔وہی ناکردہ جرم جس کی سزا ڈاکٹر عافیہ بھگت رہی ہیں۔
آہ۔۔۔نہ محسن فراموش کیے جاسکیں گے نہ تخت شاہی کے مجرم ۔۔
ہمارا محسن آج ہمیں غمگین چھوڑ گیا۔
جھیلوں،تالابوں،محبتوں اور وفاؤں کا شہر بھوپال جس سے نسبت کی خوشبو گاہے گاہے ان کے قلم سے پھوٹتی تھی آج اداس ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب پر درجنوں کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔
تمغۂ امتیاز نے ان کی نہیں انھوں نے تمغۂ امتیاز کی آبرو بڑھائی۔
کچھ لوگوں کے جانے پر دل سوچتا ہے کہ وہ ’’کچھ لوگوں‘‘ کا حساب سخت کر گئے۔جنرل مشرف آج عبرت کا نشان ہیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا گواہی دے رہا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر قوم کے ہیرو تھے۔
وہ تو شکر ہے کہ روز حشر قوموں کا نہیں افراد کا حساب ہوگا ورنہ بحیثیت قوم ڈاکٹر صاحب کی ناقدری پر ہم ہلا مارے جاتے۔۔
یہ کیا کم سزا ہے کہ آج پاکستان برین ڈرین میں شائد پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان کے قابل آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹرز،انجینرز،ریسرچرز جو وطن کی خدمت کرنا چاہتے ہیں جب وہ محسنوں کے ساتھ یہ بے وفائی دیکھتے ہیں تو دیار غیر کا رخ کرتے ہیں اور ان ملکوں کی خدمت کرنے لگتے ہیں۔
یہ ضرب المثل ہے کہ یہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے۔۔
آپ اپنے دشمن کی اقدار دیکھئے وہ ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد الکلام کو ملک کا صدر بناتے ہیں۔اس قدردانی کے نتیجے میں جب نوجوانوں کا ٹیلنٹ سامنے آتا ہے تو۔۔۔ ان کا شہر بنگلور سیلیکون ویلی بننے جارہا ہے۔
ہم ڈاکٹر صاحب کی قدر کرتے تو وہ جنھوں نے ایک غریب قوم کو ایٹم بم کا تحفہ دیا کیا وہ سیلیکون ویلی کا تحفہ نہ دے سکتے تھے۔
قومیں گرین لائن اور میٹرو سے ترقی نہیں کرتیں۔ افراد کی قدردانی قوموں کا اصل جوہر ہوتی ہے۔
محسن پاکستان کا خطاب ڈاکٹر صاحب کو قوم نے دیا تھا۔
قوم کے دلوں میں وہ حشر تک زندہ رہیں گے۔۔
ڈاکٹر صاحب اتنی ناقدری کے باوجودِ جی داروں کی طرح جئے۔ملک کے معروف اخبارات میں شائع ان کے کالم علم وادب کا بہترین عکاس تھے۔جن میں ان کا کرب کبھی کبھی لہو بن کر جھلکتا تھا۔۔
قرآن سے انکا عشق۔صوفیاء سے ان کی محبت،کلام رومی پہ ان کی گہری نظر،کلام اقبال پہ ان کی دسترس،وطن کی محبت ان کا ایمان۔۔۔
ایک خوف خدا رکھنے والا دل جو زمین کے اوپر تھا آج اس نے خاک کی چادر اوڑھ لی۔۔
انکی مغفرت کی دعا کے ساتھ جو احساس جرم و ندامت ہے اس کے مداوے کی یہی صورت ہے کہ
ڈاکٹر صاحب کا ملک کو ایٹم بم کا تحفہ، ہم اگلا قدم اٹھائیں اور پاکستان میں ڈاکٹر عبد القدیر خان سیلیکون ویلی بنائیں۔۔
ڈاکٹر صاحب بھی تنہا ایک مشن لے کر وطن پلٹے تھے۔پھر لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔آج کوئی محب وطن آگے بڑھے اور اس ندامت کا ازالہ کرے جو ڈاکٹر صاحب کی جدائی پر ہمارے رگ وپے میں اتر گئی ہے۔
قدردانی۔۔۔
ہم یونیورسٹی کے تیسرے سال میں تھے۔ہماری کلاس کی سب سے ذھین طالبہ ڈیفنس میں اپنے گھر کے بیڈ روم میں مردہ پائی گئی۔شائد ہارٹ فیل ہوا تھا رات کو کسی وقت۔
شعبہ میں شدید رنج و الم کا سماں تھا۔کوئی کلاس نہیں ہوئی اس روز ۔پوائنٹ کی خصوصی بسوں سے ہم سب اس کے گھر گئے۔تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔
کچھ دن بعد شعبہ کی لائبریری میں کتابوں کی شیشے والی الماری لاکر رکھی گئی۔جس کے ایک کونے پر لگی سلور پلیٹ پر حنا کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔
جب لائبریری میں بیٹھتے الماری پر نظر پڑتے ہی اس کی یاد آتی۔۔ ہمارے بعد بھی برسوں وہ الماری وہاں رہی ہوگی اس کی یاد دلاتی۔۔شائد آج بھی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری کے کسی گوشے میں وہ موجود ہو!!
کتنے پیارے طریقے سے اس کے ہم جماعتوں نے اپنے جیب سے فنڈ اکٹھا کرکے اپنی ساتھی کو خراج تحسین پیش کیا۔
کل مجھے ہسپتال میں لگی وہ تصویر بہت یاد آئی جو شائد ہسپتال کے بانی کی تھی۔
ایسی تصویریں تو لگی ہی ہوتی ہیں گھروں اور اداروں میں۔وہ تصویر جو داخلی دروازے کے بائیں جانب دیوار پر لگی تھی اس کے نیچے سنہری ریک تھا۔
اس کی خاص بات یہ تھی کہ جتنے دن میری بچی ہسپتال میں رہی ہر دن اس تصویر کے نیچے لگے سنہری ریک پر میں تازہ گلاب رکھے دیکھتی تھی۔
جب جب ہسپتال جانا ہوا ہمیشہ وہاں تازہ گلاب رکھے دیکھے۔
سوچنے لگی وہ کون ہے جو روز ایسا کرتا ہے شاید انتظامیہ۔۔۔
کتنی بڑی بات ہے روز یادوں کے گلاب،جانے والے کی خوشبو سے فضا کو معطر کرنا۔۔۔
۔۔۔۔ہم تو روز والدین کے لیے دعا تک نہیں کر پاتے!!
اگر جامعہ کراچی کے ایک شعبہ کی، ایک ہسپتال کی،اعلیٰ اقدار ہوسکتی ہیں تو قوموں اور ریاستوں کی بھی اقدار ہونا چاہئیں!!
ڈاکٹر عبد القدیر خان کے جنازے کو ریاستی پروٹوکول دیا گیا مگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو نظریں تلاش ہی کرتی رہ گئیں۔
کیا صرف گارڈ آف آنر پیش کرکے حق ادا ہوگیا؟؟
(سیلیکون ویلی تو ایک خواب ہے۔)
سردست…
*ملک کے کسی ائیرپورٹ کو ڈاکٹر صاحب کے نام منسوب کیا جائے۔
*کسی یونیورسٹی کا نام بدل کر ان کےنام پر رکھا جائے۔
(یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان کے نام پرتحقیقی یونیورسٹی قائم کی جائے۔)
* یونیورسٹیوں میں ان کے نام کی چیئرز قائم کی جائیں۔۔
*ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا جائے۔۔
* جامعات میں کسی لائبریری کی پیشانی پر ان کا نام کندہ کیا جائے۔
*شعبہ فزکس میں انکے نام کی اسکالر شپ اور ایوارڈز جاری کیے جائیں۔
*مختلف شہروں کے کچھ معروف چوراہوں کو ان کے نام منسوب کیا جائے۔
ہم اپنے ہیروز کو زندہ رکھیں گے تو زندہ قوموں میں شامل ہوںگے۔
انھیں ٹریبیوٹ پیش کرنے کے بھی کچھ ایس او پیز ہونا چاہئیں۔
محسن قوم ڈاکٹر عبد القدیر خان کو یاد کرنے کے لیے صرف 10 اکتوبر کا دن مختص نہ کریں۔

حصہ