مرد فقرو عشق ڈاکٹر عبدالقدیر کان ؒ 1936-2021

307

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت کا احاطہ صرف محسنِ پاکستان سے نہیں ہوتا۔ قائداعظم کی جدوجہد اور عزم نے پاکستان بنایا تھا، تو ڈاکٹر عبدالقدیر نے اپنے عزم، جدوجہد اور لگن سے پاکستان کو بچایا ہے۔ اور آج ہم اس بچے کھچے پاکستان میں آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں، جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا پڑوسی ملک ہمیں ہڑپ کرنے کو تیار ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر پاکستان 1971ء سے قبل ایٹمی قوت بن چکا ہوتا تو آج مشرقی پاکستان ہمارا حصہ ہوتا۔ اور یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اگر پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا تو خدانخواستہ آج موجودہ حالت میں نہیں ہوتا۔ جب انڈیا جنگ کی تیاری میں تھا، انڈین فوج کی براس ٹیک جنگی مشقوں کا آغاز ہوچکا تھا، تو ڈاکٹر قدیر نے ”براس ٹیک“ سے چند ہفتے قبل جنرل ضیا کو ایک تحریری پیغام بھجوایا تھا کہ پاکستان دس دن کے نوٹس پر جوہری بم بنانے کے قابل ہے۔ جس کے بعد ضیاالحق جے پور میں راجیو گاندھی سے ملے تھے جہاں وہ کرکٹ میچ دیکھنے گئے تھے۔ ضیا نے راجیو سے کہا کہ اگر بھارتی فوج فوری واپس نہ ہوئی تو وہ جوہری حملے کا حکم دے دیں گے۔ راجیو اس پر گھبرا گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے بھارتی فوج کی فوری واپسی کا حکم دے دیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے بڑے، بہادر اور باصلاحیت لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جس طرح یہ قوم قائداعظم کا احسان نہیں بھول سکتی، اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ ڈاکٹر قدیر خان ہی تھے جو اپنی پُرکشش تنخواہ چھوڑ کر کچھ سوچے سمجھے بغیر 3 ہزار روپے ماہوار کی نوکری پر پاکستان آگئے۔ ڈاکٹر صاحب کا خاندانی لحاظ سے ترکی نسل سے تعلق ہے اور غوری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ 27 اپریل 1936ء کو ہندوستان کے شہر بھوپال میں اسکول کے استاد عبدالغفور کے گھر پیدا ہوئے۔ والدہ کا نام زلیخا تھا۔ بھوپال کا ذکر کرتے ہوئے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ”بھوپال میں غدار اور قادیانی پیدا نہیں ہوئے“۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعلق پشتون خاندان اورکزئی سے تھا۔ ان کے بہن بھائی 1947ء میں ہی انڈیا سے پاکستان ہجرت کرچکے تھے، تاہم آپ نے 16 برس کی عمر میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ 1952ء میں بھوپال سے ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ہجرت کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے 1984ء میں کسی میگزین کو دیے گئے پہلے انٹرویو میں معروف انٹرویو نگار جلیس سلاسل کو بتایا کہ ”کھوکھراپار کے راستے پاکستان چلا آیا۔ اس سفر میں تقریباً 8میل کا سفر پیدل ننگے پاؤں جلتی ریت میں طے کیا، اور اجمیر شریف سے موناباؤ تک ریل کے سفر میں ہندوستانی افسروں اور پولیس والوں کے ہاتھوں جو اذیت اور ذلت اٹھانی پڑی وہ تاحیات یاد رہے گی“۔
آپ نے 1954ء میں ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی کیا۔ اپنے کالج سے گہری وابستگی اور تعلق رکھتے تھے۔ کالج جاتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے خرچ پر پرنسپل آفس بھی تیار کرایا اور کالج کو بطور تحفہ دیا۔ کمرے میں وہاں ان کی ایک پورٹریٹ بھی موجود ہے جس پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا ”مجھے اپنے پاکستانی اور ڈی جے سائنس کالج کا طالب علم ہونے پر فخر ہے۔“
1957ء میں جامعہ کراچی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد شروع میں کے ایم سی میں ملازمت اختیار کی، پھر 1961ء میں مغربی جرمنی کے لیے اسکالرشپ ملی تو ملازمت چھوڑ کر تعلیم کے لیے یورپ چلے گئے۔ آپ نے ہالینڈ میں قیام کے دوران 1964ء میں ہینی نامی مقامی خاتون سے شادی کی جو بعدازاں ہینی خان کے نام سے جانی گئیں۔ ہینی خان سے آپ کی دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی ڈاکٹر دینا خان، جب کہ چھوٹی صاحبزادی کا نام عائشہ خان ہے۔ ڈاکٹر قدیر نے 1967ء میں ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ سے ماسٹرز کی ڈگری حآصل کی، جب کہ 1972ء میں بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے اکیڈمک، دھات کاری، نظری طبیعات میں ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر خان 15 برس یورپ میں رہنے کے بعد سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اصرار پر اُس وقت پاکستان واپس آئے جب دو برس قبل بھارت کی جانب سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان میں بھی جوہری پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صحافی مظہر عباس کو اپنے انٹرویو میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی شروعات کی کہانی بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ”اصل کہانی کو 18مئی 1974ء سے سمجھ لیجیے۔ اس سے پہلے جب 1971ء میں پاکستان کا ایک حصہ ہم سے جدا ہوا تو میں اُس وقت بیلجیئم میں تھا۔ 16 دسمبر 1971ء کو میں بہت رویا۔ کچھ دن کھانا بھی نہیں کھا سکا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زخم تو مندمل ہوگیا لیکن وہ درد ہمیشہ قائم رہا۔ میں پھر ہالینڈ چلا گیا اور وہاں جس کمپنی میں کام کیا وہ جدید ٹیکنالوجی سے مزین تھی اور 1972ء سے افزودگی پر کام کررہی تھی۔ 18مئی 1974ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکہ کردیا۔ اس پر مغربی ممالک نے زبانی جمع خرچ کی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا اور تاثر دیا کہ جو ہوگیا سو ہوگیا۔ میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا اور واضح کیا کہ اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو اللہ نہ کرے دس سال میں پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی، میں آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ میں حیران ہوا جب انہوں نے میرے خط کا نہ صرف جواب دیا بلکہ مجھے فوراً پاکستان آنے کو کہا۔ میں پہلی بار کراچی میں اُن سے ملا۔ میری والدہ اور بہن بھائی سب کراچی میں تھے۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ ہم اِس پروگرام پر کام کرسکتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے کہا: ڈاکٹر صاحب ہم فرانس سے معاہدہ کرنے والے ہیں اور وہی پروسیسنگ پلانٹ کے ذریعے اُس کا ایندھن نکالیں گے۔ میں نے کہا: جس نے بھی آپ کو یہ پلان دیا ہے وہ غلط ہے۔ میں نے جب ان کو اصل حقیقت بتائی تو ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ پریشان ہوگئے۔ میں نے کہا آپ ری پراسیسنگ پلانٹ خریدنا چاہ رہے ہیں، وہ بھی آئی اے ای اے کی زیرنگرانی ہوگا اور فرانس کے انجینئرز تعینات ہوں گے۔ آپ پریشان نہ ہوں، ہم یہ کام یہاں کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے کام شروع کردیں، میں آتا جاتا رہوں گا اور جو مدد درکار ہوگی، کروں گا۔ میں واپس چلا گیا اور جنوری 1975ء یعنی ایک سال بعد واپس آیا تو بھٹو صاحب سے ایک اور ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ واپس نہ جائوں۔ ’’دیکھیے آپ نے خود کہا ہے کہ ملک کےحالات خراب ہیں اور ہمیں آپ کی ضرورت ہے‘‘۔
میں نے کہا ٹھیک ہے، مگر مجھے اپنی بیگم سے مشورہ کرنا ہے۔ میں نے اہلیہ سے پوچھا جن کا تعلق ہالینڈ سے ہے، وہاں اُن کے ضعیف والدین تھے اور وہ اُن کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگیں ’’کیا باتیں کررہے ہو! ہم یہاں چھٹی پر آئے ہیں، وہاں اتنی اچھی نوکری ہے، تمہاری اچھی تنخواہ ہے، بچوں کی تعلیم ہے۔‘‘ میں نے یہ سنا تو کہا ٹھیک ہے ہم واپس جارہے ہیں، تو اچانک اُن کی آواز بلند ہوئی “Hold on let me solve it” پھر میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’دیکھو تم نے آج تک مجھ سے کوئی بات جھوٹ نہیں کہی، اور مجھے تم پر فخر ہے کہ ایک تو تم نے ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کی ہے اور دوسرے جھوٹ نہیں بولا۔ اب ایمان داری سے بتائو اگر ہم یہاں رک جائیں تو کیا تم پاکستان کے لیے کچھ کر پائو گے، کوئی اچھا کام؟‘‘ میں نے کہا ”ایمان داری سے بتارہا ہوں یہ کام میرے سوا کوئی نہیں کرسکتا“۔ اُنہوں نے پُراعتماد طریقے سے کہا ’’ٹھیک ہے پھر ہم نہیں جاتے‘‘۔
پھر یہ بھی ہوا کہ بعد میں ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر جاسوسی کا الزام لگایا اور ایک مقدمہ بھی چلا تھا جس میں اُنہیں عدم پیشی کی بنیاد پر قید کی سزا، اور جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ لیکن پھر ان کی اپیل پر الزام کے ثبوت کی عدم دستیابی کی بنا پر سزا واپس لے لی گئی۔ ابتدا میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ کام کیا، لیکن وہاں بہت مسائل اور مشکلات کا سامنا رہا تو پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک علیحدہ ادارہ ”انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری“ (ای آر ایل) کا ڈاکٹر صاحب کو سربراہ مقرر کردیا۔ کیونکہ یہ تجربہ گاہ کہوٹہ میں تھی اس لیے ”کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری“ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی۔ لیکن بعد میں صدر جنرل ضیاالحق کےدورمیں اس کانام ”عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹری“ رکھ دیا گیا۔
زاہد ملک مرحوم نے اپنی کتاب ”ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم“ میں لکھا ہے کہ ”ڈاکٹر خان کی قیادت میں پاکستان نے 1978ء ہی میں بم گریڈ یورینیم کی تیاری میں پہلی کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اُسی دور میں مغرب نے اسلامی بم کی اصطلاح استعمال کی اور بہت شور مچایا۔ خان ریسرچ لیبارٹریز نے جوہری پروگرام کے علاوہ پاکستان کے لیے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائل سمیت کم اور درمیانی رینج تک مار کرنے والے متعدد میزائل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
قائداعظم ثانی نے صرف 8 سال کی قلیل مدت میں ایٹمی پلانٹ نصب کرکے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا، اور پھر دنیا نے حیرانی کے ساتھ دیکھا کہ پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو بلوچستان کے شہر چاغی میں کامیاب ایٹمی دھماکے کیے، اور عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ مغرب اور بھارت حیران، پریشان ہوگئے۔ اس تجربے کے بعد بھی آپ کی شخصیت کے سامنے کچھ بے نام لوگوں کو ایک کھیل کے تحت لاکھڑا کیا گیا اور دوسروں کو بھی اس کا کریڈٹ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن قوم نے کسی کو قبول نہیں کیا، اور اپنا ہیرو ڈاکٹر قدیر کو ہی بنائے رکھا، باقی نام کہیں ہوا میں خودبخود تحلیل ہوگئے۔
ڈاکٹرصاحب کو 1989ء میں ہلالِ امتیاز، اور 14 اگست 1996ء کو اُس وقت کے صدرِ مملکت فاروق لغاری نے نشانِ امتیاز سے نوازا، پھر دوسری مرتبہ 1999ء میں صدررفیق تارڑ نے نشان ِامتیاز سے نوازا۔
پاکستان کی تاریخ میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو ہوں۔ ویسے یہ اعزازات ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نہ بھی ملتے تو اُن کا مرتبہ کم نہ ہوتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اعزاز دینے والوں نے اپنا قد بڑا کیا، لیکن بعد میں کم ظرف اور چھوٹے لوگوں نے جو ماضی میں ڈاکٹر صاحب کے گارڈ تھے، اپنی اصلیت اور بزدلی کا مظاہرہ کرکے عظیم محب وطن شخص کو نشانہ بنایا۔ ایک بار صحافی جاوید چودھری کو انٹرویو میں ڈاکٹر قدیر خان نے بتایا تھا کہ ”پرویزمشرف جب کرنل تھے تو کسی بات پر میں نے اُن کو ڈانٹ ڈپٹ کردی تھی، انہیں یہ بات کبھی نہ بھولی“۔ پھر ہم نے دیکھا کہ بزدل اور متعصب پرویزمشرف نے امریکا کے دبائو پر یہ کہانی گھڑی کہ ڈاکٹر قدیر نے ایٹمی ٹیکنالوجی ایران کو فروخت کی ہے، اور بین الاقوامی کھیل شروع ہوا۔ 2003ء میں اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ادارے واچ ڈاگ نے اسلام آباد کو ایک خط ارسال کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستانی جوہری سائنس دانوں نے جوہری راز فروخت کیے ہیں۔ جس کے بعد سرکاری ٹی وی پر لاکر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جوہری ٹیکنالوجی کی ایران، لیبیا اور شمالی کوریا منتقلی کے جرم کا اعتراف کروایا گیا اور پھر انہیں اسلام آباد ہی میں ان کے گھر میں نظربند کردیا گیا۔ اور وہ اپنے آخری وقت تک اپنی آزادی کے لیے عدالت کے دروازے کھٹکٹاتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان پر دباؤ ڈال کر اعترافی بیان دلوایا گیا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف پروپیگنڈا ماضی میں بھی ہوتا رہا، امریکا نے اپنے ایجنٹوں سے الزامات لگوائے۔ نوازشریف بھی ڈاکٹر صاحب سے بدظن تھے، اُن کے دور میں کہوٹہ پروجیکٹ سے ڈاکٹر صاحب کو ہٹانے میں پرانی مخالف لابی بھی کام کررہی تھی جس میں منیر احمد خان،ڈاکٹر ثمر مبارک اور ایٹمی توانائی کمیشن کے ارکان شامل تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوازشریف، جنرل پرویزمشرف اور سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ امریکا کے سامنے ہار مان چکے تھے۔ ڈاکٹر قدیر اکثر یہ کہتے تھے کہ ”امریکی نائب وزیرخارجہ اسٹروب ٹالبوٹ کی کتاب پڑھو، اس میں لکھا ہے کہ دھماکوں کے بعد وزیراعظم نوازشریف اُن سے ملے تو بار بار کہا :سوری مجھ پر دباؤ تھا، دھماکے کردیئے، میں بہت شرمندہ ہوں کہ صدر کلنٹن کی بات نہ مانی، سوری“۔ اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ڈٹ جانے نے تمام ملک دشمن منصوبوں کو ناکام بنادیا، کیونکہ پوری قوم اپنے ہیرو کے ساتھ کھڑی تھی۔ لیکن پھر ہم نے کیا سلوک کیا؟ کوئی قوم اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے؟ جنرل پرویزمشرف کے اقدامات کے بعد سے آخری دم تک ڈاکٹر عبدالقدیر درد اور تکلیف کے ساتھ جیتے رہے جس کے وہ صحافی گواہ ہیں جو ان سے رابطے میں رہے۔ صحافی ارشاد بھٹی نے لکھا کہ ”ایک دن میں ان سے ملنے گیا، اسٹاف نے مجھے خلافِ معمول ڈاکٹر صاحب کے دفتر سے ملحقہ کانفرنس روم میں بٹھا کر کہا: ڈاکٹر صاحب یہیں ملیں گے۔ تھوڑی دیر بعد ہلکے گرے رنگ کے سفاری سوٹ میں ملبوس ڈاکٹر صاحب آگئے، آتے ہی خلافِ معمول انہوں نے کانفرنس روم کے ٹی وی کی آواز اونچی کی، ایک کرسی گھسیٹ کر میرے قریب آکر بیٹھے اور بڑی آہستگی سے حال احوال پوچھا۔ یہ سب دیکھ کر میں نے پوچھا: ڈاکٹر صاحب یہ احتیاط کیوں؟
آہستہ سے بولے: دفتر میں اس لیے نہیں ملا، ٹی وی کی آواز اس لیے اونچی کی، قریب آکر اس لیے بیٹھا کہ مجھ پر نظر رکھی جارہی ہے، میرا سب کچھ کہیں سنا جارہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جو پریشان اور تھکے تھکے لگ رہے تھے، چند لمحے خاموش رہ کر بولے: ارشاد میاں! شکریہ تم آئے، پچھلے 5دنوں سے مجھے تو کوئی ملنے ہی نہیں آیا، سب نے ملاقاتیں کینسل کردی ہیں، بلکہ اب تو یہ نوبت آگئی ہے کہ نہ کوئی فون کرتا ہے نہ میرے فون کا جواب دیتا ہے۔
میں نے حیران ہوکر پوچھا: سر ایسا کیوں؟
مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب بولے: میاں سب کو پتا چل چکا کہ پرویزمشرف میرے خلاف ہوچکے، اب بھلا کوئی مجھے مل کر، فون کرکے اپنا نقصان کیوں کروائے گا!
میں نے پریشان ہوکر پوچھا: سر یہ سب کیوں؟
بولے: یہ تو پتا نہیں کیوں، لیکن لگ رہا ہے یہ مجھے گرفتار کرلیں گے، میں نے گھر بتادیا ہے، دفتر سے ضروری سامان بھی گھر بھجوا دیا ہے۔
میں نے کہا: سر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کو گرفتار کرے؟
ڈاکٹر صاحب ایک قہقہہ مار کر بولے:جب کم ظرفوں کو طاقت مل جائے تو پھر سب کچھ ممکن ہوجاتا ہے، اور پاکستان میں بھلا کب کسی نے محسنوں کی قدر کی!
مجھے یاد ہے اُس دن میں کوئی گھنٹہ بھر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہا، انہوں نے ایسی ایسی باتیں، ایسی ایسی کہانیاں سنائیں کہ کانوں سے دھواں نکل آیا، باتوں باتوں میں ایک موقع پر انہوں نے بازو آگے کرکے کہا: ذرا ہاتھ لگاؤ۔ میں نے ہاتھ لگایا، بازو تپ رہا تھا۔ بولے: ایک سو دوبخار ہے۔
میں نے کہا: سر آرام کریں۔
دکھی انداز میں بولے: اب آگے آرام ہی آرام ہے۔
اور پھر دو دن بعد وہی ہوا، ڈاکٹر صاحب کو گھر میں نظربند کردیا گیا، ان کا دفتر سیل کردیا گیا، اور ان کے اسٹاف سے تفتیش شروع ہوگئی، باقی آگے جو کچھ ہوا، ٹی وی پر معافی منگوانا، وغیرہ۔“
مظہر عباس بتاتے ہیں ”پی ٹی وی ایوارڈز کی تقریب تھی، ڈاکٹر اے کیو خان آئے اور پہلی قطار میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ شیخ رشید تب وزیر اطلاعات تھے، انہوں نے اسٹاف کے ذریعے کہلوایا کہ پہلی قطار کابینہ ارکان کی ہے، آپ پچھلی قطار میں جاکر بیٹھ جائیں۔ اسٹاف آیا اور تھوڑی سی بحث کے بعد ڈاکٹر صاحب کو پیچھے جاکر بیٹھنا پڑا۔“
جیو کے پروگرام ”ایک دن جیو کے ساتھ“ میں سہیل وڑائچ نے جب ڈاکٹر خان سے پوچھا کہ آپ کو کوئی پچھتاوا بھی ہے؟ تو ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا: اس قوم کے لیے کام کرنے کا پچھتاوا ہے۔“
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہجرت کے وقت ہندوستانی افسروں اور پولیس والوں کے ہاتھوں جو اذیت اور ذلت اٹھائی تھی وہی سلوک ہمارے حکمرانوں نے اُن کے احسانات کے جواب میں ان کے ساتھ کیا۔ اس سے آگے اب صرف یہی لکھا جاسکتا ہے کہ ہم نے ڈاکٹر قدیر کو وہ عزت، احترام اور مقام نہیں دیا جو اُن کا حق تھا، جب کہ ہمسایہ ملک بھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام کو صدر کے عہدے پر فائز کیا۔ اور ستم یہ کہ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، اپوزیشن لیڈر سمیت کوئی بھی اہم شخصیت ڈاکٹر صاحب کے جنازے تک میں شریک نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ مغرب اور امریکا کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا ہو۔کچھ بھی ہو آج ڈکٹر عبدالقدیر پوری امت ِمسلمہ کےدلوں میں زندہ ہیں اور ملک کےغدارفرار کی حالت میں بے عزتی، بے بسی اور تکلیف کی زندگی گزار رہے ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے نواب حمید اللہ خاں کے لیے کہا تھاجن کا تعلق بھی بھوپال سے ہی تھا، اور میں یہ شعر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نذر کرتاہوں کہ
تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است
دل تو بیند و اندیشۂ تو می داند

حصہ