شعرو شاعری

547

فیض احمد فیض
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
حدیثِ یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن
تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں
در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں
…٭…
بہزاد لکھنوی
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
اے دل کی لگی چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تجھ پہ مرا دل آ جائے
اے برق تجلی کوندھ ذرا کیا مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے
میں طور نہیں جو جل جاؤں جو چاہے مقابل آ جائے
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے
…٭…
قتیل شفائی
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیّال سے ہم
شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
…٭…
ابن انشا
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو
سچ اچھا پر اس کے جلو میں زہر کا ہے اک پیالہ بھی
پاگل ہو کیوں ناحق کو سقراط بنو خاموش رہو
ان کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر سورج ہی کو گھومنے دو خاموش رہو
محبس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچو ہاں پھر سوچو ہاں پھر سوچو خاموش رہو
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو
آنکھیں موند کنارے بیٹھو من کے رکھو بند کواڑ
انشاؔ جی لو دھاگا لو اور لب سی لو خاموش رہو
…٭…
عبید اللہ علیم
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے
محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے
میں وہ چراغ سر رہ گزار دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے
ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
…٭…
پیرزادہ قاسم
زخم دبے تو پھر نیا تیر چلا دیا کرو
دوستو اپنا لطف خاص یاد دلا دیا کرو
ایک علاج دائمی ہے تو برائے تشنگی
پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو
شہر طلب کرے اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
مقتلِ غم کی رونقیں ختم نہ ہونے پائیں گی
کوئی تو آ ہی جائے گا روز صدا دیا کرو
جذبۂ خاک پروری اور سکون پائے گا
خاک کرو ہمیں تو پھر خاک اڑا دیا کرو
…٭…
شمیم حنفی
لکڑہارے تمہارے کھیل اب اچھے نہیں لگتے
ہمیں تو یہ تماشے سب کے سب اچھے نہیں لگتے
اجالے میں ہمیں سورج بہت اچھا نہیں لگتا
ستارے بھی سر دامان شب اچھے نہیں لگتے
تو یہ ہوتا ہے ہم گھر سے نکلنا چھوڑ دیتے ہیں
کبھی اپنی گلی کے لوگ جب اچھے نہیں لگتے
یہ کہہ دینا کہ ان سے کچھ گلہ شکوہ نہیں ہم کو
مگر کچھ لوگ یوں ہی بے سبب اچھے نہیں لگتے
نہ راس آئے گی جینے کی ادا شاید کبھی ہم کو
کبھی جینا کبھی جینے کے ڈھب اچھے نہیں لگتے
…٭…
استاد
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
الطاف حسین حالی
…٭…
شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
راسخ عظیم آبادی
…٭…
اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔ
مانتے ہیں سب مرے استاد کو
حفیظ جالندھری
…٭…
کس طرح امانتؔ نہ رہوں غم سے میں دلگیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
امانت لکھنوی
…٭…

مجید لاہوری
زندگی سلسلۂ وہم و گماں ہے یارو
دل بے تاب کو تسکین کہاں ہے یارو
وہی صیاد کی گھاتیں ہیں وہی کنج قفس
فصل گل رہن غم جور خزاں ہے یارو
وہی افکار کی الجھن وہی ماحول کا جبر
ذہن پا بستہ زنجیر گراں ہے یارو
وہی حسرت وہی لب اور وہی مہر سکوت
شوق کو جرأت اظہار کہاں ہے یارو
عزم کی رہ بھی وہی راہ میں کانٹے بھی وہی
دور کوسوں مری منزل کا نشاں ہے یارو
بے وفائی کا خدارا مجھے الزام نہ دو
تم پہ حال دل بیتاب عیاں ہے یارو
کاش میں کہہ بھی سکوں کاش کوئی سن بھی سکے
آہ وہ راز کہ جو راز نہاں ہے یارو
میرے ہونٹوں پہ ہے اک نغمۂ بے صوت و صدا
دل میں اک محشر فریاد و فغاں ہے یارو
اک تغافل کہ جو ہے وجہ پریشانئ دل
ایک یاد ان کی ہے جو راحت جاں ہے یارو
آج ساحل کے قریں ڈوبنے والا ہے مجیدؔ
ناخدا کو تو پکارو وہ کہاں ہے یارو
…٭…
لا الہ الا اللہ
علامہ اقبال
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند

بتان وھم و گماں لا الہ الا اللہ

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں لا الہ الا اللہ

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
٭٭٭٭

واصف علی واصف
جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے

مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے

برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے

تو خون کا طالب تھا تری پیاس بجھی ہے؟
میں پاتا رہا نشوونما آب و ہوا سے

مجھ کو تو مرے اپنے ہی دل سے ہے شکایت
دنیا سے گلہ کوئی نہ شکوہ ہے خدا سے

ڈر ہے کہ مجھے آپ بھی گمراہ کریں گے
آتے ہیں نظر آپ بھی کچھ راہنما سے

دم بھر میں وہ زمیں بوس ہو جاتی ہے واصف
تعمیر نکل جاتی ہے جو اپنی بِنا سے

پاپولر میرٹھی
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر ترے تو کم
رسوائیوں کا کیا مری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے منہ پہ دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہو گیا ہے منسٹر بنے گا تو
…٭…

حفیظ جالندھری کے مقبول اشعار

ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
…٭…

اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…

ابھی منزل نہیں آئ،ابھی یہ جنگ جاری ہےوہ دنیابھی ہماری تھی،یہ دنیا بھی ہماری ہے !شہیدوں کے لہو سے بام و در روشن ہوئے،آخرعزیمت کی کہانی ہے، جنوں ہے ،جاں نثاری ہے!الجھنے اور الجھانے کی دل میں رہ گئ حسرتعدو حیران ہے کیونکر ،خدا کی چال بھاری ہے !زمانہ پتھروں کو چوم کر آگے نکل آیا !سفر تو زندگی کی شاہراہوں پر ہی جاری ہے !*ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر

حصہ