استاد ہی لکھتے ہیں نئی صبح کی تحریر

1010

امی: علینہ! کیا ہوا بیٹا۔۔کیوں رو رہی ہو؟؟
علینہ:”امی مجھے ٹیچرنے ڈانٹا ہے”مجھے ٹیسٹ یادنہیں تھااور ٹیچرنےمیری سب کےسامنےبےعزتی کردی (علینہ روتے ہوئے)
امی: کل تمہاری ٹیچر سے جا کر بات کرتی ہوں،ان کی ہمت کیسے ہوئی میری بچی کو ڈانٹنے کی،ارے بھئ فیس دیتی ہوں،مفت میں نہیںپڑھواتی،کرتی ہوںکل جا کر بات،نانکلوایا ہواسکول سے۔۔
…٭…
ٹیچر( امتحان گاہ میں بچوں سےمخاطب ہوتےہوئے)”بچوںتملوگفتگو کر سکتے ہو بشرطیکہ پانچ سو روپے جمع کرادو”۔
وہ جماعت جس میں کچھ دیر پہلے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں وہ بڑی تن دہی سے نقل کرنے میں مصروف تھی۔
…٭…
احمد(جماعت دوئم کا بچہ)” ٹیچر شو می یور ہینڈز”
ٹیچر حیرانگی سے اپنے ہاتھ احمد کے ہاتھوں میں دے دیتی ہیں
Today You Are Looking So Prettyاحمد:
…٭…
نائلہ:ارے رمشہ! تم نے دیکھا مس ماریہ کو؟؟ کتنی خوبصورت لگ رہی تھیں ناں۔
رمشہ:ہاںیار ۔۔کیا لش لگ رہی تھیں بالکل کرینہ کپور کی طرح،ریڈ لپ اسٹک،کالا مسکارہ اور پینٹ شرٹ۔۔ اف
نائلہ: بھئ لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی ان کی تعریف کر رہے تھے۔
رمشہ: آج میں امی کے ساتھ بازار جاؤں گی دیکھنا بالکل انکے جیسے کپڑے لوں گی۔
…٭…
پڑوسن (عائشہ) خبر بھی تو سنو۔۔شاگردوں نے مل کر اپنے استاد کا مار مار کر برا حال کردیا۔۔بےچارا زخموں کی تاب نہ لا کراس دنیا سے ہی رخصت ہو گیا۔
پڑوسن(رخسانہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے)اللہ،اللہ۔۔استاد جسے قوموں کی بنیاد کہا جاتا ہےاس کے ساتھ ایسا سلوک؟؟ توبہ ۔۔توبہ یہ قوم پستیوں کی طرف نہیں جائے گی تو اور کیا ہوگا؟؟
…٭…
یہ تو ایک جھلک ہے،اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرے میں عام ہیں،مثلاً،استاد کا طالب علم کو ہراساں کرنا۔۔اساتذہ کو ان کی مناسب اجرت نہ دینا۔۔ان کے ساتھ ملازموں کا سا سلوک کرنا۔۔اساتذہ کا رشوت لینا شاگردوں سے۔۔استاد اور شاگرد کا آپس میں رویہ۔۔۔الغرض ایسے واقعات ہمارے معاشرے کا جز بن گئے ہیں ۔
آئیےاب دیکھتے ہیںکہ اسلام میں معلم کا، کیا درجہ ہے؟؟
اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت ارفع و اعلیٰ ہے۔استاد کو معلم ومربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ دیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” میں تمہارےلئے بمنزلہ والدہوںتمہیں تعلیم دیتا ہوں””
امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟؟
دیکھیےخلیفہ ثانی کیا جواب دیتے ہیں۔
فرمایا”کاش میں ایک معلم ہوتا”
باب العلم خلیفہ چہارم کا قول ہے” جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے”
یہ قول استاد کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔
کسی مذہب نے استاد کی حقیقی قدر ومنزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نےانسانوںکو استاد کے بلند مقام ومرتبہ سے آگاہ کیا ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بحیثیت معلم کے بیان کی ہے۔خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ ” مجھےمعلم بنا کر بھیجا گیاہے”اساتذہ کورہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا۔
جہاں ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا جاتا ہے اور ایک مثالی ماںکو ہزاراساتذہ پر فوقیت دی جاتی ہےوہیں ایک استادیہ طاقت بھی رکھتا ہے کہ ساری کائنات کو بچے کے لیے درس گاہ بنا دےاور یہی طاقت اسے روحانی والد کا درجہ دلاتی ہے۔جہاں بچہ باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھتا ہے وہیں ایک معلم بچے کو ہمیشہ آگے بڑھنے کی تلقین کرتا ہے۔
سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا کہ وہ کیوں اپنے استاد کی اس درجہ تعظیم کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ”میرے والدین مجھے آسمان سے زمین پرلائے ہیںجبکہ میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے”۔
بطلیموس استاد کی شان یوں بیان کرتا ہے
” استاد سے ایک گھنٹے کی گفتگو دس برس کے مطالعہ سے بہترہے ”
بنو عباس کے خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے امین کو مشہور عالم ،امام ابو اصمعی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس علم وادب کی تربیت کےلیےبھیجا۔کچھ دنوں بعد خلیفہ صاحب زادے کی تعلیم و تربیت کا جائزہ لینے کے لئے بغیر اطلاع وہاں پہنچ گئےدیکھا کہ امام اصمعی رحمۃ اللہ علیہ وضو کرتے ہوئے اپنے پاؤں دھو رہے ہیں اور شہزادہ امین پانی ڈال رہا ہےیہ دیکھ کر خلیفہ وقت کو بڑا غصہ آیا اور انہوں نے امام اصمعی سے کہاکہ “میں نے اس کو آپ کے پاس علم و ادب سیکھنے کے لئے بھیجا ہےآپ کو اسےحکم دینا چاہیے تھا کہ یہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوئے”۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ہر نماز کے بعد اپنے والد اور استادکے لیےدعائےمغفرت کرتا ہوں ،میں نےکبھی بھی اپنے استاد محترم کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیےحالانکہ میرے اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیوں کا فاصلہ ہے۔
اب ذرا اس منظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھیں ۔
مسلمانوں کی اتنی بڑی مملکت کا بادشاہ ،خلیفہ وقت امام مالک سے حدیث پڑھانے کی درخواست کرتا ہے۔
امام مالک فرماتے ہیں :” علم کے پاس لوگ آتے ہیں لوگوں کے پاس علم نہیں آتا ” اگر تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقہ درس میں آسکتے ہو۔چناچہ خلیفہ ان کے حلقہ درس میں جاتے ہیں اور وہاں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں،امام مالک کی ان پرنظر پڑتی ہے تو ڈانٹ کر کہتےکہ اگر علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو اہل علم کا احترام کرو،یہ سنتے ہی خلیفہ مؤدب انداز میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
دیکھا!! یہ ہے ہمارے اسلاف کا اپنے اساتذہ کے ساتھ رویہ۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیات پیدا ہوئی ہیں ان کے پیچھے اساتذہ کی محنت ہےجنہوں نےانہیں اس مقام پر لاکر کھڑا کیا ہے۔۔۔آج عظیم علمی شخصیات کا فقدان کیوں ہے؟؟ کیوں کہ استاد اور شاگرد دونوں اپنا مقام ومرتبہ بھول چکے ہیں۔ایک مشہور قول ہےکہ” جس نے معالج کی عزت نہ کی وہ علاج سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی وہ علم سے محروم رہا”۔آج کل اساتذہ کا مقصد علم و تہذیب سکھانے کے بجائےپیسے کا حصول اور طالب علم کا مقصد ڈگریوں کا حصول بن چکا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ہرقسم کی برائی عام ہوچکی ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اب نہ وہ استاد رہے نہ شاگرد اور نہ معاشرے کی اخلاقی قدریں۔شاگرد کی دلیری تو دیکھیے کہ اب وہ کمرہ جماعت میں گھس کر اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں،اپنی مرضی کے مارکس لگواتے ہیں اور پھر خطرناک نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں ۔اب دوسری طرف دیکھنا یہ ہوگا کہ معاشرہ اساتذہ سے کس بات کا متقاضی ہے؟۔طلباء کی کوتاہیاں،والدین کا تغافل،نصاب تعلیم اور تعلیمی اداروں کی خامیاں اپنی جگہ مگر کار پیغمبری سے وابستہ ،قوم و ملت کے ایک ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر اساتذہ اس بحران کا جائزہ لیں اور خود اپنی کوتاہیوں کا تعین کریں ، ان کا تدارک کریں تب یقیناً یہ قوم و ملت کا ترقی کی جانب پہلا قدم ہو گا۔ماہ اکتو بر میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے ،اس دن میں اپنے تعلیمی ادارے جامعۃ المحصنات کراچی کی نہایت ہی قابل احترام معلمات کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔استاد اور شاگرد کے رشتے کی اہمیت میں نے یہیں آکر جانی ہے،اس موقع پر میں اپنے اساتذہ کی خدمت میں چند اشعار پیش کرنا چاہوں گی۔
کتنی محبتوں سے پہلا سبق سکھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
ان پڑھ تھا ،گنوار ،جاہل قابل مجھے بنایا
دنیا کے علم و دانش کا راستہ دکھایا

حصہ