رحم

191

سردیوں کی ٹھٹھرتی رات میں ہوا اس کے چہرے پر سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی۔ موسم اتنا سرد تھا کہ اسے اپنا چہرہ برف ہوتا ہوا معلوم ہوا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گھر کو لوٹ رہا تھا۔ مسجد سے پچاس ساٹھ قدم کے فاصلے پر دو تین گلیاں چھوڑ کر جیسے ہی وہ ایک چوراہےپر پہنچا اس نے کسے کے کراہنے کی نہایت مدھم آوازیں سنیں۔ وہم جان کر اس نے اپنے سر کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور رکتے قدموں کو دوبارہ تیز کردیا۔ لیکن وہ تین چار قدم بھی آگے نہ چل پایا تھا کہ کراہنے کی آوازیں دوبارہ اس کے کانوں سے ٹکرائیں ان کراہوں میں رگوں میں جما دینے والی سردی کی وجہ سے کپکپاہٹ بھی موجود تھی۔ یہ دردناک آوازیں سن کر اس کا اپنا جسم کانپ اٹھا۔ اسے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اسے مدد کے لئے بلا رہا ہو۔ اس کے قدم وہیں رک گئے۔ کراہیں اسے آگے جانے سے روک رہی تھی۔ اور اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔
اسی لمحے اسے اپنے گرم گرم لحاف کا خیال آیا اور ساتھ ہی اسے ایسے لگا گویا اسے کوئی ان دیکھا خوف روک رہا ہو اور کہہ رہا ہو۔
’’میاں ایسی سردی میں کیوں اپنے بستر کی گرمی اور میٹھی نیند کا مزا برباد کرتے ہو؟ تمہیں کسی کی مدد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ رہ گئی بات نیکی کی تو اس بارے میں بھی تمہیں پریشان ہونے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ تمہاری گزشتہ نمازیں اور دن رات کی ریاضت تمہیں کافی ہیں۔‘‘
چنانچہ اس نے گھر کی طرف جانے کے لئے اپنے پاؤں کو اٹھانا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ آگے ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے گا۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر وہ یہیں کھڑا رہے گا۔ کسی ان دیکھی، ان جانی قوت نے اسے آگے جانے سے روک دیا تھا۔
کراہنے کی آواز مسلسل آرہی تھی۔ آخر کراہوں کی مضبوط رسیوں نے اسے جکڑ کر اپنی طرف کھینچ ہی لیا۔
اس نے سوچا۔
سب کام جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لئے تھوڑا ہی کیے جاتے ہیں خدا کی رضا کے حصول کا جذبہ بھی تو موجود ہونا چاہیے۔ اچھے کام کو صرف اچھا سمجھ کر ہی کیا جائے۔
اس نے محسوس کیا جیسے اس کا بوجھ کسی اور نے اٹھا لیا ہو۔ اسی لیے اس نے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ تب اس نے آواز کی سمت میں چلنا شروع کردیا۔
دائیں ہاتھ کی گلی میں دس قدم دور نالی کے ساتھ اس نے بلب کی روشنی میں تین ننھے اور نالی کے پانی میں بھیگے بلی کے بچوں کو دیکھا وہ ساتھ کی ٹوٹی ہوئی دیوار میں اینٹوں کے ساتھ لگے سردی سے کانپ رہے تھے۔
اسے ان بچوں کی اس حالت پر بہت رحم آیا۔ اور اس نے فوری طور پر ان بچوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ اس نے ان تینوں بچوں کو جو گندے پانی میں لتھڑے ہوئے تھے اٹھایا اور اس نئی اور گرم چادر میں لپیٹ لیا جو اس کے ابا جان بڑے اہتمام سے اس کے لیے لائے تھے۔ اس نے اس وقت نئی چادر کی بھی کوئی پروانہ کی۔ بلی کے بچے گرم چادر میں آکر پرسکون ہوگئے تھے۔ وہ خود ٹھٹھرتا ہوا گھر کی جانب تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
گھر پہنچ کر اس نے ان تینوں کو آتشدان کے قریب بٹھا دیا۔ اور پیار سے ان کو دیکھنے لگا۔ پھر کچھ سوچ کر وہ اٹھا اور کچن سے ان کے لیے پیالے میں دودھ بھر کر لے آیا۔ اس نے جیسے ہی دودھ کے سامنے رکھا وہ تینوں اسے جلدی جلدی پینے لگے۔
جب وہ بچے بچ بچ کر کے دودھ پی رہے تھے تو اسے ایسے لگا جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔
’’رحم کرو، اللہ رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حصہ