سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یاد میں برطانیہ میں مشاعرہ

318

بے مثل عالم دین اور زندگی کے ہر شعبے میں نفاذ اسلام کے داعی کفر کی یلغار میں ببانگ دُہل حق ادا کرنے والے داعی سید مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۲۲؍ستمبر۱۹۷۹ء کو اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن ان کے افکار و کردار نے مسلمانوں کی نسلوں کو قوت استدلال اور کفر کے اندھیرے میں عزیمت کے چراغ روشن کرنے کی سعادت بخشی اور مدافقت کے بجائے جارحانہ انداز فکر و نظر عطا فرمایا۔ اکتوبر ۱۹۸۴ء کے وسط میں یو کے اسلامی مشن کے زیر اہتمام اسپارک بروک سینٹر(Spark Brooke Centre)برمنگھم ‘ برطانیہ میں سید مودودیؒ کی یاد میں ایک شاندار مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرے میں ہندو پاکستان سے کئی معروف تحریکی شعراء کو مدعو کیا گیا اور برطانیہ میں مقیم شعرائے کرام نے بھی ا س میں حصہ لیا۔ مشاعرے کی صدارت برطانیہ کے اسلامی مشن کے صدر جناب رشید احمد صدیقی نے کی ۔ مشاعرے کی نظامت جناب عبدالرحمن بزمی نے کی۔ اس مشاعرے کی تفصیلی رپورٹ جناب محمد اشرف قریشی نے ترتیب دی۔ذیل میں اس یادگار مشاعرے کا مختصراًاحوال اور شعرائے کرام کے منتخب اشعار پیش کیے جارہے ہیں۔
مشاعرہ کا آغازتلاوت کلام پاک سے ہوا اس کے بعد سب سے پہلے قاری عبدالعزیز اظہر نے رسول اکرمؐ کی شان میں ہدیہ نعت پیش کیا جس کے دو اشعار پیش خدمت ہیں۔
محمدؐ کا دیکھو مقام اللہ اللہ
خدا بھیجتا سلام اللہ اللہ
فصیح و بلیغ‘ مکمل‘ مدلل
حبیب خدا کا کلام اللہ اللہ
قاری عبدالعزیز کے بعد برمنگھم کے مقامی شاعر جناب طارق کو دعوت سخن دی گئی۔ ان کے کلام نے حاضرین سے خاصی داد وصول کی اور خصوصاً اس شعر کو بہت پسند کیا گیا۔
جہاں بس گئے ہم مسلماں وطن ہے
جہاں کھل گئیں چند کلیاں چمن ہے
ان کے بعد بشیر انصاری تشریف لائے انھوں نے سید مودودیؒ کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کے یہ اشعار بہت پسند کیے گئے۔
ان اندھیاروں کی دھرتی میں نور کا ایک مینارہ تھا
جس کی ضو پاشی نے سارے شہر کا حسن نکھارا تھا
ہم جامد وہ متحرک تھا‘ تھی مشرق و مغرب پر بھی نظر
تحریک مجسم تھا گویا‘ یوں دیکھنے میں تو تنہا تھا
بشیر انصاری کے بعد منیر قریشی نے اور ان کے بعد مولانا مبارک خطیب نے اپنا کلام پیش کیا۔ناظم مشاعرہ جناب بزمی بھی مولانا ؒ کے پروانوں میں سے ہیں۔ انھوں نے اپنی معرکتہ الآرا نظم’’ اے ابوالاعلی‘‘ پیش کی جو پوری نظم سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسکا ایک شعر یہ تھا۔
رہی ہیں معرکہ آرائیاں بھی اہل باطل سے
حریفوں کو بھی اطمینان تھا تیری شرافت پر
پھر اعجازصاحب کو پکارا گیا۔ ا ن کا ایک شعر مشاعرے کو تڑپاگیا۔
کبھی تو ٹوٹے گا نفرت کا یہ سکوت گراں
ترس گئے ہیں محبت کی اک صدا کے لیے
ان کے بعد غلام علی بلبل کو صدائے نغمہ نوائی دی گئی۔ جناب بلبل مزاح نگار شاعر ہیں۔ انھوں نے محفل کو کشت زعفراں بنادیا۔
لفافہ خوبصورت اور دلکش جو کل پہنچا
وہ قرطاس حسیں دل سے لگا لینے کے قابل تھا
میں سمجھا تھا مری مریم نے مجھ کو یاد فرمایا
لپک کر جب اسے کھولا تو دیکھا گیس کا بل تھا
بلبل صاحب کے بعد سلطان فاروقی نے اپنا کلام پیش کیا۔ ان کا یہ شعر حاصل نظم تھا۔
دربار جبر و ظلم میں اک بے گناہ کے
رکھ دی ہے جس نے منہ میں زباں آپ ہی تو ہیں
سلطان فاروقی کے بعد غلام بنی حکیم نے مولانا مودودیؒ کے بارے میں اپنا ایک قطعہ پیش کیا۔ ان کے بعد جوہر ظاہری آئے۔
روشنی ڈالی ہے ہستی کے ہر اک عنوان پر
اللہ اللہ یہ مقام و سعت فکر ونظر
گنگنا اٹھے تری لے میں زمین و آسماں
جھوم جھوم اٹھے تری آواز پر دیوار و در
اتقا تیرا‘ ترا اخلاص‘ تیری زندگی
آئینہ دار حقیقت مشعل علم و ہنر
زاہدوں کے دل میں جس کی آروزئیں رہ گئیں
ان مقامات تصوف پر ہوا تیرا گذر
ہے عقیدت آج بھی جوہرؔ کو تیری ذات سے
تھی ابوالاعلیٰؒ تری ہستی سراسر معتبر
جوہر ظاہری کے بعد جمیل مدنی کو دعوت سخن دی گئی انہوںنے ایک نعت پیش فرمائی۔ان کے بعد عقیل دانش نے ایک قطعہ پیش کیا:
یہ روایات کے بت ان کی پرستش دانش
دور الحاد ہے‘ پھیلے ہوئے نمرو دی ہیں
غم نہیں ہم کو ہے تفہیم قرآں اکرم
پیشوا اپنے بھی تو سید مودودیؒ ہیں
عقیل دانش نے ایک اور غزل پیش کی۔ ایک شعر ملاحظہ ہو۔
سچ کہنے کو تیار سردار نہیں ہیں
ہم لوگ ابھی صاحب کردار نہیں ہیں
عقیل دانش کے بعد منظر قدوسی صاحب کو دعوت سخن دی گئی منظر قدوسی جماعت اسلامی ہند کے رکن اور منگلور سے ’’صدائے سحر‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالتے ہیں۔ دوتین ماہ سے برطانیہ میں خطابت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
مری شاعری میں جو رنگ ہے وہ اذان صبح کی گونج ہے
میں کھڑا پکاروں گا دم بدم تجھے جب تلک کہ جگانہ دے
منظر قدوسی کے بعد تابش مہدی تشریف لائے۔ یہ تحریک اسلامی ہند کے معروف شاعر ہیں۔ ان کے چند شعر ہدیہ قارئین ہیں۔
چہرے پہ دیکھیے تو تقدس کی بارشیں
دل میں جو جھانکیے تو اندھیرا دکھائی دے
وہ کیا دن تھے کہ دوڑاتے تھے گھوڑے بحر میں
اب تو پتا بھی کھڑکتا ہے تو ڈر جاتے ہیں لوگ
داد خواہی کی طلب ہے مجرموں کے شہر میں
لوگ گوہر ڈھونڈتے ہیں پتھروں کے شہر میں
لے کے پتھر آگیا سارا زمانہ میری سمت
نام جب تیرا لیا میں نے بتوں کے شہر میں
شہر والوں نے حقارت سے جسے ٹھکرادیا
اک وہی مومن تھا سارے کافروں کے شہر میں
داد کے قابل ہے میرا حوصلہ اے دوستو
لے کے مشعل پھر رہاہوں آندھیوں کے شہر میں
تابش مہدی کے بعد مہر فوقی بدایونی کو دعوت کلام د ی گئی۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ تحریک اسلامی سے والہانہ وابستگی ہے۔ آپ نے پہلے ایک نظم پھر غزل پیش کی۔ چند شعر پیش خدمت ہیں:
ایک عالم‘ ایک مصلح‘ ایک سرتاپا کمال
جس کی سیرت با تقدس جس کی عظمت لازوال
دوسرے لفظوں میں جس کو سب ابوالاعلیٰ کہیں
اس کی کوشش‘ اس کا تنظیمی تفکر بے مثال
اس نے اپنے خون سے سینچا چمن اسلام کا
اس کی ہر تحریر سے ظاہر ہے معراج کمال
غزل ملاحظہ ہو:
ازل سے دل میں احساس محبت لے کے آیا ہوں
قیامت تو نہیں وجہ قیامت لے کے آیا ہوں
بہ مجبوری بیان غم کی جرات لے کے آیا ہوں
شکستہ دل ہوں امید محبت لے کے آیا ہوں
قدمبوسی کا غم سجدوں کی تہمت لے کے آیا ہوں
محبت کی جگہ داغ محبت لے کے آیا ہوں
غم اندوہ و درد و یاس وحسرت لے کے آیا ہوں
یہ دولت بھی تمھاری ہی بدولت لے کے آیا ہوں
وفا کا خون ارمانوں کا ماتم سوز ناکامی
امین عشق ہوں بار امانت لے کے آیا ہوں
مہرفاروقی داد و تحسین لوٹ کر گئے تو مشاعرے کے آخری شاعر جناب اعجاز رحمانی کو دعوت سخن دی گئی۔ ان کا بھی تعلق کراچی سے ہے۔ انھوں نے فرمایا۔
احسان کے پردے میں کیا خوب سزادی ہے
اک شخص نے خوش ہوکر جینے کی دعا دی ہے
شامل ہے بہاروں میں یہ اور لہو کس کا
ہم نے بھی تو پھولوں کو رنگین قبادی ہے
اعجازؔ بس اتنی ہے روداد شب ہجراں
اک شمع جلادی ہے‘ اک شمع بجھادی ہے
اعجاز رحمانی صاحب گئے تو گھڑیال نے دو بجنے کی خبر دی۔ اور اس کے ساتھ ہی مشاعرے کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔

حصہ