سوشل میڈیا کا بریک ڈائون

251

چند گھنٹے کے لیے فیس بک سرور کیا ڈاؤن ہوا، حالات ہی بدل گئے، ایسی ایسی میمز بنائی گئی، ایسے ایسے کمنٹس چلے کہ مت پوچھیں۔ کوئی 6تو کوئی7ارب ڈالر کا جھٹکا بتاتا رہا یعنی نقصان جو مارک زکر برگ کو ہوا ہوگا۔رات کو واٹس ایپ،فیس بک،انسٹاگرام کو بند دیکھ کر عوام نے دوبارہ پیکیج لگا دئیے، کسی نے سم نکال کے دوبارہ ڈال کے دیکھی، کوئی موبائل کو لے کر شاپ پر چلا گیا۔کچھ لوگ ٹوئٹر اور یوٹیوب پر وقت لگاتے رہے،جیسا جس کا نشہ تھا اس نے کام چلایا۔’’الیکشن کمیشن والے ٹھیک کہتے تھے۔۔کل کوئی فیس بُک کے سرور میں ایلفی ڈال گیا اور 8 گھنٹے تک فیس بک، وٹس ایپ اور انسٹاگرام بند رہا۔‘‘محمد زبیر کی وجہ سے ساری فیس بک ناپاک ہوگئی تھی اس کو بند کر کے 8 گھنٹے غسل دیا گیا۔جبکہ فیس بک نے تیکنیکی خرابی کو وٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک بند ہونے کی وجہ قرار دیا ۔ایسے میں لوگوں نے اس جانب متوجہ کرنا ضروری سمجھا کہ ،’’واٹس ایپ کا سرور ڈاؤن ہونے کی وجہ سے پچھلے 6 گھنٹوں سے فیس بک، انسٹا گرام اور واٹس ایپ بند تھا تو سب پریشان تھے۔ کہ دنیا سے رابطہ رکا ہوا تھا۔ افسوس ہمارے گھروں میں قرآن مجید کے اوپر کتنا گردوغبار ہے؟ انسان روز کھول کر قران مجید پڑھتا ہے؟‘‘
اس ہفتہ بلوچستان (ہرنائی) میں آنے والے زلزلے نے سوشل میڈیا پر مناسب جگہ بنائی ۔کوئی 50ہزار ٹوئیٹس میں زلزلے سے حفاظت کی دعا ، سورۃ زلزال کی آیات، امدادی کاموں کی تصاویر شیئر ہوتی رہیں۔مجموعی طور پر پوری قوم نے بلوچستان میں آنے والی اس قدرتی آفت پر اظہار افسوس، ہمدردی و یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا۔اس ہفتہ ویسے تو گلاب و شاہین نامی طوفانوں کا بھی خوب شور مچا رہا ،کئی پروگرامات کینسل ہوئے مگر الحمدللہ کراچی محفوظ رہا ۔شاید کوئی نہ کوئی آفات لکھی ہوئی تھی اس لیے زلزلے کی صورت سامنے آ گئی۔ایک اور ٹرینڈ پاکستان میں تیزی سے فروغ پایا جس میں بھارت کے سیکولر نعرے کا پردہ چاک کیا گیا تھا، ہیش ٹیگ کا عنوان تھا DeathofSecularIndia، بھارت میں مستقل اقلیتوں کے ساتھ بدترین مظالم کا معاملہ جاری ہے۔مسلمانوں کے ساتھ اولین طور پر تواتر سے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔مودی کے خلاف بھرپور نعرے لگائے گئے ، بھارت کی جانبدارانہ پالیسی پر خوب لعن طعن جاری رہی۔اس میں بھارتی مسلمانوں ، سکھوں اور عیسائیوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔جہاں ایک جانب بھارت مسلسل طالبان کو شدت پسند نام دے کر اُن کے پیچھے پڑا ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر اندرون بھارت کی وڈیوز اس ہیش ٹیگ کے ذیل میں وائرل ہو تی ر ہیں۔لکھیم پور میں احتجاج کرنے والے کسانوں کو گاڑی سے کچلنے کے دل دہلا دینے والے مناظراتنے خطرناک تھے کہ پورا بھارت یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ’’ اب نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار کہا ں مر گئے؟ مودی قاتل کے غنڈے اب انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کر رہے ہیں، لیکن یہ کسی کو کیوں نظر نہیں آتا۔ یہ بےغیرت منافقین صرف افغان طالبان کے پیچھے پڑے ہیں۔‘‘بھارت کی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے دکھاوے کے طور پر کسانوں کو گاڑی تلے روند کر ہلاک کرنے کے معاملے پر پنجاب سے اترپردیش تک مارچ بھی کیا۔اسی تناظر میں کچھ دن قبل بھارتی وزیر اعظم کی امریکا آمد پر احتجاج کی صورت ’عزت افزائی ‘بھی کی گئی۔اترپردیش میں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ حکمران بی جے پی بھارت میں سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل اور سب سے بڑی ریاست میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اس وقت تمام طریقے استعمال کر رہی ہے۔ ان میں مذہب تبدیل کروانے کے الزامات کے تحت مسلم مذہبی رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔کورونا سے قبل کسی کو یاد ہو تو پورا بھارت مسلمانوں کے خلاف قانون سازی، بابری مسجد ایشومیں گھر انظر آیا۔ اب کورونا کے اثرات جیسے ہی کچھ کم ہوئے تو کسان کیس کی صورت ایک بارپھر بھارت جل اٹھا۔اس دوران ایک اور دلچسپ سوشل میڈیا ٹرینڈ بھی نظر آیا جس کے مطابق ۔’پاکستان پر دہشتگردی کو فروغ دینے والے ملک کا الزام لگانے والے نریندر مودی کے بھارت میں مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گاڈسے کا ٹرینڈ ٹاپ 10 میں شامل ہو گیا۔ پاکستان کی ہر بات میں کیڑے نکالنے والے ساتھ فورم اور لبرلز کو اس پر کوئی تکلیف نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مودی کی آر ایس ایس کا غنڈہ تھا یہ نتھو رام گوڈسے جس نے گاندھی کو مارا کیونکہ ہندتوا والے کہتے ہیں ہندوستان کا بٹوارا غلط ہے ہندوستان اکھنڈ بھارت بننا تھا۔‘یہی نہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلم نسل کشی میں اس دوران تیزی لائی گئی۔اس پر ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ بھارتی قابض افواج مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری کو بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنا جاری رکھیں گے۔
نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت کا مہینہ بھی اس ہفتہ ہی شروع ہوا ، اس بار جلسہ جلوسوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر ٹکر کی دھوم مچائی گئی۔
ادھر پاکستان میں نیب کے سربراہ کی مدت ملازمت میں آرڈیننس والی تبدیلی کے نتیجے میں ’نیب نیازی گٹھ جوڑ ‘کا ٹرینڈ اپوزیشن دوڑاتی رہی ۔ تحریک انصاف کی پالیسیوں پر نالاں ہونے والے افراد کی تعداد کے مطابق اُس کے چاہنے والوں کو بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا پر مہمات کا سلسلہ بدستور جاری نظر آیا ۔ وزیر اعظم عمران خان کی سالگرہ سوشل میڈیا پر زور و شور سے منائی گئی۔’سیاست کے کپتان وزیراعظم عمران خان کو سالگرہ مبارک!اس ملک کو سنبھالنے کے لیے پاکستانی عوام نے عمران خان کو چنا. اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جس نظریہ کے ساتھ آئے، اس کو لے کر پوری دیانت داری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں. پاکستان عمران خان کی قیادت میں مضبوط ہو رہا ہے۔‘ ایک اور دیکھیں ، ’ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں آپ جیسا ایماندار، مخلص، بہادر اور وژنری لیڈر ملا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ آپ کی قیادت میں پاکستان ایک عظیم ملک بنے گا۔ میرے لیڈر عمران خان کو سالگرہ مبارک!‘ بس ان دو سے ہی اندازہ کرلیں ۔آگے الفاظ نہیں ہیں۔
ویسے پینڈورا پیپرز کی اشاعت پر کئی ہیش ٹیگز نے حکومت کو خوب رگڑا لگایا مطلب خان صاحب کو ۔سارا ٹبر چور ہے، چوروں کا سردار عمران، نشئی نے گھڑی بیچ دی جیسے ہیش ٹیگ چلتے رہے۔ اس دوران پیٹرول قیمت بم کی وجہ سے بھی عوام نے خوب غصہ نکالا۔معروف مزاحیہ اداکار عمر شریف بھی سوشل میڈیا سینسیشن بنے رہے ، ان کا کرب ناک انتقال ، امریکا روانگی، جرمنی توقف، انتقال کی خبر پھر وصیت، جنازے کا مقام اور بشیر فاروقی کا پڑھایا جنازہ سب کچھ موضوع بنا رہا۔یہاں تک کہ تدفین سے پہلے لوگ خالی قبر تک کی وڈیوز ڈالتے رہے کہ یہاں وہ دفن ہوں گے۔ عمر شریف کے مزاحیہ کلپس جہاں بڑی تعداد میں شیئر ہوتے رہے وہاں ان کا ایک ۲ سال پرانا کلپ نہایت اہمیت کا حامل رہا جس میں وہ مولانا الیاس قادری کے پاس گئے اور آنسوؤں میں اپنی مجبوری بیان کی اور روحانیت و سکون طلب کیا ۔ یہ کلپ بھی وائرل رہا کیونکہ یہ مولانا الیاس قادری کے فیس بک پیج سے خصوصی طور پر بنا کرشیئر کیا گیا تھا ۔دعوت اسلامی کا سوشل میڈیا نیٹ ورک مستقل استحکام اور اپنے منفرد مواد کی بدولت تیزی سے ویور شپ پکڑتا جا رہا ہے۔
اس ہفتہ مفتی طارق مسعود بھی جہلم پہنچ کر وائرل ہو گئے کہ وہ ایک کتاب کے موضوع پر انجینئر محمد علی مرزا سے گفتگو کے لیےدو بدو کراچی سے پہنچے اور وڈیو بنا کر ان کو 48گھنٹےکا وقت دیا ۔ مگرسیکورٹی وجوہات کا عنوان دے کر مرزا صاحب نے ملاقات نہیں کی اور مفتی صاحب الوداعی وڈیو بنا کر واپس روانہ ہوگئے ۔ سوشل میڈیا علما کرام میں یہ دو شخصیات بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں ، مرزا صاحب تو علی الاعلان اپنی وڈیوز کے وائرل ہونے اورکئی بڑے نیوز چینل کے مقابلےمیں زیادہ ویور شپ رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ، ایسا ہی کچھ مفتی طارق صاحب کا بھی ہے ، جنہوں نے دوسری شادی اور بلوغت کے مسائل پر کھلی گفتگو کر کے اپنے گرد ناظرین کی قطار جمع کی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں ان مسائل پر بات نہیں کی جاتی اور غلط رہنمائی مسائل کرتی ہے اس لیے علما کی جانب سے رہنمائی ہونی چاہیے مگر کیا ایسی شکل میں ؟ یہ سوال قابل بحث ہے۔

حصہ