معاشرے اور ریاست کی اجزائے ترکیبی

1036

ابتدائے زمانہ میں لوگ غاروں میں رہتے‘ نہ خاندان کا وجود تھا نہ قبیلہ اور نہ معاشرہ۔ خود سے اور خود کے لیے زندہ رہنے کی جدوجہد تھی اور زندگی کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال ہی سب کچھ تھا۔ اسی لیے انہیں جنگلی(savages)کہتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ خاندان، پھر قبیلہ اور معاشرہ وجود میں آیا۔ بستیاں آباد ہوئیں‘ قانون بنائے گئے اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف کام کرنے والے ہنر مندوں کی برادریاں بنیں۔ آج کی دنیا ایک منظم معاشرہ اور ریاستی وجود رکھتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں کو چلانے اور قائم رکھنے کے لیے اصول‘ ضابطے‘ قوانین‘ عدالتیں، پولیس اور فوج موجود ہے۔ میرے مضمون کا موضوع معاشرے اور ریاست کی بقا کے ضامن اجزائے ترکیبی ہے‘انسان کا وجود، معاشرے اور ریاست کی بقا دو سطحی ہے۔ انسان کا جسم جس طرح اعضائے جسمانی اور نظام جسمانی پر مشتمل ہے۔اعضائے جسمانی جو ہاتھ، پیر، آنکھ، کان اور شرم گاہ ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نابینا، لنگڑا، لولا، گونگا، بہرا زندہ رہتا ہے مگر نظام جسمانی دل، گردہ، پھیپھڑا، جگر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ نظامِ انہضام، نظامِ تنفس، نظامِ اخراج، نظامِ دوران خون، نظام استخواں اور نظامِ اعصاب جسم کے اعضائے رئیسہ ہیں یعنی زندگی کا دارومدار انہی پر ہے۔ اسی طرح معاشرے کے مختلف عناصر کے کمی بیشی اور خرابی سے معاشرے کا وجود خطرے میں نہیں پڑتا۔ مگر معاشرے کے کے اہم وجود میں والدین، اساتذہ، دینی قیادت یا پیشوا، مصنفین، معالجین، سماجی کارکن ہیں۔ اگر ان میں خرابی پیدا ہو جائے یا یہ اپنے فرائض انجام دینے میں کوتاہی کریں‘ بدعنوان ہو جائیں تو پھر معاشرے کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ آج ہم اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔
انسانوں سے ہی خاندان اور معاشرہ وجود میں آتا۔ ایک انسان کی پرورش کے تین دائرے ہیں ماں باپ، مدرسہ اور معاشرہ۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا انہیں دائروں میں گھوم کر ختم ہو جاتا ہے۔ والدین کی بے توجہی اور ناقص پرورش، اساتذہ کی غیر معیاری تعلیم‘ جو اب تعلیم کی بروکری کی صورت اختیار کر چکی ہے‘اور معاشرے کی غلط صحبت آدمی سے اس کے انسانی جوہر کو چھین لیتی ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچائو اپنے آپ کو اور اہلِ و عیال کو جہنم کی اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور انسان ہوں گے۔‘‘ (التحریم) آج کی دینی قیادت یا پیشوا قرآن وسنت کی درست تعلیمات دینے کے بجائے مسلکی اور فرقہ وارانہ تعصب کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ ہمارے منصفین نے تو انصاف کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ آج ڈاکٹر جو مسیحا ہوتا ہے اس نے قصابوں کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ مریض کے اچھا ہونے سے پہلے گھر والے مقروض اور بیمار ہو جاتے ہیں۔ خدمت کے نام پر سماجی کارکن کے اللے تللے ہو رہے ہیں۔
ریاست عوام کے لیے محترم اور غیر متزلزل وجود رکھتی ہے‘ اس کے خلاف بولنا غداری ہے۔ ریاست مختلف اداروں کے ذریعہ قائم اور متحرک رہتے ہوئے اپنے عوام کی جان و مال، عزت و آبرو اور ملکی آزادی کی حفاظت کرتی ہے۔ ریاست کے مقتدر ادارے جو نظام ریاست کا حصہ ہیں‘ اُن میں سب سے پہلے مقننہ یعنی پارلیمنٹ ہے جہاں منتخب نمائندے قانون سازی کے ذریعے ملک کے تمام شعبوں کو فعال اور مستحکم رکھتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں بناتے اور ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوستی اور دشمنی کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے منتخب پارلیمانی اراکین کا کردار‘ اُن کا ماضی اور حال اپنے عوام کے لیے مضر ہو چکا ہے۔ دوران سیشن ایسی غیر مہذب حرکتیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو مغلظات بکتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایک دوسرے کی چال چلن کا پردہ فاش کرکے عوام کے شعور کو بھی دنیا کے سامنے شرمندہ کرتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ریاست کا اہم حصہ عدلیہ ہے جو آزاد نہیں ہے۔ یہ حکمرانوں کی کٹھ پتلیاں بن چکی ہیں اور انصاف نیلام گھر کی گڑیا بن چکی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ’’کافر کی حکومت قائم رہے گی اگر وہ انصاف کرنے والی ہو‘ مگر مسلمان کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی اگر وہ انصاف نہ کرتی ہو۔‘‘
دوسری عالمی جنگ میں جب جرمنی کی فضائی فوج سیکڑوں طیاروں کے ساتھ لندن پر بم باری کر رہی تھی تو برطانیہ کے وزیر جنگ نے چرچل کے زیر زمین بنکر میں آکر کہا کہ ’’مسٹر وزیراعظم مشکل ہے کہ لندن کو بچایا جائے۔‘‘
چرچل نے پوچھا ’’یہ بتائو ہماری عدلیہ کیا کر رہی ہے؟‘‘ وزیر موصوف نے کہا ’’عدلیہ فیصلے ٹھیک کر رہی ہے۔‘‘ چرچل نے جواب دیا ’’جائو کچھ نہیں ہوگا‘ لندن محفوظ ہے۔‘‘
بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش کی عدلیہ کے ساتھ دیگر ممالک‘ جہاں آمریت مسلط ہے‘ عدلیہ نہ آزاد ہے اور نہ ہی عدل و انصاف سے کام کرتی ہیں۔
تیسرے نمبر پر انتظامیہ ہے جو پٹواریوں سے لے کر سول بیوروکریسی پر مشتمل ہے‘ درحقیقت یہی لوگ اصل حکمراںہیں‘ سیاسی لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر ان کی اکثریت سیاسی جماعتوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے گماشتے ہیں اور ان سے گٹھ جوڑ کر کے ایک دوسرے کی بد عنوانیوں اور مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ تیسرے درجے پر اہم ریاستی وجود پولیس اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے والی ایجنسیاں ہیں جو نہ صرف حکمرانوں کی ہدایت پر قانون سے ماورا کام کرتی ہیں بلکہ تمام تر برائیوں کی سر پرستی میں براہ راست ملوث پائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سطح کی برائی کم ہونے کے بجائے دن دگنی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کی جان و مال‘ عزت و آبرو غیر محفوظ ہو چکی ہیں اور کوئی دادرسی کرنے والا نہیں۔ لگتا ہے جنگل کا راج ہے۔
چوتھا اہم ریاستی وجود فوجی ادارہ ہے جو ریاست اور ملک کے تمام تر اداروںاور ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ہے اور ملکی آئین کا پابند ہے مگر شومیِ قسمت پاکستان میں بار بار فوج نے آئین توڑا، فوجی حکمرانوں کی موجودگی میں ملک دو لخت ہوا، سیاچن پر بھارت قابض ہوا اور امریکی ہدایت پر 20 سال تک 70 ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں اور فوجی جوانوں کی شہادت ہوئی‘ ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا۔
بر صغیر کے تینوں ممالک میں حکمرانوں کے استحصالی رویوں سے تنگ آکر جب عوام سڑکوں پر آتے ہیں تو فوج اور پولیس کے ذریعے بدترین تشدد اور ماورائے آئین اقدام کرکے انسانی حقوق اور بنیادی شہری حقوق کو پامال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت ‘ پاکستان اور بنگلہ دیش میں علیحدگی کی تحریکیں متشدد راستہ اختیار کر چکی ہیں۔ پاکستان کے دو لخت ہونے میں اس تاریخی استحصال کو زمینی حقائق کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ آج ہندوستان میں علیحدگی کی درجنوں خونی تحریکیں عروج پر ہیں جبکہ کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 72 سال سے موجود ہے۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور فوج ریاست کے اعضائے رئیسہ ہیں‘ ان کے اندر عدم توازن اور اپنے حدود سے تجاوز ملکی سلامتی اور بقاکے لیے مضر ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ غیر معیاری عوامی نمائندگی، کرپٹ انتظامیہ، پولیس اور پیشہ وارانہ دائرے سے متجاوز فوجی کردار ملک اور قوم کے بربادی کا سامان ہیں۔
(They are the vital organs and components of the state if they will sick the whole nation will become sick)
ہمارے اس خطے میں جو حال ہے وہ چند اشعار سے ظاہر ہوتا ہے۔
کتنے شاہیں بسیرے کو ترسا کیے
چھا گئے باغ پر کتنے زاغ و زغن
کتنے اہلِ وفا کھینچے گئے دار پر
کتنے اہل ہوس بن گئے نو رتن
اک بزم سیاست کا ماتم نہیں
ہر نگر ہر ڈگر یہی حال ہے
کتنی قبروں پہ چڑھتی رہی چادریں
کتنے لاشے پڑے رہ گئے بے کفن
وقت کی گردشوں کا بھروسہ نہیں
مطمئن ہو کہ بیٹھیں نہ اہل چمن
ہم نے دیکھیں ہیں ایسے کئی حادثے
کھو گئے رہنما لٹ گئے راہ زن
( عامر عثمانی )
آج کی جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے وہ تمام امریکی، یورپی، جاپانی عوام زندگی کے تمام تر سہولیات کے حصول کے بعد اپنا نہ صرف خاندانی نظام برباد کر چکے ہیں بلکہ رشتوں کا تقدس بھی ختم ہو چکا ہے۔ مذہب‘ جو انسانوں کوتکریمِ انسانیت اور تحریم رشتہ سکھاتا ہے‘ اُس کی جگہ کاروباری سوچ اور خود غرضی لے چکی یہی وجہ ہے کہ کروڑوں عورتیں جسم فروشی کرکے اپنا پیٹ پال رہی ہیں porn industry وجود میں آچکی ہے‘ دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات جاپان میں ہوتے ہیں جہاں جنسی زیادتی اور قتل عام ہے۔ آسائشِ حیات تو مل جائے گی مگر سکونِ قلب مقدر کی بات ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان غیر حقیقی رشتے، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان تجارتی تعلق، مذہبی پیشوا اور عوام کی آپس کی نا قدری یا پھر نفرت و عداوت کی تعلیم، جعلی دوائیں اور غریب عوام کی صحت کی سہولیات سے محرومی معاشرے کی تباہ شدہ صورت حال کو پیش کر رہی ہیں۔ ہمارے گھر کشادہ ہیں مگر دلوں میں تنگی ہے۔ ہمارے پاس ڈگریاں ہیں مگر ہماری سوچ ننگی ہے۔ آج پوری دنیا میں سرمایہ منجمد ہو کر یہودی کے پنجۂ استبداد میں ہے۔ عالمی جنگ کا بگل کسی وقت بھی دنیا کا دھڑن تختہ کر دے گا۔ ریاستیں عوام کے بجائے خواص کے مفادات کو اوّلیت دے رہی ہیں۔ یہی حال آج سے 14سو سال قبل تھا اور دنیا 6 صدیوں تک آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منتظر تھی۔ آپؐ آئے تو زمانے کو قرار آیا۔ آج بھی نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی راحت جاں ہے۔

حصہ