مجھے میرا کراچی لوٹادو

284

ٹوٹی سڑکیں، گلیوں میں سیوریج کا بہتا پانی، کچرے سے اٹے ندی نالے، بے رونق محلے، دھواں اڑاتی خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ، کچی بستیوں میں مکھیوں اور مچھروں کی یلغار، سرکاری اسکولوں میں چھائی ویرانی، غربت و افلاس کے باعث بھوک سے نڈھال بلبلاتے بچوں کی صدائیں اور اسپتالوں کی بدحالی صاف بتا رہی ہے کہ یہ نوحہ کراچی کا ہے۔
ہاں وہ کراچی، جو شہرِ دل تھا، وہ کراچی جس نے پریشان حال اور بے سہارا لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا.. جی ہاں وہ کراچی جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت تو رکھتا ہے لیکن اس کے اپنے درد کی دوا کوئی نہیں کرتا… اس کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ ہائے رے کراچی، ایک زمانہ تھا جب تیرے مسائل پاکستان کے اربابِ اختیار کو پریشان کردیا کرتے تھے۔ حکومتی ارکانِ اسمبلی ہوں یا اپوزیشن ارکان… سب کا دل تیرے ہی ساتھ دھڑکتا تھا۔ لیکن آج کوئی پوچھنے والا نہیں۔
مجھے یاد ہے یہاں سڑکوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ بڑی شاہراہیں ہوں یا اونچی عمارتیں… محلّوں میں بنے پارکوں سے لے کر ساحلِ سمندر تک سب اپنی مثال آپ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک کے کونے کونے سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے۔ محبتیں بانٹتے اس شہر کی وہ حسین یادیں ہر اُس شخص کے ذہن میں ہوں گی جس نے اُس وقت کا کراچی دیکھا ہے۔ میرے بزرگ ماضی کی وہ باتیں جو اس شہر سے وابستہ ہیں، مجھے بتاتے ہیں تو اُن کی آنکھوں میں نمی صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کی آنکھوں کا نم ہونا کراچی سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آج کا نوجوان شاید میری ان باتوں سے اختلاف کرے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ اُس وقت کا سچ ہے جب پاکستان کا دارالحکومت کراچی ہوا کرتا تھا۔ یہاں ہر محکمہ اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کرتا۔ لوگ سرکاری اداروں کے چکر کاٹتے اور نہ ہی کسی بنیادی سہولت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے۔ تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے۔ پانی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ کی سہولیات یہاں کے مکینوں کو میسر تھیں۔ اگر ہم صرف بجلی کے ترسیلی نظام کو جو اُس وقت نافذ تھا، دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بجلی کی بندش کیا ہوتی ہے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی لوڈشیڈنگ سے کراچی کے عوام ناآشنا تھے۔ اُس وقت مین ہائی ٹینشن سے صارفین کے گھروں تک بہترین تانبے کے تاروں کے ذریعے بجلی کی سپلائی دی گئی تھی، جس سے لائن لاسز نہ ہونے کے برابر ہوتے۔ جبکہ پینے کے صاف پانی کا ذکر کیا جائے تو اس کی سپلائی بھی کسی تعطل کے بغیر جاری رہتی۔ پانی وافر مقدار میں ہونے کے باعث ذخیرہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ تعلیمی اداروں نے ایسے گراں قدر ہیرے تراشے جن کی چمک سے سارا ملک جگمگانے لگا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر عطاء الرحمٰن ہوں… حکیم محمد سعید، سید منور حسن، پروفیسر غفور احمد جیسے سیاسی اکابرین ہوں… یا پھر جاوید میانداد اور جہانگیر خان جیسے بین الاقوامی کھلاڑی… ہر میدان میں کامیابی کراچی سے تعلق رکھنے والوں کی ہی مرہون منت رہی۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدلنے لگا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب کچھ ختم کیا جانے لگا تو بے جا نہ ہوگا۔ اسے سازش کہا جائے یا تعصب، کراچی دشمنی کا نام دیا جائے یا ذاتی آَنا… نہ جانے کیوں اور کس کے کہنے پر کس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اربابِ اختیار نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔
یہاں دارالحکومت کی منتقلی کا ذکر کرنا سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنا نہیں، اور نہ ہی میں کراچی اور اسلام آباد کے درمیان تفریق پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف اُن مسائل کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو اس متعصبانہ فیصلے کے بعد حکمرانوں کی چشم پوشی کے نتیجے میں پیدا ہوئے، جس نے اس شہر کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ تقریباً ہر محکمے کی تباہی کی ایک داستان ہے۔ کرپشن اور اقربا پروری کی اس داستان کو اگر لکھنے بیٹھا جائے تو برسوں تک بھی ختم نہ ہو۔ اقتدار کے نشے میں چُور نام نہاد سیاسی پنڈتوں نے یہاں بسنے والی لسانی اکائیوں کے درمیان تعصب کا ایسا بیج بویا جس کے نتیجے میں تیار ہونے والی فصل سے کانٹوں کے سوا کچھ نہ ملا۔
کون نہیں جانتا کہ کراچی شہر خصوصاً صوبہ سندھ پر مسلط کی جانے والی جماعتوں کی طرزِ حکمرانی نے صوبہ سندھ کے عوام کو شہری اور دیہی میں تقسیم کردیا۔ نتیجتاً کراچی میں محرومیوں نے جنم لیا۔ ظاہر ہے جب کوئی علاقہ زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوجائے تو وہاں پیدا ہونے والے مسائل کا سدباب کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ پھر کیا ہوا، سب جانتے ہیں۔ ایک نہ ختم ہونے والی ایسی جنگ کا آغاز ہوا جس نے شہر کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک محلے کے مکینوں کے لیے دوسرا محلہ ریڈ زون بنادیا گیا۔ زبان کی بنیاد پر لوگ گاجر مولی کی طرح کاٹے جانے لگے۔
تقریباً تیس برس آگ اور خون کا یہ کھیل جاری و ساری رہا اور حکمران سب اچھا کی گردان کرتے رہے، جبکہ یہاں بسنے والے اس ظلم کا سامنا کرنے کے باوجود ان مسلط کردہ حکمرانوں پر اندھا اعتبار کرتے رہے۔ پھر ہوا یوں کہ ان حکمرانوں نے ہمیں حقیقی طور پر اندھا سمجھنا شروع کردیا، اور پھر ایک ایسی اندھیر نگری قائم ہوئی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اندھیرے کی وجہ سے سچ جھوٹ محسوس ہونے لگا، اور جھوٹ سچ لگنے لگا۔ یعنی جن پر قوم کی جانب سے حقوق دلانے جیسے حسین نعروں کے باعث اندھا اعتماد کیا گیا تھا وہ ہمارے اس اندھے پن کا بھرپور فائدہ اٹھانے لگے۔ دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلا کر اپنی اپنی کامیابیوں کے نعرے مارتے رہے۔ یوں یہ سیاسی بازیگر ذاتی طور پر کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں جا بسے، مگر کراچی جہاں کھڑا تھا وہاں سے کئی میل پیچھے چلا گیا۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں اگر ایسے حالات ہوں جو ہمارے شہر میں رہے تو حکومتیں بڑی مستعد ہوجایا کرتی ہیں۔ سرحدوں سے لے کر اداروں تک نگاہ رکھنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب جبکہ تبدیلی آچکی ہے اور ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری ہے، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے کے حالات بدل سکتے ہیں جس سے ہم پر نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی دباؤ بھی آسکتا ہے، بلکہ بیرونی دباؤ تو بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں احتیاط ضروری ہے، خاص کر کراچی جیسے شہر میں، جہاں ملک دشمن موقع کی تلاش میں ہیں۔ ان حالات میں موجودہ حکمرانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس لیے اَنا کو چھوڑ کر پورے ملک خصوصاً کراچی کے عوام کے جائز مطالبات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے عوام کو کچھ نہ کچھ سہولتیں مل سکیں۔ تمام ایسے اداروں کو جو عوام سے دو وقت کی روٹی چھیننے کے درپے ہیں، پابند کرنا ہوگا۔ اگر عوام کے ذمے کسی ادارے کے جائز واجبات ہیں تو بے شک قانونی طریقہ کار کے مطابق وصول کیے جائیں، جس سے لوگوں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ خاص طور پر کے الیکٹرک جیسے بے لگام ادارے پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ دھونس اور دھمکی سے اجتناب برتا جانا چاہیے، کیوں کہ اس سے افراتفری میں اضافہ ہوگا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ساتھ ساتھ ایسے تمام محکموں کے خلاف جو ظالمانہ اقدامات کرنے میں مصروف ہیں، عوام کی آواز بنیں۔ نام نہاد سیاسی قائدین کو ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کرنے کے بجائے عوامی مسائل پر مخلصانہ جہدوجہد کرنا ہوگی۔
میں پھر کہتا ہوں خان صاحب خاص طور پر کراچی کے مسائل کی طرف توجہ دیں اور کئی سال سے جاری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ خان صاحب کو یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ یہ کرسی جس پر وہ براجمان ہیں اس پر بٹھانےمیں کراچی کے عوام نے بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہاں کے شہریوں نے پہلی مرتبہ وہ کرکے دکھایا جس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا۔ جو لوگ ماضی میں اس شہر پر حکمرانی کرتے رہے ہیں وہ ہمیشہ مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے رہے۔ آج عوام رو رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب! آپ کے سوا کراچی والوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ تبدیلی کی باتیں بہت ہوچکیں، اب کام کرکے دکھانا ہوگا۔ آپ کی حکومت کو تین برس سے زائد کا وقت ہوچکا ہے، لیکن ابھی تک صرف باتیں ہی کی جارہی ہیں، ابھی تک آپ کی کارکردگی صفر دکھائی دے رہی ہے جس سے عوام میں مایوسی پھیلتی جارہی ہے۔ وزیراعظم صاحب! کراچی کے عوام نے آپ کی جماعت کو ووٹ دے کر اپنا حق ادا کردیا ہے۔ اب آپ کی باری ہے، ان کی فریاد سنیے۔ ماضی گواہ ہے کہ ہمیشہ اس شہر کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ اِس بار کراچی کے عوام کی قسمت بدلنے کے لیے کچھ کر گزریں، کیونکہ کراچی کی تبدیلی ہی ملک بھر کی تبدیلی کی ضمانت ہے۔

حصہ