ہم کیوں مسلمان ہوئے

276

تحریک اسلامی کی چوتھی چیز جس نے مجھے متاثر کیا ہے‘ یہ ہے کہ اس نے دنیا کے مختلف حصوں میں لاکھوں کی تعداد میں ایسی افراد کو تیار کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ اسلام کا صحیح فہم اور شعور رکھتے ہیں بلکہ اسلامی نظام کے قیام کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھ کر اس کے لیے اپنی ہر متاع نچھاور کر دینے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی آرزو سمجھتے ہیں‘ جنہیں کسی طاقت سے دبا کر اور کسی قیمت سے خرید کر اپنے مؤقف سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ لوگ عصرِ حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل مخالف تحریکوں کو بھی پوری طرح سمجھتے ہیں اور ان کا ہر میدان میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتسے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت ان نئے تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں بجا طور پر یہ خدشہ تھا کہ فرنگی نظامِ تعلیم کی بدولت وہ اپنے دین‘ تہذیب اور جداگانہ تشخص سے بے گانہ ہو کر اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آلۂ کار بن جائیں گے۔‘‘
’’جماعت اسلامی کے علاوہ آپ دنیائے اسلام کی اور کون سی اسلامی تحریک سے متاثر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جماعت اسلامی کے بعد مجھے سب سے زیادہ مصر کی اخوان المسلمون نے متاثر کیا ہے۔ جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون میں بظاہر کوئی انتظامی ربط موجود نہیں لیکن مقصد کے لحاظ سے دونوں تنظیموں میں گہرا ارتباط موجود ہے کیوں کہ ان دونوں تحریکوں کا منبع ایک (کتاب و سنت) ہی ہے۔ پھر ان دونوں تحریکوں کی پشت پر سید مودودیؒ اور سید قطبؒ، محمد قطب اور دوسرے مفکرین کا عظیم لٹریچر موجود ہے۔ میرے خیال میں دنیائے اسلام میں احیائے دین کی باقی تحریکیں بھی انہی دونوں تحریکوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ دونوں تحریکیں ایک عالمگیر اسلامی تحریک کے قیام کی راہ ہموار کریں گی۔‘‘
’’ملت اسلامیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج کون سا ہے؟‘‘ میں نے ایک اور سوال پوچھا۔
’’موجودہ دور میں ملتِ اسلامیہ کو درپیش سب سے بڑا چیلنج‘‘ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ’’وہ مختلف افکار و نظریات اور ازم ہیں جو گزشتہ صدی کے نصفِ آخر اور موجودہ صدی کے نصف اوّل میں خالص مادہ پرستانہ بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا کا ایک بڑا حصہ انہی ملحدانہ افکار و نظریات کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ نظریات نوعِ انسانی کو ذہنی استقرار اور قلبی سکون فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں انسان کے مسائل اور مصائب میں بھیانک اضافہ ہوا ہے اور اب دنیا ان سے اکتا چکی ہے‘ لیکن اس کے باوجود انہیں ایک خاص مقصد کے تحت ایک منظم طریقے سے عالمِ اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بدقسمتی سے انہیں مسلمانوں میں پھیلانے کے لیے خود مسلمانوں میں سے ایجنٹ مل گئے ہیں۔‘‘
’’اس چیلنج سے عہدہ براں ہونے کی کوئی صورت ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میرے خیال میں اس صورتِ حال سے پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ کا اتارا ہوا دین ہے اور خود ساختہ افکار و نظریات اس کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک ٹھہر نہیں سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اربابِ فکر و نظر اس چیلنج سے اسلام کی روشنی میں عہدہ براںہونے کے لیے میدان میں آجائیں اور ان گمراہ کن افکار و نظریات کے مقابلے میں اسلام کو پیش کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ ملحدانہ افکار و نظریات اسلام کے مقابلے میں ریت کی دیوار کی طرح بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ میں اس سلسلے میں مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور تحریک اسلامی سے وابستہ دوسرے مفکرین کے تخلیق کردہ لٹریچر کے حوالے سے یہ کہوں گا کہ بلاشبہ یہ لٹریچر اپنے اندر اس چیلنج سے عہدہ براں ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے‘ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے دانش ور اور اہلِ قلم ان کتابوں میں دیے گئے رہنما خطوط کی روشنی میں مزید لٹریچر تیار کریں تاکہ ہمارے لیے زندگی کے ہر میدان میں اسلام کی روشنی میں مکمل رہنمائی کا سامان موجود رہے۔‘‘
مسلمان دانشوروں اور اہلِ قلم حضرات کی تصانیف کی بات چلی تو میں نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحب! کیا آپ خود اپنی تصانیف کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟‘‘
’’اب تک میری چھ تصانیف مکمل ہو چکی ہیں یا زیر تکمیل ہیں۔ پہلی کتاب ’’گنگا سے زمزم تک‘‘ اردو زبان میں ہے۔ اس کتاب میں‘ میں اپنے قبولِ اسلام کے حالات و واقعات اور تاثرات بیان کر رہا ہوں۔ اس میں بیسویں صدی کی احیائے اسلام کی تحریکوں کا ذکر بھی ہوگا اور اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف داخلی و خارجی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا بھی۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں اس دورکی ممتاز عالمی اسلامی شخصیتوں کا تذکرہ بھی آئے گا۔
دوسری کتاب ’’قرآن کے سایہ تلے‘‘ ہندی زبان میں ہے اور اس کتاب کو ہندو نوجوانوں میں ان کے مزاج کی مناسبت سے دعوتِ اسلامی کی توسیع کے لیے لکھا ہے۔ یہ کتاب ماہنامہ ’’کانتی‘‘ دہلی میں قسط وار شائع ہو چکی ہے اور اب بہت جلد کتابی صورت میں منصۂ شہود پر آرہی ہے۔
تیسری کتاب ’’ننگی تلواروں کے سائے میں‘‘ اردو زبان میں ہے۔ اس میں قرنِ اوّل سے لے کر موجودہ دور تک کے ان اصحابِ عزیمت کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی زبان و قلم اور جان و مال سے راہِ حق میں جہاد کی تابناک مثالیں قائم کی ہیں۔ اس کتاب سے جہاں راہِ حق میں جہاد کرنے والوں کے لیے نقوشِ راہ واضح ہوتے ہیں وہاں یہ ناقابل انکار حقیقت بھی ثابت ہوتی ہے کہ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس کا دامن تاریخ کے ہر دور میں اصحابِ عزیمت و استقامت کی متاع گرانمایہ سے مالا مال رہا ہے۔
چوتھی کتاب ’’الدراستہ فی ادیان الہند‘‘ میں ہندوستان کے چار مذاہب ہندو مت‘ بدھ مت‘ جین مت اور سکھ مت کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ چاروں مذاہب بعض اختلافات کے باوجود اپنی موجودہ صورت میں بہت سی باتوں میں مشترک ہیں اور ان کی بنیادیں بعض ایسے دیو مالائی عقائد و تصورات اور بے مقصد مذہبی رسوم پر کھڑی ہیں جنہیں عقلِ سلیم گوارا نہیں کرسکتی۔ یہ کتاب بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ماہانہ مجلہ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے۔
پانچویں کتاب’’ابو ہریرہ فی ضوء مرویاتہ فی شواہدہ و انفرادہ‘‘ ہے۔ یہ دراصل میرا ماجستر (ایم اے) کا مقالہ ہے جو تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ دین کی اساس کتاب و سنت پر قائم ہے اور حدیث سے صرفِ نظر کرکے احکامِ قرآنی کی روح تک پہنچنا اور ان کے مطابق عمل کرنا ناممکن ہے۔ مخالفینِ اسلام نے مسلمانوں کا تعلق ان کے دین سے منقطع کرنے کے لیے دین کی اس دوسری اساس یعنی حدیث کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ہدف بنایا ہے اور بدقسمتی سے انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے خود مسلمانوں میں سے بعض آلۂ کار (منکرینِ سنت) مل گئے۔ ان لوگوں کی طرف سے احادیث کی صحت پر مختلف زمانوں میں مختلف پہلوئوں سے جو اعتراضات کیے گئے ہیں‘ ان میں سے ایک بڑا اعتراض ابوہریرہؓ کی روایت کردہ احادیث کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ غزوہ تبوک کے (9 ہجری) کے موقع پر ایمان لانے والے حضرت ابوہریرہؓ نے صرف تین سال (حضورؐ کی وفات تک) کے عرصے میں ساڑھے پانچ ہزار کے قریب احادیث کس طرح روایت کی ہیں جب کہ وہ درمیان میں کچھ عرصے کے لیے یمن کے قاضی بھی رہے اور دربار رسالتؐ میں ان کی حاضری کی مدت مشکل سے تین سال بنتی ہے‘ حالانکہ بعض دوسرے صحابہ کرامؓ سے جو دربارِ رسالتؐ میں بیس بیس سال سے بھی زیادہ عرصے تک حاضر رہے‘ بمشکل چند سو احادیث مروی ہیں۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ احادیث کا بیشتر حصہ اپنی روایات کے اعتبار سے ناقابل اعتبار ہے۔ یہ احادیث کی صحت پر بڑا سخت حملہ ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے احادیثِ رسول پر کیے جانے والے ان اعتراضات کا اور محدثینِ کرام کی طرف سے ان کے جوابات کا جائزہ لیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ اپنی روایت کردہ احادیث میں تنہا ہیں یا یہ احادیث دوسرے صحابہؓ سے بھی روایت ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد دیکھا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہؓ کتنی احادیث کے راوی ہیں اور نقدِ حدیث کے مختلف معیاروں پر ان احادیث کی کیا حیثیت ہے؟
میری چھٹی کتاب ’’اقضیۃ الرسول‘‘ ہے۔ یہ دراصل میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو 725 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ فیصلے بیان کیے گئے ہیں جوحضور نے اپنی 23 سالہ پیغمبرانہ زندگی کے دوران سربراہِ مملکت اور قاضی کی حیثیت سے صادر فرمائے اور جو کتاب اللہ کے بعد اسلامی قانون کا سب سے بڑا ماخذ بھی ہیں اور مرجع بھی۔ یہ کتاب بھی جلد شائع ہو جائے گی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب اپنی تصانیف کا ذکر کر چکے تو میں نے ان سے پوچھا ’’آپ آئندہ کس موضوع پر لکھ رہے ہیں؟‘‘
’’میں ہندی زبان میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اسلامی نظامِ حیات کے مختلف پہلوئوں کو ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں خالص علمی انداز میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہی پہلوئوں سے ہندو منت‘ بدھ مت‘ جین مت اور سکھ مت کا تقابلی مطالعہ بھی کروں گا کیوں کہ میرے نزدیک ہندوئوں کی اسلام سے دوری کا دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے سامنے اسلام کو خود ان کی زبان میں اور ان کی مخصوص ذہنی افتاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کے شائع کردہ ہندی لٹریچر کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر چیز بمشکل ہی ملتی ہے۔ مجھے یقین ہے اگر ہندوئوں کے سامنے ان کی مخصوص ذہنی افتاد کو سامنے رکھتے ہوئے خود ان کی اپنی زبان میں اسلام کو وسیع پیمانے پر پیش کیا جائے تو ہندوئوں میں اسلام کی اشاعت کے خاصے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً اس لیے کہ اب ہندوئوں کا نوجوان طبقہ ہندو مت کے دیو مالائی عقائد اور رسم و رواج سے سخت غیر مطمئن ہوتا جارہا ہے۔ وہ ذہنی سکون کی تلاش میں ہندو مت کو چھوڑ کر کسی اور طرف جانا چاہتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو خود ان کی زبان میں ان کی ذہنی سطح کے مطابق ان کے سامنے پیش کریں تو شاندار نتیجہ نکل سکتا ہے۔ یہی اس کتاب کے لکھنے کا بنیادی محرک ہے ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کا ایک سبب اور بھی ہے۔ بھارت میں ہندی زبان کے سرکاری اور تعلیمی زبان قرار دیے جانے کے بعد مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ ہندی زبان میں زیادہ سے زیادہ لٹریچر تخلیق کرنے کا اہتمام کریں ورنہ اندیشہ ہے کہ وہاں خود مسلمانوں کی آئندہ نسلیں بھی بتدریج اسلام سے بے گانہ ہوتی چلی جائیںگی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب گزشتہ دنوں دس سال کے بعد پہلی بار ہندوستان گئے تھے۔ ان کے اس سفر کا مقصد اپنے اعزا و اقارب سے ملنا اور ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کا جائزہ لینا تھا۔ میں نے اگلا سوال اسی حوالے سے کیا اور ان سے اس دورے کے تاثرات دریافت کیے۔ (بقیہ :صفحہ 12)
’’تقریباً دس سال بعد میں دوبارہ ہندوستان گیا تو میں نے ہندوستان کوکئی پہلوئوں سے مختلف پایا۔ سب سے اہم پہلو ہندو مسلم تعلقات کا ہے کیوں کہ ہندوئوں میں اسلام کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں اس چیز کو بنیادی کردار ادا کرنا ہے۔ ہندوئوں میں اسلام سے دوری کا بڑا سبب مسلمانوں سے ان کی نفرت اور دوری رہا ہے‘ جس کا باعث کچھ تو ان کا اپنا تعصب تھا اور کسی حد تک خود مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی۔ مسلمانوں سے اپنی شدید نفرت کی وجہ سے وہ اسلام کے زندگی بخش نظام کو قریب سے دیکھ ہی نہیں سکے اور ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ خود مسلمان بھی انہیں پوری طرح متاثر نہ کر سکے۔ وہ نہ تو انہیں اسلام کی دعوت صحیح طور پر پیش کرسکے اور نہ اپنے طرزِ عمل سے اس بات کی شہادت دے سکے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ذلت کی کن پستیوں سے اٹھا کر عظمت کی کن بلندیوں پر فائز کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہندوئوں میں کئی انتہا پسند تنظیمیں مثلاً ہندو مہاسبھا‘ جن سنگھ‘ راشٹریہ سیوک سنگھ وغیرہ پیدا ہو گئیں جو اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھتی ہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں ان تنظیموں نے ہندوستان سے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ انہوں نے یہ سب کچھ اعلانیہ کیا۔ کانگریس کی طرح دوستی کے پردے میں نہیں بلکہ اب میں ہندوستان گیا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اب ان میں سے بعض کے رویّے اور طرزِ زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی آچکی ہے۔ خصوصاً جن سنگھ ایسی متعصب اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی انتہا پسند تنظیموں کا روّیہ بہت حد تک بدل چکا ہے۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ جب بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے مخالفین کو ظلم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں ٹھونسنا شروع کر دیا تو اکثر ایسا ہوا کہ جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈر اور کارکن اور تحریک اسلامی کے قائدین اور کارکن ایک ہی جیل‘ بلکہ ایک ہی کمرے میں ٹھونس دیے گئے۔ یوں جن سنگھ اور آر ایس ایس کے لیڈروں کو ایک عرصے تک تحریکِ اسلامی کے قائدین اور کارکنوں کو قریب سے دیکھنے اور ان کی وساطت سے اسلام کوئی اس کے صحیح رنگ میں سمجھنے کا موقع ملا اسلام کی دعوت ان کے سامنے اصل رنگ میں پیش کی گئی اور ساتھ ہی اپنے طرز عمل سے اس کی شہادت دی گئی تو اس نے اپنا اثر دکھایا۔ نتیجہ یہ کہ جن سنگھ اور آر ایس ایس کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اب رواداری میں بدل چکی ہے۔ اب ان کا روّیہ معاندانہ کے بجائے خیر خواہانہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جو ان جماعتوں کے رویے اور طرز عمل میں آئی ہے۔
اب تو یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات ان لوگوں کی طرف سے تحریک اسلامی کے رہنمائوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ان کے مندروں میں آکر ان کے اجتماعات سے خطاب کریں اور ان کے سامنے اسلام کو اس کے اصل رنگ میں پیش کریں۔ چنانچہ انہی دنوں کی بات ہے کہ امیر جماعت اسلامی ہند مولانا محمد یوسف نے جن سنگھی رہنمائوں کی دعوت پر احمدآباد جا کر ان کے مندر میں درسِ قرآن بھی دیا اور اسلامی نظامِ زندگی کے مختلف پہلوئوں پر خطاب بھی کیا۔ اسی دوران نماز کا وقت آیا تو انہوںنے مندر ہی میں اذان دے کر اپنے احباب اور رفقا کے ساتھ نماز با جماعت ادا کی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کے سلسلے میں افہام و تفہیم کی یہ کوششیں جاری رہیں تو ان شاء اللہ یہ لوگ اسلام سے قریب سے قریب تر آتے جائیں گے اور کعبے کو اس صنم سے خانے سے کتنے ہی پاسبان مل جائیں گے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر نے بتایا ’’میرا یہ دورہ انتہائی کامیاب رہا۔ بھارت میں‘ میں پچیس دن ٹھہرا اور یہ عرصہ شمالی ہندوستان سے جنوبی ہندوستان تک مسلسل سفر میں گزرا۔ جہاں بھی گیا میرا بڑا پُرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام منعقدہ جلسوں طلبہ کے اجتماعات اور مسجدوں میں عامۃ المسلمین سے اکثر خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ہر جگہ مسلمانوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلے میں ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں سے کس طرح عہدہ براں ہو سکتے ہیں۔
اس دورےکے دوران کئی ہندو نوجوان بھی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ اس بات سے حد درجہ متاثر تھے کہ ایک ایسا نوجوان جو ابھی چند ہی سال پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوا تھا‘ اسلام کی دامانِ عاطفت میں آنے کے بعد کیا سے کیا ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ اسے اسلام کے تصورِ مساوات کے مطابق باقی مسلمانوں کے برابر سمجھا گیا بلکہ اس کی صلاحیتوںکے بنا پر رابطۂ عالمِ اسلامی ایسے اہم عالمی اسلامی ادارے میں ایک اہم منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔ ان میں اکثر نوجوان مجھ سے تخلیے میں ملنے کے خواہش مند تھے لیکن میرا پروگرام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ میں اپنی مسلسل مصروفیتوں کی بنا پر ان نوجوانوں سے الگ ملاقات کے لیے وقت نہ نکال سکا۔ بہرحال وہ لوگ میری شخصیت میں قبولِ اسلام کے نتیجے میں رونما ہونے والے انقلاب سے حد درجہ متاثر تھے۔ آئندہ کبھی مجھے بھارت کے دورہ پر جانے کا موقع ملا تو اپنا پروگرام کچھ اس طرح ترتیب دوں گا کہ میں ان نوجوانوں سے خصوصی ملاقات کے لیے وقت نکال سکوں۔‘‘
’’کیا آپ اپنے والدین سے بھی ملے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں میں اپنے والدین سے بھی ملا تھا۔ وہ بھی میری شخصیت کے اندر اسلام کی برکت سے پیدا ہونے والی عظیم تبدیلی نیز میرے رابطۂ عالمِ اسلامی میں ایک اہم منصب پر فائز ہو جانے کی وجہ سے بے حد متاثر تھے۔ انہیں مزید متاثر میرے طرزِ عمل نے کیا جو میں نے پانچ چھ سال سے ان کے بارے میں اختیار کر رکھا تھا۔ میں ان کی کفالت کی ساری ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں اور یہ بات ان پر واضح کر دی ہے کہ میرا ان کے ساتھ یہ طرزِ عمل اسلام کے واضح احکامات اور تعلیمات کی بنا پر ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ اگر کسی کے والدین اسلام نہ قبول کریں تو بھی ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کیا جائے۔ میں نے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسلام کو دل کی گہرائیوں سے پسند کرتے ہیں لیکن سرِدست ہم اپنے اندر قبول اسلام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔ میں نے بھی زیادہ اصرار کرنے کے بجائے یہی مناسب سمجھا کہ ان کے حق میں اللہ سے دعا کرتا رہوں اور اس دن کا انتظار کروں جب اللہ کے فضل سے ان کے دل میں اسلام کے لیے شیفتگی خود بہ خود تڑپ میں تبدیل ہو جائے۔ وہ کسی خارجی دبائو کے بجائے خود اپنے داخلی دبائو سے حلقۂ بگوش اسلام ہو جائیں۔ اللہ نے چاہا تو وہ دن دور نہیںہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات صبح دس بجے ان کی رہائش گاہ پر جو مسجد الحرام سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہے‘ شروع ہوئی تھی اور اب مغرب کی اذان کو صرف آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ اس دوران میں ہماری گفتگو تقریباً تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ صرف ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھنے کے لیے اٹھے۔ دوپہر کے کھانے اور چائے کے دوران بھی گفتگو ہوتی رہی اور اب جب میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہماری اس گفتگو کو شروع ہوئے سات گھنٹے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دل چسپ باتوں نے وقت کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ میں نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے آخری سوال پوچھا:
’’کیا آپ ملتِ اسلامیہ کے نام کوئی پیغام دیں گے؟‘‘
’’ملتِ اسلامیہ کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ خیرالامت کی حیثیت سے وہ دنیا میں نوعِ انسانی کی قیادت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس کا کام دوسری قوموں کے پیچھے چلنا نہیں‘ ان کی رہنمائی کرنا ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ خدا سے پھرے ہوئے انسانوں کو اسلام کے زندگی بخش نظام کی طرف دعوت دے اور انہی تباہی اور بربادی سے ہمکنار ہونے سے بچائے۔ اس نے ایسا نہ کیا تو وہ خود بھی تباہ ہوگی اور باقی نوع انسانی کی تباہی کا وبال بھی اسی کے سر ہوگا۔ اس سلسلے میں تحریک اسلامی کے کارکنوں پر شدید ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کو دین کی دعوت یعنی فریضہ اقامتِ دین سے روشناس اور وابستہ کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں وقف کردیں تاکہ صحیح اسلامی نظام کا قیام عمل میں آسکے اور ملتِ اسلامیہ ایک بار پھر خیر امت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو کر نوع انسانی کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال سکے۔ یہ کام بلاشبہ جان و مال کی غیر معمولی قربانیوں کا طلب گار ہے لیکن اگر ہم اسلامی انقلاب برپا کرنے کے سلسلے میں واقعی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو ہمیں جان و مال کی یہ قربانیاں بہرحال دینی پڑیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے دنیا کے کسی ایک خطے میں بھی اسلامی نظامِ حیات کو عملاً قائم کر لیا تو وہ دن دور نہیں جب خدا سے پھری ہوئی وہ قومیں جو آج اپنے خود ساختہ لادینی نظام ہائے زندگی کے ہاتھوں تباہی کے کنارے پر کھڑی ہیں‘ اسلامی نظامِ زندگی کی برکتوں کو دیکھ کر اسلام کے دامنِ عاطفت میں آجائیںگی۔‘‘
انٹرویو مکمل ہو چکا تھا‘ میں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا‘ ان سے اجازت لی اور حرم کی جانب روانہ ہو گیا کہ مغرب کی اذان میں صرف چند منٹ باقی تھے۔ حرم کی طرف چلتے ہوئے میں نے سوچا اسلام نہ صرف یہ کہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے بلکہ یہ ایک زندگی بخش نظام بھی ہے اور اگر اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر قرنِ اوّل میں عرب کے بدوئوں میں ابوبکرؓ اور عمرؓ جیسے انسان پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کے اثر سے آج اس گئے گزرے دور میں بھی ایک ہندو نوجوان حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد ڈاکٹر ضیا الرحمن بن سکتا ہے۔

حصہ