سلام میری پیاری استاد

289

یہ برسوں نہیں بلکہ اب تو دہائیوں پرانی بات ہوچکی مگر اس نئے دور میں بھی بہت نئی ہے اور بہت روشن، بہت تازہ۔ کالج کا دور، خصوصاً بالکل ابتدائی دور گولڈن پیریڈ ہوتا ہے۔ اسکول کی پابند زندگی کی سختی خاصی کم ہوجاتی ہے۔ اس میں سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ طالبِ علم کس مقصد کے لیے یہاں آیا ہے؟ تفریح کے لیے یا حصولِ علم کی خاطر؟ آپ نے دس برسوں میں جو تعلیم و تربیت حاصل کی ہے، اُس میں خود اپنے قواعد وضوابط کا تعین کیسے کرسکتے ہیں، کس سے بچنا اور کس کو اپنانا ہے… بہت حد تک یہ تمیز آپ نے علم کے ذریعے سیکھی۔ گویا چھوٹا سا اختیار آپ کے حصے میں آجاتا ہے۔ یہاں بھی نیت کا صاف ہونا بے نتیجہ نہیں رہتا۔ میرا تجربہ تو کم ازکم یہی کہتا ہے پورے یقین کے ساتھ۔ بہرحال یہ میرا اپنی اردو کی معزز استاد سے پہلا تعارف تھا۔ سرسری سلیبس کا ذکر، کچھ لازمی روایتی باتیں جو تعارف کا حصہ ہوتی ہیں، ہوئیں۔ نوعمری کے اعتراضات سے اٹے سوالات… سب کچھ جیسے وہ چہروں سے پڑھ چکی تھیں۔ ڈسپلن کی سختی مگر عطا کا مربیانہ اور دوستانہ انداز۔ شے کی حقیقت بتانے پہ زور دینا۔ خدا، محبت، زندگی، ذات اور کائنات کے بارے میں مختصراً بتاتے ہوئے وہ بہت باوقار اور بہت پیاری لگیں۔
آگہی میں ایک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
وہ خدا ایک ہی ہے، اس بڑی سی کائنات کو بنانے والا، چلانے والا۔ خدا بہت اپنا، بہت حسین اور بڑا آرٹسٹ ہے جس نے محبت سے سب بنایا، محبت پیدا کی۔ ابھی ہم نے اس کے بارے میں والدین کی باتیں اسلامیات کے حوالے سے جانی تھیں۔ انہوں نے محبت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جیسے بہت کچھ نیا بتایا۔ اسرار کے پردے ہٹنے لگے، جستجو بڑھنے لگی۔ حسن خدا، محبت خدا، خوشی کا سرچشمہ اس سے تعلق، ہر تعلق کا حوالہ وہی، ستّر ہزار پردوں میں ایک محبوبِ برحق۔ جیسے حرف حرف روشنی وہ ذہن و دل میں اتار رہی ہوں۔ ایسی روشنی جو تاحیات آپ کے اندر اَن مٹ نقوش بنادے۔ فکر، شعور اور یقین کی سچی راہیں کھول دے، مگر بہت جمالیاتی انداز میں۔
جانے کب پیریڈ ختم ہوا۔ وہ ’’ابھی آغاز ہے‘‘ کہہ کر چلی گئیں اور ہم میں سے اکثر کو باقی آئندہ کا تڑپتا ہوا تجسس رہا۔ بہت انوکھا، بڑا دل چسپ اور خاصا اچھوتا انداز سب ہی نے محسوس کیا ایک تعلق کے ساتھ۔ دوسرے دن ہم ان کی آمد کے بے چینی سے منتظر تھے۔ ’’کتنی اچھی ٹیچر ہیں‘‘،یہ اکثر کی رائے تھی اُن کے بارے میں۔ مگر آج کچھ سوالیہ نشان کے طور پر غیر حاضر تھیں۔ ہم میں سے اکثر ان کی دوری پر اداس تھے۔ میرے اندر شدید انتظار کے بعد عجیب کوفت کی کیفیت تھی۔ میں خود سے سوال کررہی تھی خالی پیریڈ میں تو کتنا مزا آتا ہے، مگر یہ کیا؟ ایک نامعلوم سا ہجر۔ تب میں نے محسوس کیا وہ کسی محبت، کسی تعلق کا آغاز کرگئی تھیں۔ پھر اس کے بعد روز جیسے کچھ آشکار ہوتا گیا اندر سے باہر تک۔ خدا ہے، وہ ایک ہے، لاالٰہ کہہ کر سب کا انکار اور الا اللہ کہہ کر وہی وہ ہے تسلیم کرلو، کرتے جائو۔
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
کائنات کی بِنا عشق۔ ایمان کی بنیاد عشق…جھوٹ کا انکار عشق کے بنا نہیں ہے۔ میں محبت پہ بات کررہی ہوں، محبت سے سننا…
’’مس! بس خدا والی محبت پہ بات کریں۔‘‘ایک طرف سے آواز آئی۔
’’نہیں مس وہ والی محبت…‘‘ دوسری طرف کچھ فطری اشتیاق بول پڑا۔ کچھ آزاد ماحول کی لڑکیاں ہنسنے لگیں۔
’’براہِ مہربانی محبت اور عشق کے موضوع پہ مت ہنسیں۔ آپ گھٹیا فلموں اور لچر گانوں پہ سنجیدہ ہوتی ہیں اور آپ کی درست راہنمائی استاد کرے تو مذاق لگ رہا ہے! سنجیدہ ہوکر بہ غور سنیے، ورنہ کلاس سے باہر چلی جائیں‘‘۔ وہ غصے میں آگئیں، اور عشق یہ والا، وہ والا کیا ہے! دریائوں کے دھارے اس ایک سمندر میں گرتے ہیں۔ عشق کی دو اقسام ہیں: ایک حقیقی، دوسرا مجازی‘ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا نہیں۔ اگر کوئی محبت، کوئی تعلق محبوبِ برحق کے بغیر نظر آئے تو جھوٹ ہے، فلرٹ ہے، جعل سازی ہے، ہوس ہے… اس کا نام‘‘۔ وہ بتا رہی تھیں۔ نقش بن رہے تھے۔ نوعمری کے نقش، جو تاحیات رہتے ہیں۔
’’بیٹا میں نے تمہارے سوالات چہروں سے پڑھ لیے ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے بلیک بورڈ پہ ایک دائرہ بنایا، بالکل درمیان میں نکتۂ ارتکاز (سینٹرل پوائنٹ) ’’یہ ہے عشقِ حقیقی، بس وہ مجازی عشق جو دائرے کے اندر سے اس سے آکے جڑ جائے اصل محبت ہے۔‘‘
’’یہ کیا ہے…؟‘‘ ہم سب بہ غور دل چسپی سے سمجھ رہے تھے۔
’’خدا پردوں میں ہے۔ سارا حسن و جمال، سارا جلال جو کائنات سے انسانوں تک میں ہے، اُس کے جلال و جمال کا معمولی عکس ہے۔
تھا مستعار حسن کے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس کا ذرہ ظہور تھا
اسے ڈھونڈو، اس سے ملو، اس سے بات کرو، جواب آکے رہے گا۔ بے فائدہ کچھ نہیں ہوگا، ہر تعلق کو اس تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھنا، نفس کو کنٹرول کرنے کے لیے آرزوئوں کو کم رکھنا۔ پھر اعلیٰ مقصد کی آرزو رکھنا۔ یہ بقا کے راستے ہیں، وفا کے سلسلے ہیں۔‘‘
پندرہ سے سولہ سترہ سال کی لڑکیاں اب روز شوق سے اردو کی کلاس اٹینڈ کرتی تھیں۔ فلمی محبت پہ بھی بات کی کہ ناخالص مال بھی مارکیٹ میں آتا ہے، مگر اخلاق، عزت اور مقصدیت محبت کے تقاضے ہیں۔ کھل کر بات کرنے لگیں۔ جو مائوں سے پوچھتے جھجھک آتی تھی کچھ لڑکیاں وہ بھی سوال کرنے لگیں۔ آہستہ آہستہ وہ مطمئن کرتی جاتیں، ذہن کھلتے جاتے۔
’’میں ایک سال کے لیے نہیں، تاحیات کے لیے پڑھا رہی ہوں۔‘‘خلوص کا کیسا اظہار تھا! وہ کہا کرتی تھیں: آج میں اس قرض کو اتار رہی ہوں۔
اب تک یاد ہے ایک روز کلاس میں کچھ لڑکیاں آئی بروز بناکر، میک اَپ کے ساتھ آئیں۔ کچھ عمر بھی دیوانی ہوتی ہے، کچھ یہ چلن تب بھی تھا… تو ٹوکتے ہوئے کہنے لگیں ’’حصولِ علم کے دوران یہ چیزیں اچھی نہیں لگتیں، دل کہیں اور چلا جاتا ہے۔‘‘ پھر جیسے کچھ سمجھ کر اپنی طرف اشارہ کرکے بولیں ’’سنو اِدھر نہ دیکھو، اِدھر تو شام سنولارہی ہے، اس لیے چراغ جلایا ہے۔ تم لوگوں کا تو سویرا ہے، سورج کو کیوں چراغ دکھا رہی ہو… یہ عمر ہی چہروں سے اندر تک اجالے کی ہے، پھر علم کی جستجو کا اجالا۔‘‘ کیا گائیڈ لائن تھی، کیا راہنمائی… سب جیسے سمجھ رہی تھیں۔
میں نے کچھ لکھنا شروع کیا تو وہ راہنمائی کرتیں، حوصلہ بڑھاتیں کہ لکھتی رہو، آگے جائو گی۔ پھر مجبوریوں نے ایک لمبے عرصے قلم چھوڑنے پہ مجبور کیا، پھر دوبارہ قلم و قرطاس سے ملن ہوا تو بہت یاد آئیں کہ اختلاف کو احترام کے ساتھ رکھنا نفرتیں مٹاتا ہے۔ سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ شوق کی قربانی دینی پڑتی ہے صرف خدا کی خاطر، یہ بھی محبتوں کا سلسلہ ہے۔ آج نفرتوں سے اَٹے وقت میں محبت کے نام پہ ہوس کے ہولناک مناظر کی ظلمتوں میں، جعل سازی کے فریب دیتے کرپٹ عہد میں محبت کا نقش ذہن و دل میں بٹھانے والی میری اردو کی استاد بہت یاد آئیں۔ سلام میری پیاری استادِ محترم، سلام۔

حصہ