جوڈھونڈے گا وہ پائے گا

282

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تجربہ کار عمر رسیدہ بزرگ اپنے بیٹے کے ہمراہ کسی دوسرے گاؤں میں کام کی غرض سے جانے کے لیے نکلا۔ راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا دونوں باپ بیٹے نے شام ڈھلنے سے پہلے جنگل تو عبور کر لیا مگر ابھی بھی گاؤں کافی دور تھا اور درمیان میں ایک چھوٹا سا پہاڑی سلسلہ بھی حائل تھا۔ اوپر سے ستم یہ کہ دونوں باپ بیٹا تھکن سے بھی چور ہو چکے تھے۔ یہی سوچتے سوچتے کہ اب کیا کرنا چاہیے سفر جاری رکھا جائے جو کہ بظاہر ناممکن لگ رہا تھا یا پھر کہیں قیام کیا جائے ان دونوں نے سفر جاری رکھا۔ سوچوں میں غرق باپ بیٹا کچھ ہی دور چلے ہوں گے کہ حد نگاہ کے اختتام پر انہیں ایک گھر کی موجودگی کا شائبہ سا ہوا۔ گھر کی موجودگی کے اس احساس نے جیسے ان دونوں میں کوئی برق سی بھر دی اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ جب قریب پہنچے تو ان دونوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ واقعی اس وسیع و عریض بظاہر ویران میدان میں ایک کچا گھر واقع تھا جس کے باہر احاطے میں ایک فربہ بھینس بھی بندھی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں باپ بیٹا اردگرد کے ماحول سے مانوس ہو کر کوئی اگلا قدم اٹھاتے اندر سے صاحبِ خانہ باہر نکلے اور مہمانوں کو خوش ہو کر خوش آمدید کہا۔ پھر بولے کہ لگتا ہے آپ تھک گئے ہیں اندر آئیں تھوڑا آرام کریں کھانا کھائیں ویسے بھی شام کا اندھیرا پھیلنے کو ہے تو اس وقت آپ لوگوں کا سفر کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ بات میں وزن تھا لہٰذا دونوں باپ بیٹا چپ چاپ اندر چلے گئے دونوں کے لیے وسیع و عریض صحن میں چارپائیاں لگا دی گئیں۔ اندھیرا مزید گہرا ہو رہا تھا اور ٹھنڈی مگر فرحت بخش ہوا بھی چل رہی تھی۔ صاحبِ خانہ نے بھینس کا تازہ دودھ اور تندور کی گرم گرم روٹیاں جن پر بھینس کے دودھ کا نرم، سفید، لچیلا اور پگھلتا ہوا مکھن رکھا تھا کھانے کے لیے پیش کیں۔ سفر سے تھکے ہارے باپ بیٹا کے لئے یہ طعام کسی من و سلویٰ سے کم نہ تھا۔ بھوک کی شدت تھکن اور گاؤں کے دیسی ماحول کے نشے کی وجہ سے دونوں ندیدوں کی طرح روٹی پر ٹوٹ پڑے اور سارا دودھ مکھن چٹ کرنے کے بعد ڈکار لے کر اپنی اپنی چارپائی پر چت ہو کر گر پڑے اور چند ثانیوں کے بعد خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگے۔ اور ان کے سوتے ہی میزبان اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔

رات کے پچھلے پہر بزرگ باپ کی آنکھ کھلی اندھیرا کافی پھیل چکا تھا مگر اب اس کی تھکاوٹ ختم ہوچکی تھی۔ بزرگ کی آنکھیں جب اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو وہ اٹھا پانی کا نلکا ڈھونڈ کر وضو کیا اور اپنی چادر کو زمین پر بچھا کر پہلے رات کی نماز ادا کی پھر جب اسے احساس ہوا کہ اب تہجد کا وقت ہوا چاہتا ہے تو اپنے معمول کے مطابق خدا کے حضور کھڑا ہو کر تنہائی میں اپنے رب سے باتیں کرنے لگا۔ رات کا سیاہ لبادہ صبح کے ملگجے اندھیرے میں بدلنے لگا اور بزرگ اپنے معمولات خاموشی سے ادا کرتا رہا۔ پھر فجر کے بعد افق پر پو پھٹنے کا منظر دیکھنے کے لیے باہر کی طرف نکل آیا۔ دور دور تک نہ گھر نہ کسی کا نام و نشان وہ ایک چھوٹے سے ٹیلے پر بیٹھ کر مٹی ہاتھ میں اٹھا کر دیکھنے لگا اور پھر مٹی کے اس ڈھیلے کو انگلیوں سے مسلتے ہی وہ سمجھ گیا کہ یہ علاقہ اور اس کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ اس بات کی درستگی کو جانچنے کے لیے اس نے مٹی کو ناک کے قریب کیا تو اسے اپنی سوچ پر یقین ہو چلا کہ یہ نہایت ہی بارآور اور قیمتی مٹی ہے جو خود ہی اپنی کھاد بھی ہے۔ پھر ایک خیال اس کے ذہن میں بجلی کی مانند کوندہ کے سارا علاقہ ویران کیوں ہے اتنی زرخیز مٹی مگر نہ ہریالی نہ ہی کوئی کھیت کھلیان آخر ماجرہ کیا ہے۔ اسی اثناء میں صاحبِ خانہ جست کی ایک بالٹی ہاتھ میں اٹھائے باہر نکلا اور آنکھیں مسلتے ہوئے بھینس کی جانب بڑھنے لگا۔ اور پھر بھینس کو پیار سے سہلاتے ہوئے اس کے دودھ سے بھرے تھنوں کو پانی سے دھونے کے بعد خالی بالٹی کو نیچے رکھ کر دودھ دوہنے لگا۔ اور پھر بھینس کا تازہ سفید، پر نور دودھ بالٹی میں دھار دھار نکل کر اکٹھا ہوتے ہوتے جھاگ اڑانے لگ گیا۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ بڑی سی بالٹی دودھ سے مکمل بھر گئی۔ ابھی یہ کام جاری تھا کہ چند لوگ ہاتھوں میں اپنے اپنے ڈول اٹھائے آن وارد ہوئے اور صاحب خانہ کو پیسے تھما کر دودھ خرید کر واپس چلے گئے۔ یہ مناظر بڑی خاموشی سے دیکھنے کے بعد بزرگ صاحبِ خانہ کے قریب آئے اور آہستگی سے پوچھا کہ ایک بات تو بتائیے کہ آپ کے علاقے میں دور دور تک کوئی گھر نہیں ہے اور میرے مشاہدے کے مطابق زمین جس پر آپ کا گھر ہے بہت ہی زیادہ زرخیز اور بارآور ہے۔ مگر نہ اس پر کھیت ہیں نہ ہی کوئی پیڑ وغیرہ آخر قصہ کیا ہے۔ یہ سوال سننے کے بعد صاحبِ خانہ نے پرسکون لہجے میں ذرا سی لاپرواہی سے کہا کہ بھائی صاحب ہم صرف دو میاں بیوی ہیں اور یہ جو زمین ہے میری ملکیت ہے ہم نے ایک بھینس پال رکھی ہے جو صبح شام دودھ دیتی ہے۔ صبح کا دودھ بیچ دیتے ہیں جو کہ ہمارے گزر بسر کے لیے کافی سرمایا مہیا کر دیتا ہے جب کہ شام کے دودھ سے مکھن لسی اور دودھ جیسی نعمتیں ہمارے کھانے پینے اور زندہ رہنے کے لیے بہت ثابت ہوتی ہیں۔ تو ہم اس زرخیز زمین پر کاشت کر کے کیوں مشقت اٹھائیں کھانا تو دو وقت ہی ہوتا ہے جو کہ اللہ پاک آسانی سے دے رہا ہے۔ بزرگ نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ زمین جو اللہ نے آپ کو دی ہے کئی لوگوں کا خواب ہو گی، جب اس پر پیڑ لگیں گے تو پھل پیدا ہوں گے اور کھیتی اگے گی تو اناج پیدا ہوگا جو ہزاروں لوگوں کے پیٹ بھرے گا اور اللہ بھی خوش ہو گا کہ اس کے دیئے ہوئے میں سے اس کی مخلوق کھا رہی ہے۔ مگر صاحبِ خانہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے واپسی کے لئے قدم بڑھا دئیے۔ اور تھوڑی دیر میں دونوں باپ بیٹا نے بھی ناشتہ کر کے رختِ سفر باندھ لیا۔ جب وہ دونوں تھوڑا آگے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر پہنچے تو بھینس خود رو گھاس اور جڑی بوٹیوں سے اپنا پیٹ بھر رہی تھی۔ بزرگ نے اِدھر اُدھر دیکھا اور بھینس کو دھکا دے کر پہاڑی سے نیچے گرا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بھینس مر گئی۔ یہ سب دیکھ کر بیٹے سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے والد سے پوچھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو وہ گویا ہوئے کہ بعد میں کبھی بتاؤں گا۔ اس واقعے کو کافی عرصہ گزر گیا اور وہ بزرگ علالت کے بعد انتقال فرما گئے۔ رسومات سے فارغ ہو کر بیٹے کے ذہن میں خیال آیا کہ میرا باپ اتنا پرہیزگار اور متقی تھا مگر نہ جانے کیوں اس بھینس کو دھکا دے کر مار دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس واقعہ کی وجہ سے انہیں عذاب میں مبتلا کر دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی بیٹے نے کچھ پیسے ساتھ لیے کہ صاحبِ خانہ کو دے کر معافی مانگ سکے اور گاؤں کی جانب چل پڑا۔ مگر وہاں پہنچ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ ہر طرف لہلہاتی فصلیں اور پھل دار درخت نظر آئے جو پہلے وہاں نہیں ہوتے تھے۔ اور اب وہاں ایک گھر کی بجائے کافی سارے گھر اور بھینسوں کا ایک باڑہ بھی بن چکا تھا۔ وہ حیرت زدہ سا خوف کھاتے ہوئے صاحبِ خانہ کے پاس جاکر بولا کیا آپ نے مجھے پہچانا۔ تو صاحبِ خانہ ذرا سے توقف کے بعد پرجوش ہو کر بولے خوش آمدید صاحبزادے تمہارے والد کہاں ہیں۔ دیکھو یہ سب ان کے کہنے اور سمجھانے کے بعد میں نے شروع کیا اور آج سینکڑوں لوگوں کا روزگار یہاں سے وابستہ ہوگیا ہے۔ جب تم لوگ یہاں سے نکلے تو اسی دن میری بھینس بھی مر گئی اور کچھ روز پریشان رہنے کے بعد میں نے کمر باندھی اور یہ کرشمہ ہوگیا۔ کہاں ہیں تمہارے والد میرے محسن ان کو ساتھ نہیں لائے۔ میں ان سے مل کر ان کے ہاتھ چومنا چاہتا ہوں انہیں یہ سب نظارے دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ ہریالی یہ بہار یہ رونقیں آج اسی لئے نظر آرہی ہیں کہ اس صاحبِ نظر نے اس مٹی کی زرخیزی کو پہچان لیا تھا ورنہ یہ گاوں ویسے ہی اجاڑ اور ویران پڑا رہتا۔ اور وہ بزرگ کا بیٹا سوچنے لگا کہ نئی شروعات، ہریالی اور خوشحالی کے لیے “بھینس مارنی ہی پڑتی ہے” ورنہ ہم توکل اور سادگی کا غلط مطلب اخذ کرکے خدا کی دی گئی نعمتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار ہی نہیں لاتے اور یوں کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ “محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہے” اور ہم محنت و مشقت سے بچنے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں کہ اللہ نے جو دیا ہے بس وہی کافی ہے زیادہ کی لالچ کیا کرنا۔ جبکہ محنت کرکے زیادہ کما کر دوسروں کا بھلا بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ زیادہ کمانا برا نہیں ہے بلکہ غلط ذرائع سے کمانا گناہ ہے۔ خرچ کرنا برا نہیں، ناجائز جگہوں پر خرچ کرنا برا ہے۔ لہٰذا آج یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنی اپنی بھینس کب مار رہے ہیں۔ کب تک اس طرح مجبوریوں کے بے جا بہانے تراش کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔ آخر کب ہم اپنی خداداد صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں نکھاریں گے کہ اپنا اور پورے معاشرے کا بھلا ہو سکے۔
بقول شاعر:
جو عمریں مُفت گنوائے گا
وہ آخر کو پچھتائے گا
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا
تُو کب تک دیر لگائے گا
یہ وقت بھی آخر جائے گا
اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے؟
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے!

حصہ