جان دار تنقید سے شان دار ادب تخلیق ہوتا ہے

304

جسارت میگزین: آج کے تنقید نگاروں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
سعیدالظفر صدیقی: میرے نزدیک تنقید کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہوتا ہے۔ بھارت میں شاعری کے مقابلے میں فکشن پر زیادہ تنقید لکھی جارہی ہے تاہم پاکستان میں ادب کے مختلف حصوں پر تنقیدی کام جاری ہے۔ سرسید احمد خان‘ الطاف حسین حالی‘ ڈپٹی نزیر احمد‘ محمد حسین آزاد اور مہدی افادی ایسے نقاد تھے جنہوں نے تنقید کے میدان میں نہایت دیانت داری سے کام لیا انکے بعد یہ روایات آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کھری اور سچی تنقید نہیں لکھی جارہی صرف تقریباتی تنقید نگاری ہورہی ہے۔ کتابوں کے اجرا کے موقع پر ہونے والی تنقید کا مقصد صرف صاحبِ کتاب کو خوش کرنا ہوتا ہے کوئی مقرر بھی غلطیوںکی نشاندہی نہیں کرتا۔ میںسمجھتا ہوں کہ معیاری ادب کے لیے جان دارتنقید ضروری ہے۔ ایک اچھا تخلیق کار خود ہی اپنے فن پارے کا جائزہ لے کر اپنا احتساب کرتا ہے۔
جسارت میگزین: اپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
سعیدالظفر صدیقی: ادب اور زندگی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ اگر زندگی سے ادب کو خارج کر دیا جائے تو زندگی بے مزا ہو جائے گی۔ شاعری کوئی فکر‘ فلسفہ‘ منطق یا سائنس نہیں ہے بلکہ ایک وجدانی عطیہ ہے۔ شعرائے کرام زندگی کو جتنے قریب سے دیکھتے ہیں دوسرے نہیں دیکھ پاتے۔ شاعر پہ کسی مخصوص نظریے یا مسلک کی چھاپ نہیںہونی چاہیے جانب داری سے صلاحیتیں مجروح ہوتی ہیں اگر آپ جانب دار ہیں تو آپ کے کلام میں آفاقیت نہیں آئے گی۔ شاعری میں نہ تو کچھ جدید ہے نہ قدیم۔ شاعری تو زمان و مکان سے ماورا ہوتی ہے۔ ہر شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے‘ وہ زندگی کے تمام مسائل پر آواز اٹھاتا ہے‘ شاعری کا ایک غیر تحریری نصاب یہ ہے کہ ظلم کے خلاف لوگوں کو آمادہ کیا جائے اور مظلوموں کی حمایت کی جائے‘ شاعری معاشرے کی جمالیاتی قدروں اور انسانی رشتوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بدلتے موسموں کی ہم آہنگی‘ نئے نئے تجربات‘ احساسات‘ میلانات و موضوعات کو پورا کرنا شاعری کا فرض منصبی ہے۔ شاعری ایک کُل وقتی کام ہے اگر آپ شاعری کو پورا وقت دیں گے تو یہ آپ پر مہربان رہے گی۔
جسارت میگزین: آپ کا ادبی گروہ بندیوں کے بارے میں کیا خیال ہے نیز آپ کس دھڑے سے وابستہ ہیں؟
سعیدالظفر صدیقی: ادب میں گروہ بندی کا سلسلہ بہت پرانا ہے‘ غالبؔ اور میرؔ کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ موجود تھا اگر ہم موجودہ زمانے کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے قلم کاروں نے اور حکومتی اداروں نے ستائشِ باہمی کی بنیاد پر گروہ بندیاں کر رکھی ہیں۔ آج کل لوگ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو‘‘ کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ گروہ بندی سے نقصان زیادہ ہو رہا ہے فائدہ بہت کم۔ اگرہم نے جینوئن قلم کاروں کو نظر انداز کیا تو ہمارا معاشرہ توبہ زوال ہوگا۔ آیئے ہم سب عہد کریں کہ ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اردو زبان و ادب کی خدمت کریں گے۔
جسارت میگزین: آپ اردو شعری منظر نامے کے مستقبل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سعیدالظفر صدیقی: بہت سے اربابِ عقل و دانش یہ کہتے ہیں اردو ادب روبہ زوال ہے‘ سرور جاوید (مرحوم) نے اس نظریے کو بہت فروغ دیا ان کا سب سے پسندیدہ موضوع بھی شاید یہی تھا لیکن میری نظر میں ایسی کوئی بات نہیں۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں معیاری ادب تخلیق ہو رہا ہے لیکن منظر عام پر نہیں آرہا۔ اب جو صورت حال سامنے آرہی ہے اس کے تناظر میں ان شاء اللہ خود ساختہ ادبی قبیلوںکی دیواریں مسمار ہوں گی اور معیاری ادب سامنے آئے گا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک اردو زبان کی احیا اور بقا کا مسئلہ درپیش ہے اس لیے شاعری اتنی مضبوط نہیں ہو رہی جتنی تقسیم ہند سے پہلے تھی لیکن زبان کی زندگی کے لیے مشاعرے بہت اہم ہیں۔ پاکستان کے علاوہ برطانیہ‘ کینیڈا‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ ترکی‘ بھارت اور عرب امارات میں بھی اردو ادب ترقی کر رہا ہے۔ اردو کا شعری منظر نامہ بہت روشن ہے۔
جسارت میگزین: الیکٹرانک میڈیا نے ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
سعیدالظفر صدیقی: الیکٹرانک میڈیا کی افادیت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ مغربی ممالک میں ٹی وی کے سینکڑوں چینل کام کر رہے ہیں‘ وہ چوبیس گھنٹے لوگوں کو تفریح کا سامان مہیا کر رہے ہیں لیکن مغربی ممالک میں کتابوں کی اشاعت اور طلب میں کوئی کمی نہیں آئی وہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں بک رہی ہیں ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا نے اردو ادب کو متاثر کیا ہے لوگوں نے کتابیں خریدنی کم کر دی ہیں‘ ہم الیکٹرانک میڈیا سے بہت زیادہ جڑے ہوئے ہیں‘ آپ کو فیس بک‘ انٹرنیٹ پر بے شمار مضامین نظر آتے ہیں جن سے آپ مستفیض ہو سکتے ہیں۔ اس وقت بہت سے ٹی وی چینل پر اردو زبان کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا تلفظ کے غلطیوں سے ہمارے بچوں کے اذہان متاثر ہو رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں چمک دمک بہت زیادہ ہے اس لیے لوگ اس طرف زیادہ راغب ہو رہے ہیں۔ اردو ادب کی طرف ہماری نئی نسل بہت کم راغب ہے۔
جسارت میگزین: آپ نے انسائیکلوپیڈیا موضوعات پر قرآن ترتیب دیا اس طرف آپ کیسے آئے؟
سعیدالظفر صدیقی: اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی روشنی میں یہ کام ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت دی میں نے یہ کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب سات جلدوں پر مشتمل ہے اور 1,800 سے زیادہ موضوعات کے متعلق آیاتِ قرآنی کا ایک جامع انتخاب ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری اور انگریزی ترجمہ ڈاکٹر محمد مارِما ڈیوک پکتھال نے تحریر کیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہدایات کا ماخذ قرآنِ مجید ہے جو کہ عربی زبان میں ہے کسی خصوصی موضوع پر قرآنی ہدایات کے فوری حصول کے لیے انڈیکس کا ہونا ضرور ہے بس یہ خیال آتے ہی میں نے اس انسائیکلوپیڈیا پر کام شروع کیا اور اللہ کی مہربانی سے یہ کتاب مارکیٹ میں آئی میں سمجھتا ہوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اس میں جو بات بھی بیان کی گئی ہے وہ خالص حقیقت ہے۔ قرآن کریم انسانوں سے متعلق کائنات اور اس کی مظاہر پر گزشتہ چودہ صدیوں سے افشائے راز کرتا چلا آرہا ہے قرآن میں بیان کردہ حقائق سائنس کی تصدیق کے محتاج نہیں بلکہ قران سے سائنس نے رہنمائی حاصل کی ہے۔ قرآن میں مختلف مضامین مثلاً معاشیات‘ علم نباتات و حیوانات‘ موسمیات و ارضیات وغیرہ کے متعلق بلیغ علمی اشارے ملتے ہیں جو مختصر ہونے کے باوجو اتنے جامع ہیں کہ بڑی سی بڑی سائنس کی کتابوں پر حاوی ہیں۔ کائنات کے جو بھی راز انسانوں نے صدیوں کی محنت کے بعد افشا کیے قرآن میں ان کی طرف اشارات موجود ہیں۔ میں نے انسائیکلو پیڈیا میں قرآن فہمی کو بہت آسان انداز میں لکھا ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ سے رجوع کریں۔ 7,000 صفحات پر محیط اس انسائیکلو پیڈیا میں موضوعات کی اردو فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے اور انگریزی فہرست انگریزی حروف کے تسلسل میں بتائی گئی ہے۔ ہر صفحے کی پیشانی پر اردو اور انگریزی زبانوں میں حوالہ جات درج ہیں۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 2016ء میں شائع ہوا۔
جسارت میگزین: آپ نے غزل کو وسیلۂ اظہار کیوں بنایا جب کہ آپ نظم کے بھی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
سعیدالظفر صدیقی: میں نے تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن میری پسندیدہ صنفِ سخن غزل ہے جس کا ہر شعر‘ ایک نظم ہے میں نے نثری نظمیں بھی لکھی ہیں‘معریٰ نظمیں بھی کہی ہیں لیکن میری شاعری کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے‘ غزل کو ذریعۂ اظہار بنانے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ نظم کے مقابلے میں آپ اپنا مافی الضمیر غزل میں باآسانی بیان کر سکتے ہیں۔ نظم ایک موضوع کی پابند ہوتی ہے سارے مصرعے ایک ہی موضوع کی نشان دہی کرتے ہیں جب کہ غزل میں آپ دو حصوں میں بڑے سے بڑا موضوع بیان کر سکتے ہیں۔ آپ ایک ہی غزل میں مختلف موضوعات پر اشعار کہہ سکتے ہیں۔ اب کچھ لوگوں نے آزاد غزل کے نام سے غزل کا انداز تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے جو کامیاب نہیں ہوئی۔ غزل کے فارم میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا وجہ ہے یہ حکومتی اداروں میں نافذ العمل نہیں ہورہی؟
سعیدالظفر صدیقی: زندگی کے تمام شعبوں پر اردو کے مقابلے میں انگریزی حاوی ہے اس صورت حال میں اردو کیسے پنپ سکتی ہے‘ آئندہ نسلیں اردو سے دور ہو جائیں گی کیوں کہ ہم اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوںمیں پڑھا رہے ہیں‘ ہم اردو کے اندر انگلش کے الفاظ شامل کرکے بولتے ہیں اس ’’ٹریڈ‘‘ سے بھی نقصان ہو رہا ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان اور پاکستان میں انگریزی کی جڑیں اس قدر مضبوط کر دی ہیں کہ ہم اردو کو سرکاری زبان نہیں بنا پا رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی بین الاقوامی اور ترقی یافتہ زبان ہے لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ ہم اردو کو ترقی کے مواقع فراہم کریں گے تو وہ ترقی کرے گی اس کے ساتھ ساتھ ہماری علاقائی زبانیں بھی دبی ہوئی ہیں انہیں بھی پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے ہماری علاقائی اور اردو زبان میں اشتراک ہے کیوں کہ بنیادی ڈھانچہ ایک ہے بس الفاظ کی شکلیں بدلی ہوئی ہیں اردو رابطے کی زبان ہے اردو میں ساری آوازیں موجود ہیں اردو ترقی کر سکتی ہے بشرطیکہ بیورو کریسی اس کی راہ میں مشکلات نہ ڈالے اردو کا کسی بھی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اردو ہماری سرکاری زبان ہے‘ عدالتی فیصلے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ نفاذ اردو کی لیے بہت سی تنظیمیں میدانِ عمل میں موجود ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی اعانت کریں‘ ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔

غزل… سعید الظفر صدیقی

واسطہ صبحِ طرب سے نہ غرض شام کے ساتھ
اپنی بنتی ہی نہیں گردشِ ایام کے ساتھ
دیکھ لو ہم بھی تو زندہ ہیں اسی بستی میں
ایک چہرے کو سنبھالے ہوئے اک نام کے ساتھ
میرے ساقی کی طرح داری تو دیکھے کوئی
تشنگی باندھ دیا کرتا ہے ہر جام کے ساتھ
چار سو کیا کوئی صحرا و بیاباںکم ہیں
کب تلک بیٹھے کوئی گھر کے در و بام کے ساتھ
دیکھ لو معرکہ عشق بھی سر کر ہی لیا
اب گزرتی ہے ہماری بڑے آرام کے ساتھ

حصہ