میڈیکل طلبہ کی سوشل میڈیا پر گونج

355

سوشل میڈیا کے سہارے چلنے والی تحریک انصاف کی موجودہ حکومت روز اول سے ہی شدید مسائل کی زد میں رہی ہے۔ یہ مسائل کسی حکومت کے لیے کوئی انہونی بات نہیں ہوتی لیکن ان معاملات کو مسلسل غلط طریقے سے حل کرنے کی کوشش نے حالات مزید بگاڑ دیے ہیں۔اس ماہ نیو زی لینڈ کرکٹ ٹیم کا پاکستان سے واپس جانا پھر دیگر ٹیموں کا دورے سے انکار خاصی شرمندگی اور سبکی کا باعث رہا ، جس میں ایک بار پھر وزیر اعظم کی سابقہ تقاریر کے کلپس وائرل کر کے درست موقف کی یادیں تازہ کی گئیں۔اس کے علاوہ ایک اوراہم معاملہ ملک میں مجموعی طور پر شعبہ تعلیم کا رہا۔کورونا لاک ڈاون کے دوران حکومت نے طلبہ کو 2020میں بغیر امتحان پاس کیا۔ سال بھر تعلیمی ادارے بند رہے اور آن لائن ایجوکیشن کے نام پر بدترین ڈرامہ جاری رہا۔اگلے سال 2021میں حکومت نے امتحان لینے کافیصلہ کیا، جس پر احتجاج شروع ہو گیا کہ جب پڑھایا نہیں تو امتحان کیسا؟بہرحال جیسے تیسے امتحانات بھی ہو گئے ، نتائج بھی آگئے۔ بارہویں جماعت پاس کرنے والوں میں سے ڈاکٹری کی ڈگری لینے والوں کے لیے اب کھڑا تھا MDCAT کا ٹیسٹ، مطلب میڈیکل ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ۔ ٹیسٹ کا انعقاد ہوا مگر اس میں اتنی زیادہ کرپشن، بد انتظامی سامنے آئی کہ ملک بھر کے طلبہ و طالبات احتجاج پر مجبور ہوگئے۔ٹیسٹ کا کنٹریکٹ مشکوک ہو کر سامنے آیا اور بات نیب تک جا پہنچی۔ڈان کی رپورٹ کے مطابق کوئی 11.5کروڑ روپے میں جدید قسم کا آن لائن ٹیسٹ کرانے کا ٹھیکا SOAR نامی کمپنی کو دیا گیا۔ٹیسٹ میں طلبہ کا سب سے بڑا موقف ٹیسٹ کے مواد کےکورس سے باہر ہونے کا تھا ، اس حدتک کہ انٹر بورڈ میں ٹاپ کرنے والےبھی ناکام ہو گئے۔کئی ٹیسٹ مراکز پر انٹرنیٹ نہ چلنے اور سافٹ ویئر کے درست کام نہ کرنے کی شکایت بھی ریکارڈ کرائی۔پی ایم سی کے مطابق تمام اعتراضات کا جائزہ لیا گیا اور سب کے سب بے بنیاد اور دستیاب سیٹوں سے زیادہ طلبہ نے امتحان پاس کر لیا ہے اور امتحان ایک وائرلیس لائن ، لوکل ایریا نیٹ ورک پر لیا گیا تھا جس کا انٹرنیٹ سے تعلق جوڑنا درست نہیں۔اس وقت پورے ملک میں پاکستان میڈیکل کمیشن کے منعقدہ ٹیسٹ کے نتائج میں فیل ہوجانے والے طلبہ و طالبات کا احتجاج سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم اور عملی طور پر اسلام آباد، کوئٹہ سے لیکر کراچی تک مستقل احتجاج جاری ہے۔StudentsMarchToPMHouse،ShameOnISBPolice، JamiatDharnaAtPMC، MdcatStudentsAtDChowkہفتے بھر یہ ٹرینڈ سوشل میڈیاپر جاری رہے۔ اس دوران حکومت کی جانب سے طلبہ کے احتجاج پر تشدد نے معاملے کو اور بھڑکا دیا، اسلامی جمعیت طلبہ نے معاملے کو اٹھایا اور ملک بھر سے اسلام آباد میں پی ایم سی دفتر پراحتجاج کی کال دے دی۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس معاملے کو سینیٹ میں اٹھاتے ہوئے کہاکہ پی ایم سی کے ٹیسٹ میں بے ضابطگی اور دوبارہ انعقاد کے مطالبہ پرطلبہ کے احتجاج کو تشدد سے ختم کرانا درست نہیں ۔
سوشل میڈیا پر اس ہفتہ سمندری طوفان ، گلاب کی بھی خوب دھو م رہی، بھارت میں سمندر سے جڑی ریاستوں میں تو خاصی تباہی مچائی ان سمندری طوفانوں نے ، پاکستان میں بھی یہ چھوتا ہوا گزرا۔
اسی طرح تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے لیے مسلسل دو دن تک 12لاکھ ٹوئیٹ کے ساتھ ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں چھایا رہا۔افغانستان میں امریکی شکست کے بعد امریکا میں قید پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اس ہفتہ ملین اسمایل نامی این جی او نے سوشل میڈیا پر #BringDrAafiaBackکے ہیش ٹیگ کے ساتھآواز بلند کی ۔millionsmilefoundationکو بنیادی طور پر ذیشان افضل و انکی اہلیہ ام محمد چلاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پرمختلف عنوانات سے خاصے مقبول ،متحرک ، اسلامی مگر “کارپوریٹ جوڑے “کے طور پر جانے جاتے ہیں ، مگر افسوس کہ دیگر کی طرح یہ بھی اپنی کم علمی کی وجہ سے اسلامی لبادے میں تمام تر بنیادی مغربی ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے سیکولر اقدار کے فروغ میں کوشاں ہیں۔
اسی تناظر میں اسی ہفتہ ایک اہم نظریاتی ہیش ٹیگ ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں ظاہر ہوا،جس کا عنوان تھا ،”فحاشی کی جڑ لبرل ازم”۔ اس معاملے کو سوشل میڈیا پر اس ہیش ٹیگ سے یوں سمجھایا گیا کہ مغربی تہذیب دراصل شیطانی تہذیب ہے اور لبرل ازم اسکا جدیدچہرہ ہے ،قرآن مجید میں اللہ نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ شیطان کے رستے پر چلنے والوں کو وہ فحش و منکر کا حکم دیتا ہے۔یہ اس کا ہتھیار ہےگویا یہ مغرب کا بھی ہتھیار ہے اور لبرل ازم کی بنیاد بھی ۔اس حوالے سے شاہنواز فاروقی کے الفاظ شیئر کیے گئے کہ “مغرب کی 1000سالہ اسلام دشمنی کے باوجود مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلامی اور مغربی تہذیب کے تصادم کی نوعیت، معنویت اور اس کی علامتوں کا شعور نہیں رکھتی۔ مغربی تہذیب ہمارے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جدید مغربی تہذیب کو بدترین ناموں سے پکارا ہے، جن میںایک جگہ اس کو ’باطل‘ کہا ہے ، ایک مقام پر اسکو’جاہلیتِ خالصہ‘ قرار دیاپھرایک اور تحریر میں مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو ’تخم خبیث‘ اور ’شجر خبیث‘ قرار دیا” ۔اس میں کیا شک ہے کہ پاکستانی معاشرے میں جدیدیت ، لبل ازم، سیکولر ازم اور مغربیت کی تعریف و تشریح کرنے ، اس سے خبردار کرنے کا اولین کام مولانا مودودیؒ نے اپنی تمام زندگی کیا۔ وہ فکری و عملی سطح پر باطل، جاہلیتِ خالصہ، تخم خبیث اور شجر خبیث کے خلاف فکری و عملی دائروں میں مزاحمت کرتے رہے۔اس ہیش ٹیگ کے ذیل میں اس وقت کے پاکستانی ڈراموں میں تیزی سے اسلامی اقدار کو مسخ کرنے کے اقدامات کی جانب متوجہ کیا گیا۔میڈیا (اسکرین )برین واشنگ کرتا ہے اس میں کیا شک وشبہ باقی رہ گیا ہے۔ اسکرین سے جڑے رہنے پر دنیا بھر کے ماہرین دماغ نے یہ بات تحقیق سے ثابت کی ہے کہ یہ دماغ کے لیے زہر ہے۔ اسمارٹ فون و انٹرنیٹ کے اثرات نے جو تباہی مچائی ہے، وہ تو ایٹم بم سے بھی خطرناک ثابت ہو چکی ہے ۔ایک ڈرامہ کا کلپ موضوع بنا ہوا تھا جس میں دیور بھابھی آپس میں خاصے قربت میں کسی خوشی کا اظہا ر کر رہے ہیں اور لڑکی کا سسر اپنی بہو کو اس عمل پر سختی سے ٹوکتا ہے تو سسر کا ہی مذاق بنا دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں ایک اور ڈرامہ کے کلپ میں رضائی بہن بھائی کے درمیان رشتہ قائم ہو نےکو موضوع بنایا گیا ۔ایسے اور کئی کلپس شیئر ہوکر یہی بتا رہے تھے کہ لبرل ازم کا بنیادی نعرہ ہی یہی ہے کہ خواہش نفس کی تکمیل کے لیے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ،کوئی رشتہ محرم ، نا محرم نہیں ہوتا ۔اس حرام کاری کو صرف مسلم معاشروں میں سوچے سمجھے اسکرپٹ کے ساتھ ڈالا جاتا ہے ۔ لکھنے والے کو بنانے والے کو سب پتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی کونسی حدود ہیں اور انکو بار بار ڈسکس کر کے وہ نارمل بنانا چاہتے ہیں۔ایسا نہیں کہ ہمیں ہمارا دین ہدایات نہیں دیتا ، یقین جانیں اس ہیش ٹیگ کے ذیل میں دھڑا دھڑوہ ساری آیات لوگ پھیلا کر یا ددلاتے رہے کہ اس میڈیا سے کیسے بچنا ہے ۔ اس کو ڈسٹریکشن کہا گیا ہے، قلب یعنی اپنے دل کو کیسے بچایا جائے۔ ایک ایسے ہی دور کے بارے میں نبی کریم کی صحیح مسلم کی حدیث شیئر کی گئی۔ جب فتنہ پے درپے ایک کے بعد ایک لوگوں کے دلوں پر اس طرح وارد ہوں گےکہ جو بھی اس فتنہ سے متاثر ہوگا اس کے دل پر ایک سیا ہ دھبہ لگ جائے گا، جو لوگ فتنے کا رد کر دیں گے ان پر اللہ اپنا فضل کرے گا۔جو دل ان فتنوں سے متاثرہو جائے گا وہ نہ اچھائی کو جان سکے گا نہ برائی کو پہچان سکے گاماسوائے اس کے جو اس کی خواہش کے مطابق ہو۔یہ صورتحال آج کے نوجوان کی ہے جو ہمارے سامنے ہے ، دوسری جانب اللہ سورۃ آل عمران میں صاف حکم دیتا ہے کہ دُنیا کی زینت کو و رد کرو کہ جنت اس سے بہتر ہے ۔ ایک جگہ تو حکم دیا گیا کہ ان سب کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھو۔اس لیے یہ یاد رکھیں کہ قرآن مجید کے مطابق شیطان نے اللہ سے چار وعدے کیے تھے جو چاروں اس کے واضح ہتھیار ہیں جن میں پہلا وعدہ اگنورنس یا جہالت پھیلانے کا تھا، جو آج سارے کا سارا جھوٹی خبروں، مس انفارمیشن ، اختلافات کی صورت بذریعہ میڈیا کامیابی سے انجام دیا جا رہا ہے ان سب کے ذریعہ انسانوں کو حق سے دور کرنا مقصود ہے اور وہ ہوتا نظرآ رہا ہے ۔
دوسرا وعدہ خواہشات پیدا کرنے کا تھاجو کہ تمام تر غیر اخلاقی، فحاشی ،عریانی کی صورت سامنے ہے۔خواہشات کےنام پریہ بالی ووڈ، ہالی ووڈ اور ڈارک ویب اسکی بڑی مثال ہیں۔ اس کو سمجھناآج مشکل ہی نہیں جو کہ شیطان کے تیسرے وعدے یعنی توہم پرستی اور عقائد صحیہ سے دور کرنے کا بھرپور کام انجام دے رہا ہے۔ صرف ایک ٹام اینڈ جیری کا کارٹون بچوں میں بدلے کی صفت کو کس حد تک بڑھاتا ہے اس کا اندازہ ہمیں ہوتا ہی نہیں اور بعد ازاں بہن بھائیوں میں لڑائی اور بدلہ لینےکی صفت پر ہم پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔یہی نہیں گوڈزیلا، کنگ کانگ، بیٹ مین، اسپائیڈر مین جیسے ہیروز کو فروغ دینا کوئی معمولی ایجنڈا نہیں۔اسی دنیا کے ہر طرح کے مذہبی معاشرے میں حرام رشتوں کے فروغ کے لیے گیم آف تھرونز سے لیکر ہمارے ٹی وی سیریل پورا کام انجام دے کر تباہی کا رستہ کھول رہے ہیں اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو انسان ایک ٹی وی سیریل کو نہیں رد کرنے کوتیاروہ دجال کے فتنہ کاکیسے مقابلہ کر ے گا؟اسی طرح شیطان کاچوتھا وعدہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کا تھا۔ براہ راست تخلیق میں تبدیلی، ایل جی بی ٹی کیو ، جینیاتی طور پر جنس کی تبدیلی اب یہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ہاں اس کے لیے ضرور ہے جس کا دل فتنوں سے سیاہ ہو چکا ہو۔اب یہ آگ ہر گھرمیں لگ چکی ہے ، اس کو خود انہوں نے “آئی پیٹ گوٹ ” کے عنوان سے کھل کر ظاہر کر دیا ہے اور ہم پر ہنس رہا ہے مگر افسوس کہ ہم میں سے کوئی اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں۔انہی میں سے ایک الیکس جونزبرآمد ہوا جس نے پوری محنت کے ساتھ bohemian groveکے مقام پر ہونے والی شیطانی پرستش کے عمل کو دستاویزی فلم کے ذریعہ دنیا کے سامنے اسی عنوان سے پیش بھی کیا مگر اس پر امریکی طاقتور طبقات نے ایسی چھاپ لگائی کہ وڈیو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے مگر کوئی اس کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں۔ان طاقتور شخصیات میں ایک امریکی سینیٹر بھی تھا جس نے الیکس کے خلاف اسکی نجی عمل کی فلم سازی پر کیس بھی کیاتھا اس لیے دستاویزی فلم کی سچائی اہمیت اختیار کر گئی۔یاد رہے کہ یہ وہی الیکس جونز ہے جس نے نائن الیون حملہ کے پیچھے امریکی صدر بش کو مرکزی کردار قرار دیاتھا۔بہرحال شیطان میڈیا کے سہارے اپنی مکمل قوت کے ساتھ ہم سے ہمارا ایمان چھیننے کے لیے کوشاں ہے۔اس موضوع پر مزید ثبوتوں کے ساتھ آئندہ مزید تفصیل بتائیں گے۔
اسی ذیل میں زبیر عمر کی وڈیو لیک ہوگئی۔ہو سکتا ہے زبیر عمر کی وڈیو فیک ثابت ہوجائے کیونکہ اب تو وڈیو کے بھی کئی بہترین “ فیس مارفنگ“ سافٹ ویئرز آچکے ہیں۔ زبیر نے وہی کہا جو ایسے موقع پر عامر لیاقت سمیت باقی سب نے کہا کہ وڈیو جعلی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ اب تک صرف سوات میں کوڑے مارنے والی وڈیو ہی مکمل جعلی ثابت ہوئی ہے ، مگر اس سوات والی وڈیو نےاپنا ہدف پورا حاصل کیاجبکہ اس زمانے میں تو اتنا بڑا سوشل میڈِیا نیٹ ورک نہیں بنا تھا۔ لوگ تو سوشل میڈیا پرابھی دعا بھٹو اور حلیم عادل کے بیٹے کی پیدائش کے انکشاف پر مبارکباد ہی سے گزارا کر رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر ایک اور وڈیو لیک کر دی گئی۔یہ بھی سوشل میڈیا کے مضمرات میں سے ایک ہے۔ وڈیو اصلی ہو یا نقلی خود بتا رہی ہے کہ منصوبہ بندی کرکے بنائی گئی ہے۔کسی بھی خاص موقع کے لیے۔حصول دنیا و اقتدار کی اس گندی سیاست میں ایسے اسکینڈل کا آنا بالکل فطری ہے۔یہ بات ٹھیک ہے کہ زبیر عمر پاکستان مسلم لیگ ن کے کوئی عوامی لیڈر نہیں تھے۔اچانک سے داخل ہوئے تھے مگر ہم سیاست میں رونما ہونے والے ایسے واقعات پر تجزیہ اسکی ٹائمنگ پر کرتے ہیں، کہ اسکی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ویڈیو والے دن کی ہیڈ لائنز میں ایک جانب حمزہ شہباز کااآرمی چیف کی “ایکسٹینشن“ کی حمایت پربیان تھاتو دوسری جانب زبیر عمر کا “ایکسٹینشن معاملے پر مریم نواز کی عدم مرضی کا دفاع کرتے نظرآ رہے تھے“۔بس اسی دوران ہی انکا کام اتر گیا۔ چونکہ ہفتہ میں تین دن سے یہ معاملہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ لسٹ میں رہا اس لیے مجبوراً سمجھانے کے لیے ذکر کرنا پڑ رہا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہماری سیاست عملی و عقیدے کے اعتبار سے اتنی گندی ہو چکی ہے کہ آپ اس میں خیر کا کوئی تصور نہیں کر سکتے۔حکیم الامت اقبال نے جس دین و سیاست کو جدا نہ کرنے کا کہا تھا ، قسم سے اس کا کوئی تعلق موجودہ سیاست سے نہیں ہے۔

حصہ