کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد

1456

برادرانِ اسلام! اس سے پہلے دو خطبوں میں آپ کے سامنے کلمۂ طیبہ کا مطلب بیان کر چکا ہوں۔ آج میں اس سوال پر بحث کرنا چاہتا ہوں کہ اس کلمے پر ایمان لانے کا فائدہ اور اس کی ضرورت کیا ہے؟
ہر کام کا ایک مقصد ہے:
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ آدمی جو کام بھی کرتا ہے کسی نہ کسی غرض‘ کسی نہ کسی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ بے غرض‘ بے مقصد‘ بے فائدہ کوئی کام نہیں کیا کرتا۔ آپ پانی کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے کہ پیاس بجھے۔ اگر پانی پینے کے بعد بھی آپ کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے ہوتا ہے تو آپ ہرگز پانی نہ پئیں‘ کیوں کہ یہ ایک بے نتیجہ کام ہوگا۔ آپ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ اس لیے کہ بھوک رفع ہو اور آپ میں زندہ رہنے کی طاقت پیدا ہو۔ اگر کھانا کھانے اور نہ کھانے کا نتیجہ ایک ہی ہو تو آپ یہی کہیں گے کہ یہ بالکل ایک فضول کام ہے۔ بیماری میں آپ دوا کیوں پیتے ہیں؟ اس لے کہ بیماری دور ہو جائے اور تندرستی حاصل ہو۔ اگر دوا پی کر بھی بیمار کا وہی حال ہو جو دوا پینے سے پہلے تھا‘ تو آپ یہی کہیں گے کہ ایسی دوا پینا بے کار ہے۔ آپ زراعت میں اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ اس لیے کہ زمین سے غلہ ، پھل اور ترکاریاں پیدا ہوں۔ اگر بیج بونے پر بھی زمین سے کوئی چیز نہ اُگتی تو آپ ہل چلانے اور تخم ریزی کرنے اور پانی دینے میں اتنی محنت ہرگز نہ کرتے۔ غرض آپ دنیا میں جو کام بھی کرتے ہیں اس میں ضرور کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا۔ اگر مقصد حاصل ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک ہوا۔ اگر مقصد حاصل نہ ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک نہیں ہوا۔
کلمہ پڑھنے کا مقصد:
اس بات کو ذہن میں رکھیے اور میرے ایک ایک سوال کا جواب دیتے جایئے۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کلمہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتے کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ کافر اور مسلمان میں فرق ہو جائے۔ اب میں پوچھتا ہوںکہ فرق ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کافر کی دو آنکھیں ہوتی ہیں تو مسلمان کی چار آنکھیں ہو جائیں؟ یا کافر کا ایک سر ہوتا ہے تو مسلمان کے دو سر ہو جائیں؟ آپ کہیں گے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ فرق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کافر کے انجام اور مسلمان کے انجام میں فرق ہو۔ کافر کا انجام یہ ہی کہ آخرت میں وہ خدا کی رحمت سے محروم ہو جائے اور ناکام و نامراد رہے اور مسلمان کا انجام یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی اُسے حاصل ہو اور آخرت میں وہ کامیاب اوربامراد رہے۔
آخرت کی ناکامی و کامیابی:
میں کہتا ہوں کہ یہ جواب آپ نے بالکل ٹھیک دیا‘ مگر مجھے یہ بتایئے کہ آخرت کیا چیز ہے؟ آخرت کی ناکامی و نامرادی سے کیا مطلب ہے؟ اور وہاں کامیاب اور بامراد ہونے کا مطلب کیا ہے؟ جب تک میں اس بات کو نہ سمجھ لوں اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اس سوال کا جواب آپ کو دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کا جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الاٰخِرَۃِ (یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے) یعنی دنیا اور آخرت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی سلسلہ ہے جس کی ابتدا دنیا ہے اور انتہا آخرت۔ ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو کھیتی اور فصل میں ہوتا ہے۔ آپ زمین میں ہل جوتتے ہیں‘ پھر بیج بوتے ہیں‘ پھر پانی دیتے ہیں‘ پھر کھیتی کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ فصل تیار ہو جاتی ہے اور اس کو کاٹ کر آپ سال بھر تک مزے سے کھاتے رہتے ہیں۔ آپ زمین میں جس چیز کی کاشت کریں گے اسی کی فصل تیار ہوگی۔ گیہوں بوئیں گے تو گیہوں پیدا ہوگا۔ کانٹے بوئیں گے تو کانٹے ہی پیدا ہوں گے۔ کچھ نہ بوئیں گے تو کچھ نہ پیدا ہوگا۔ ہل چلانے اور بیج بونے اور پانی دینے اور کھیتی کی رکھوالی کرنے میں جو جو غلطیاں اور کوتاہیاں آپ سے ہوں گی ان سب کا برا اثر آپ کو فصل کاٹنے کے موقع پر معلوم ہوگا اور اگر آپ نے یہ سب کام اچھی طرح کیے ہیں تو ان کا فائدہ بھی آپ فصل ہی کاٹنے کے وقت دیکھیں گے۔ بالکل یہی حال دنیا اور آخرت کا ہے۔ دنیا ایک کھیتی ہے۔ اس کھیتی میں آدمی کو اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اپنی محنت اور اپنی کوشش سے اپنے لیے فصل تیار کرے۔ پیدائش سے لے کر موت تک کے لیے آدمی کو اس کام کی مہلت دی گئی ہے۔ اس مہلت میں جیسی فصل آدمی نے تیار کی ہے‘ ویسی ہی فصل وہ موت کے بعد دوسری زندگی میں کاٹے گا اور پھر جو فصل وہ کاٹے گا اسی پر آخرت کی زندگی میں اس کا گزر بسر ہوگا۔ اگر کسی نے عمر بھر دنیا کی کھیتی میں اچھے پھل بوئے ہیں اور ان کو خوب پانی دیا ہے اور ان کی خوب رکھوالی کی ہے تو آخرت کی زندگی میں جب وہ قدم رکھے گا تو اپنی محنت کی کمائی ایک سرسبز و شاداب باغ کی صورت میں تیار پائے گا اور اسے اپنی اس دوسری زندگی میں پھر کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی بلکہ دنیا میں عمر بھر محنت کرکے جو باغ اس نے لگایا تھا اسی باغ کے پھلوں پر آرام سے زندگی بسر کرے گا۔ اسی چیز کا نام جنت ہے اورآخرت میں بامراد ہونے کا یہی مطلب ہے۔
اس کے مقابلے میں جو شخص اپنی دنیا کی زندگی میں کانٹے اور کڑوے کسیلے زہریلے پھل بوتا رہا ہے‘ اس کو آخرت کی زندگی میں انہی پھلوں کی فصل تیار ملے گی۔ پھر اس کو دوبارہ اتنا موقع نہیں ملے گا کہ اپنی اس حماقت کی تلافی کرسکے اور اس خراب فصل کو جلا کر دوسری اچھی فصل تیار کرسکے۔ پھر تو اس کو آخرت کی ساری زندگی اسی فصل پر بسر کرنی ہوگی جسے وہ دنیا میں تیار کر چکا ہے۔ جو کانٹے اس نے بوئے تھے انہی کے بستر پر اسے لیٹنا ہوگا‘ اور جو کڑوے کسیلے زہریلے پھل اس نے لگائے تھے وہی اس کو کھانے پڑیں گے۔ یہی مطلب ہے آخرت میں ناکام و نامراد ہونے کا۔
آخرت کی یہ شرح جو میں نے بیان کی ہے‘ حدیث اور قرآن سے بھی یہی شرح ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا کہ آخرت کی زندگی میں انسان کا نامراد یا بامراد ہونا اور اس کے انجام کا اچھا یا برا ہونا دراصل نتیجہ ہے دنیا کی زندگی میں اس کے علم اور عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا۔
کافر اور مسلمان کے انجام میں فرق کیوں؟
یہ بات جب آپ نے سمجھ لی تو ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ مسلمان اور کافر کے انجام کا فرق یونہی بلاوجہ نہیں ہو جاتا۔ دراصل انجام کا فرق آغاز ہی کے فرق کا نتیجہ ہے۔ جب تک دنیا میں مسلمان اور کافر کے علم و عمل کی درمیان فرق نہ ہوگا‘ آخرت میں بھی ان دونوں کے انجام کے درمیان فرق نہیں ہو سکتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں ایک شخص کا علم اور عمل وہی ہو جو کافر کا علم اور عمل ہے اور پھر آخرت میں وہ اس انجام سے بچ جائے جو کافر کا انجام ہوتا ہے۔
کلمے کا مقصد… علم و عمل کی دُرستی:
اب پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد کیا ہے؟
پہلے آپ نے اس کا جواب یہ تھا کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ کافر کے انجام اور مسلمان کے انجام میں فرق ہو۔ اب انجام اور آخرت کی جو تشریح آپ نے سنی ہے‘ اس کے بعد آپ کو اپنے جواب پر پھر غور کرنا ہوگا۔ اب آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ کلمہ پڑھنے کا مقصد دنیا میں انسان کے علم اور عمل کو درست کرنا ہے تاکہ آخرت میں اس کا انجام درست ہو۔ یہ کلمہ انسان کو دنیا میں وہ باغ لگانا سکھاتا ہے جس کے پھل آخرت میں اس کو توڑنے ہیں۔ اگر آدمی اس کلمے کو نہیں مانتا تو اس کو باغ لگانے کا طریقہ ہی معلوم نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ باغ لگائے گا کس طرح اور آخرت میں پھل کس چیز کے توڑے گا؟ اور اگر آدمی اس کلمے کو زبان سے پڑھ لیتا ہے‘ مگر اس کا علم بھی وہی رہتا ہے جو نہ پڑھنے والے کا علم تھا‘ اور اس کا عمل بھی ویسا ہی رہتا ہے جیسا کافر کا عمل تھا‘ تو آپ کی عقل خود کہہ دے گی کہ ایسا کلمہ پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے شخص کا انجام کافر کے انجام سے مختلف ہو۔ زبان سے کلمہ پڑھ کر اس نے خدا پر کوئی احسان نہیں کیا ہے کہ باغ لگانے کا طریقہ بھی وہ نہ سیکھے‘ باغ لگائے بھی نہیں‘ ساری عمر کانٹے ہی بوتا رہے اور پھر بھی آخرت میں اس کو پھلوں سے لدا ہوا لہلہاتا باغ مل جائے۔ جیسا کہ میں پہلے کئی مثالیں دے کر بیان کر چکا ہوں جس کام کے کرنے اور نہ کرنے کا نتیجہ ایک ہو‘ وہ کام فضول اور بے معنی ہے ۔ جس دوا کو پینے کے بعد بھی بیمار کا وہی حال رہے جو پینے سے پہلے تھا‘ وہ دوا حقیقت میں دوا ہی نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کلمہ پڑھنے والے آدمی کا علم اور عمل بھی وہی کا وہی رہے جو کلمہ نہ پڑھنے والے کا ہوتا ہے تو ایسا کلمہ پڑھنا محض بے معنی ہے۔ جب دنیا میں کافر اور مسلم کی زندگی میں فرق نہ ہو تو آخرت میں ان کا انجام میں فرق کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اس علم کو سیکھنے کے بعد مسلمان کے عمل اور کافر کے عمل میں کیا فرق ہو جاتا ہے؟
1- اللہ کی بندگی:
دیکھیے! پہلی بات جو اس کلمے سے آپ کو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے بندے ہیں اور کسی کے بندے نہیں ہیں۔ یہ بات جب آپ کو معلوم ہوگئی تو خودبخود آپ کو یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ آپ جس کے بندے ہیں‘ دنیا میں آپ کو اسی کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہیے‘ کیوں کہ اس کی مرضی کے خلاف اگر آپ چلیں گے تو یہ اپنے مالک سے بغاوت ہوگی۔
2-محمدؐ کی پیروی:
اس علم کے بعد دوسرا علم آپ کو کلمے سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بات جب آپ کو معلوم ہوگئی تو اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی آپ کو خود بخود معلوم ہوگئی کہ اللہ کے رسولؐ نے دنیا کی کھیتی میں کانٹوں اور زہریلے پھلوں کے بجائے پھولوں اورمیٹھے پھلوں کا باغ لگانا جس طرح سکھایا ہے اسی طرح آپ کو باغ لگانا چاہیے۔ اگر آپ اس طریقے کی پیروی کریں گے تو آخرت میں آپ کو اچھی فصل ملے گی اور اگر اس کے خلاف عمل کریں گے تو دنیا میں کانٹے بوئیںگے اور آخرت میں کانٹے ہی پائیں گے۔
3 -علم کے مطابق عمل بھی ہو:
یہ علم حاصل ہونے کے بعد لازم ہے کہ آپ کا عمل بھی اس کے مطابق ہو۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ ایک دن مرنا ہے اور مرنے کے بعد پھر ایک دوسری زندگی ہے اور اس زندگی میں آپ کو اس فصل پر گزر کرنا ہوگا جسے آپ اس زندگی میں تیار کرکے جائیں گے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ آپؐ کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرسکیں۔ دنیا میں آپ کھیتی باڑی کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ اگر کھیتی باڑی نہ کی تو غلہ پیدا نہ ہوگااور غلہ نہ پیدا ہوا تو بھوکے مر جائیںگے۔ اگر آپ کو اس بات کا یقین نہ ہوتا اور آپ سمجھتے کہ کھیتی باڑی کے بغیر ہی غلہ پیدا ہو جائے یا غلے کے بغیر بھی آپ بھوک سے بچ جائیں گے‘ تو ہرگز آپ کھیتی باڑی میں یہ محنت نہ کرتے۔
بس اسی پر اپنے حال کو بھی قیاس کر لیجیے۔ جو شخص زبان سے یہ کہتا ہے کہ میں خدا کو اپنا مالک اور رسول پاکؐ کو خدا کا رسول مانتا ہوں اور آخرت کی زندگی کو بھی مانتا ہوں مگر عمل اس کا قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ اس کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ درحقیقت اس کا ایمان کمزور ہے۔ اس کو جیسا یقین اپنی کھیتی میں کاشت نہ کرنے کے برے انجام کا ہے‘ اگر ویسا ہی یقین آخرت کی فصل تیار نہ کرنے کے برے انجام کا بھی ہو تو وہ کبھی اس کام میں غفلت نہ کرے‘ کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے حق میں کانٹے نہیں بوتا۔ کانٹے وہی بوتا ہے جسے یہ یقین نہیں ہوتا کہ جو چیز بو رہا ہے اس سے کانٹے پیدا ہوں گے اور وہ کانٹے اس کو تکلیف دیں گے۔ آپ جان بوجھ کر اپنے ہاتھ میں آگ کا انگارہ نہیں اٹھاتے‘ کیوں کہ آپ کو یقین ہے کہ یہ جلا دے گا‘ مگر ایک بچہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے‘ کیوں کہ اسے اچھی طرح معلوم نہیں ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ (جاری ہے)

حصہ