لومڑی کی پیش گوئی

245

گزشتہ سے پیوستہ
لومڑی بولی: میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ آپ مان جائیں۔ جب سب جانور راضی ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔ آج کے دن ظلم و ستم اور دھونس اور دھاندلی رخصت ہوئے اور جب سب نے اظہارِ رائے کیا اور خود ہی ایک شخص کو چُن لیا تو اس کی حمایت بھی یقیناً کریں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ بندروں کی ذہانت سب سے بڑھ کر ہے۔ وہ انسانوں کی زبان بہتر سمجھتے ہیں، درختوں کی چوٹی تک جا پہنچتے ہیں، ہنر مند اور ذہین ہیں اور پھر ظلم اور اکڑ بازی تو کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ جانور ایسا رہنما چاہتے ہیں جو ظالم نہ ہو اور بندروں سے آج تک کسی نے بدی نہیں دیکھی۔ پھر یہ بھی کہ بندروں کی جماعت نے آپ کا بیک آواز اور پورے اتفاق سے انتخاب کیا ہے اور اب وہ جنگل کے میدان میں جشن منا رہے ہیں۔ انہوں نے میرے ذمے یہ کام لگایا کہ آپ کو اس خوش خبری سے آگاہ کروں اور التجا کروں کہ آپ جلد از جلد تشریف لے چلیں تا کہ حکومت کے کاروبار کو ترتیب دیا جاسکے۔ آخر یہ کون سی اچھی بات ہے کہ آپ ذمہ داری قبول کرنے سے بچیں؟ آپ کو ایثار سے کام لینا ہوگا، خدمت کرنا ہوگی۔ سب حاضرین آپ کے منتظر ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آئیے چلیں۔
بندر کو ابھی تک ان باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں حکومت کا لالچ پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ وہ بولا: کیا کہوں، مجھے نہیں معلوم۔
لومڑی بولی: بس کام ہوگیا۔ ان لمحوں کو غنیمت جانیے، جلدی کیجیے، آئیے چلیں۔
بندر جو اس صورتِ حال سے خوش تھا، درخت سے نیچے اُترا اور لومڑی کے ہمراہ چل پڑا۔ وہ جس رستے سے آئے تھے، اُسی طرف چل دیے۔ لیکن بندر ابھی تک شک کا شکار تھا گویا اسے لومڑی کی باتوں پر یقین نہ تھا۔ چالاک لومڑی نے بندر کو مزید سوچنے کی فرصت نہ دی۔ وہ باتیں کرتی جاتی تھی، بادشاہت اور حکومت کے بارے میں اظہار خیال کرتی جاتی تھی اور بندر کو نصیحت کرتی جاتی تھی کہ بادشاہت قبول کرنے کے بعد وہ ہمیشہ عدل و انصاف کو پیش نظر رکھے اور شیر کے ظلم و ستم کی تلافی کرے تا کہ اس کے عدل اور انصاف کے سایے تلے تمام جانور اللہ کا شکر بجا لائیں اور سُکھ کا سانس لیں۔ بس وہ اسی طرح چلتے گئے، چلتے گئے اور لومڑی مسلسل بولتی گئی اور جب وہ اس جگہ کے قریب پہنچنے لگے جہاں مچھلی پڑی تھی، لومڑی نے اپنی باتوں کے آخر میں کہا: میں ہمیشہ پیش گوئی کی قائل ہوں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فال اور پیش گوئی وغیرہ قصہ کہانی اور وہم پرستی ہے لیکن میں ے اپنے باپ سے سنا ہے کہ پیش گوئی سچ ہے۔ میرے والد مرحوم ہر چیز سے واقف تھے۔ ان کے منہ سے کبھی نہ سنا کہ وہ فلاں بات نہیں جانتے۔ وہ اگر کوئی بات کہتے اور دوسرا اس پہ یقین نہ کرتا اور دلیل طلب کرتا تو انہیں بڑا رنج ہوتا۔ اس ضمن میں خود میرا تجربہ بھی یہ ہے کہ جب کبھی میں نے تہ دل سے نیت کی اور اپنے سارے حواس قائم رکھے تو کوئی ایسی صورت پیش آئی کہ پیش گوئی کا اچھا بُرا معلوم ہوگیا۔ یہ کتنا اچھا ہو کہ اب اس کام کے بارے میں ہم فال لینے کا ارادہ کریں۔ ہم یہ طے کریں کہ اگر ہمارے رستے میں کھانے کی کوئی عمدہ چیز نظر آجائے تو اسے نیک فال سمجھیں اور اگر کوئی چیر پھاڑ کرنے والا جانور نظر آئے تو اسے بری فال سمجھیں۔ اُس وقت آپ بھی اس فال کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کریں۔
بندر بولا: مجھے کچھ نہیں معلوم۔ شاید تمہیں زیادہ علم ہے۔ کہتے ہیں کہ لومڑیاں بڑی ہوش مند اور دانا ہوتی ہیں۔ اب وہ اس بساط کے قریب آگئے تھے جہاں مچھلی پڑی تھی۔ لومڑی خوش ہو کر چلائی: واہ واہ! ہماری فال اچھی نکلی۔ یہ ہے اس کی نشانی…مچھلی… ایک ترو تازہ مچھلی، خشک اور چٹیل بیابان میں! سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری فال کا حال خوب ہے۔ اب اے عزیز بندر آپ کو اس مزیدار خوراک سے لذت لینی چاہیے اور آنے والے حالات سے مطمئن اور خوش ہوجانا چاہیے۔
بندر کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور وہ ہنستے ہوئے لومڑی سے گویا ہوا: سچ کہا تم نے۔ لیکن میری درخواست ہے کہ پہلے تم بسم اللہ کرو۔ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور خدا جو نعمت دے اسے مل کر کھائیں۔
لومڑی بولی: یہ ناممکن ہے، سخت مشکل ہے کہ میں ایسی جسارت کروں۔ یہ خوراک آپ کا حق ہے۔ میں اسی میں خوش ہوں کہ میری فال پوری ہوئی۔ ہم تو آپ کے نمک خوار ہیں۔ میری التجا ہے کہ آپ اس لذیذ مچھلی کی طرف متوجہ ہوں اور پھر ہم آگے چلیں۔ تمام جانور ہمارے انتظار میں ہیں۔
بندر کی بھوک چمک اُٹھی تھی۔ وہ فوراً مچھلی کی طرف لپکا۔ اس نے ہاتھ بڑھایا کہ مچھلی کو اُچک لے لیکن ابھی اس کا ہاتھ مچھلی تک نہ پہنچا تھا کہ لکڑی اور پھندے نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور بندر کے ہاتھ پائوں جکڑے گئے اور جیسا کہ لومڑی نے قیاس کر رکھا تھا، وہ جال میں پھنس گیا۔
اب لومڑی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ جال اپنا کام کرچکا تھا۔ شکاری بھی ابھی نظر نہیں آرہا تھا۔ لومڑی نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ وہ مچھلی کے قریب آئی، اسے اُچک لیا اور کھانا شروع کردیا۔
بندر ابھی تک نہ سمجھ پایا تھا کہ یہ ساری میٹھی میٹھی باتیں اسی مچھلی کی خاطر تھیں، وہ لومڑی سے گویا ہوا: یہ کیا ہوا؟ میں کیسے جال میں آ پھنسا اور تو ہے کہ مزے اُرا رہی ہے؟
لومڑی بولی: ہاں ہاں! ہر کسی کو اپنے عمل کا حساب کرنا چاہیے۔ بادشاہت کا نتیجہ کبھی کبھی یوں بھی نکلتا ہے۔ تم جال میں پھنس گئے کیونکہ تم نے مچھلی دیکھی مگر جال نہ دیکھا۔ میں اس مچھلی کو کھا کھا کر مزے لے رہی ہوں کیونکہ میں ہر کام میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھتی ہوں اور آنکھیں کھول کر چلتی ہوں۔ لو، میں چلی۔

حصہ