ماں کی طرح اولاد کی تربیت میں باپ کا بھی بڑا حصہ

411

کلثوم: تجھے کیا ضرورت ہے شوہر کے نخرے اٹھانے کی! تُو اُس سے نخرے اٹھوا۔ تُو اس کے آگے پیچھے پھر رہی ہے، اس طرح تو تیری دو ٹکے کی عزت نہیں رہے گی۔ پہلے بھی تو وہ اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ اور ہاں سن، اُس دن میں تیرے گھر آئی تو تُو مسلسل باورچی خانے میں گھسی ہوئی تھی۔ گھر والوں کو اتنا سر پر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔
عبیر: مما… وہ اصل میں عمیر کی امی اس کے سارے کام دیکھ لیتی تھیں، اب ظاہر ہے یہ میری ذمہ داری ہے۔
کلثوم: بس بس رہنے دے، بڑی بیوقوف ہے تُو۔ اب آگے تجھے بچہ ہونے والا ہے، تُو اس کا خیال رکھے گی یا شوہر کا؟ یہ تجھے سب تیرے بابا کا سکھایا ہوا ہے۔
عبیر: نہیں مما ایسی بات نہیں، عمیر بھی میری ہر ضرورت اور خوشی کا خیال رکھتے ہیں، اور عمیر کی امی تو مجھے کچن میں زیادہ دیر کھڑا بھی نہیں رہنے دیتیں… ظاہر ہے مما وہ لوگ میرا خیال رکھتے ہیں اور وہ میرا گھر ہے، مجھے ان سے غافل تو نہیں رہنا۔
کلثوم: (عبیر کی بات سن کر تلملا گئی) یہ سب تمہارے بابا نے تمہیں سکھایا ہوگا۔ اور اسے یہ پٹیاں اس کی ماں پڑھاتی ہے۔
یہ حقیقت تھی کہ عبیر اپنے ابو اور دادی کے بہت قریب تھی۔ وہ جب بھی اپنے ابو اور دادی کی صحبت میں ہوتی تو دادی یا ابو اسے کوئی مفید بات ضرور سمجھاتے۔ یہی وجہ تھی کہ ماں کے سمجھانے یا ورغلانے کے باوجود عبیر کے اپنے سسرال والوں کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ اُس سے نہ صرف اس کا شوہر بلکہ سسرال والے بھی بے حد خوش تھے، اور یہ ایک مثالی گھرانہ کہا جا سکتا تھا۔
٭…٭
ابو: جمشید بیٹا ہاتھ منہ دھو لو، پھر اپنے دادا کو سلام کرنے اُن کے کمرے میں ضرور جانا۔
جمشید: جی ابو، میں روز پہلے ان کو سلام کرتا ہوں پھر کھانا کھاتا ہوں۔
ماں سے زیادہ تینوں بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت میں باپ کا ہاتھ تھا۔ شعیب نے گرچہ تعلیم سے فارغ ہوکر ملازمت شروع کردی تھی، لیکن باپ کی نصیحت کے مطابق وہ نہ صرف صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا بلکہ ہر قسم کی برائی سے بھی دور تھا۔ اسی طرح نورین بھی کالج میں پہنچ چکی تھی لیکن ماں اور باپ کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ صرف اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دیتی۔ جمشید، شعیب اور نورین تینوں کی شخصیت میں اپنے والد کا عکس نظر آتا تھا۔
٭…٭
کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود اولاد کی پہلی درسگاہ ہے۔ یہ بات حقیقت ہے، لیکن کیا بچوں کی تربیت میں والد کا ہاتھ نہیں؟ یہ سوال مجھ سے کئی مائوں نے پوچھا کہ اولاد کی تعلیم و تربیت صرف ماں کی ذمہ داری ہے؟ بالکل نہیں، اولاد کی تعلیم و تربیت میں یقیناً باپ کا بھی بڑا حصہ ہے۔ میرے سامنے ’’عکسِ نبیؐ‘‘ حضرت فاطمہؓ کی مثال ہے، کیوں کہا گیا ہے کہ وہ تو آپؐ کا عکس تھیں! آپؐ کی تربیت کا اثر،ا ور باپؐ کا اعلیٰ و معتبر کردار حضرت فاطمہؓ کے لیے رہنما اور مشعلِ راہ تھا… یہاں تک جب خاتونِ جنت حضرت علیؓ کو زوجیت میں آگئیں اُس وقت بھی آپؐ کی نصیحت و تربیت پر عمل پیرا تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت علیؓ سے ناراض ہو کر آپؐ کے پاس شکایت کے لیے آئیں، آپؐ نے کتنے خوبصورت انداز میں ان کو نصیحت کی بلکہ ان کے دل میں حضرت علیؓ کی محبت مزید اجاگر کردی کہ ’’مردوں میں علیؓ جیسا کوئی مرد ہی نہیں‘‘۔ یہ وہ عظیم و معتبر جملہ تھا جس کی وجہ سے حضرت فاطمہؓ کی تمام شکایت دورہوگئی (سبحان اللہ)۔ اسی طرح آپؓ سارا دن کام کاج کی زیادتی کی وجہ سے تھک جاتیں، چکی پیستے پیستے آپؓ کے ہاتھوں میں گٹے پڑجاتے، ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے آپ سے کہا کہ آپ کے باپ کے پاس مالِ غنیمت میں کنیزیں آتی ہیں آپ اُن سے ایک کنیز اپنے لیے لے لیں۔ جب حضرت فاطمہؓ نے آپؐ سے کنیز کا سوال کیا تو آپؐ نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر نہ دوں؟ اس طرح آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو تسبیحِ فاطمہ پڑھنے کے لیے عطا فرمائی (روایت کا مفہوم) (سبحان اللہ)، حالانکہ آپؐ چاہتے تو بیٹی کی محبت سے مجبور ہو کر انہیں کنیز عنایت فرمادیتے، لیکن اللہ کے نبیؐ نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اور سبحان اللہ ،بیٹی بھی ایسے اوصاف سے مالا مال تھیں کہ مزید کچھ نہ کہا۔ ان واقعات سے ظاہر ہے کہ والدہ کی طرح والد بھی اولاد کی تربیت کا ذریعہ ہے۔ خصوصاً تربیت یافتہ شخص اپنی اولاد کے لیے ’’رول ماڈل‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
میرے والدِ محترم نے کاروبار کی مصروفیت کے باوجود ہم بہن بھائیوں کو بہت وقت دیا۔ ان کی صحبت سے ہم نے بہت کچھ پایا جس کی چھاپ آج بھی ہم بہن بھائیوں پر موجود ہے۔ بابا نے نہایت شرافت کی زندگی گزاری، اور یہی بات و خوبی ہم بہن بھائیوں میں آج بھی موجود ہے۔ رات میں وہ صحابہ کرام، اولیائے کرام اور قرآن پاک میں بیان کیے ہوئے واقعات گوش گزار کرتے ہیں…تعلیم و تربیت صرف یہی نہیں کہ اولاد میں اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور معاشرے میں روزگار کی صلاحیت پیدا کی جائے، بلکہ اس میں تمام برائیوں سے بچنے کی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہے۔ اور ان تمام صلاحیتوں کا اجاگر کرنا تب ہی ممکن ہوسکتا ہے جب باپ خود ان صلاحیتوں سے مزین ہو۔ میری دادی کا انتقال اُس وقت ہوا جب بابا صرف پانچ سال کے تھے۔ اُس وقت انہیں اسکول میں داخل کرواتے وقت دادی نے جو نصیحت کی وہ ان کی زندگی کے لیے سنگ ِمیل تھی، بلکہ ان دو جملوں کو وہ بار بار ہم سے بھی شیئر کرتے جس کا اثر ہم پر بھی نمایاں پڑا… وہ نصیحت تھی کہ ’’بیٹا گھر سے اسکول کے راستے کے درمیان تمہیں بہت سی برائیاں اور گندگیاں نظر آئیں گی، تمہیں ان برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا‘‘۔ اس عمر میں تو بابا کو ان برائیوں کی آگہی نہ تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معلوم ہوتا گیا اور ان برائیوں سے وہ بچتے رہے۔ آنے والے وقت میں بقول بابا کے، بہت سے مواقع بگڑنے کے تھے، لیکن ماں کی نصیحت کام آگئی۔ بابا نے اپنی ماں کے حوالے سے ہم بہن بھائیوں کی تربیت میں انہی دو جملوں کو استعمال کیا… بے شک ماں کی گود کی درسگاہ کے علاوہ باپ کی شخصیت اور اس کا قول و فعل اولاد کی تربیت کے لیے لازم و ملزوم ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جب ماں باپ دونوں کی طرف سے اولاد کی اچھی اور مثبت خطوط پر تربیت ہو گی تو یقیناً وہ کہیں نہ کہیں ضرور نظر آئے گی۔ اس لیے ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد کی تربیت میں حصہ لینا چاہیے۔ گرچہ باپ ملازمت و بیرونی کاموں کی وجہ سے مصروف رہتا ہے، لیکن اسے کسی بھی صورت اپنی اولاد کی تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ باپ کی چند گھنٹوں کی خوبصورت صحبت اولاد پر خوبصورت نقش چھوڑتی ہے ۔

حصہ