حفاظت

224

دروازے پر بیل ہوئی۔ عافی اور ارمان نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا… ارمان نے دروازے پر جاکر دیکھا، تھوڑی دیر بعد دروازہ بند ہونے کی آواز آئی اور ارمان بڑی سی پلیٹ میں کچھ لیے ہوئے گھر میں واپس آیا۔
’’کون تھا؟‘‘ پلیٹ دیکھ کر عافی کی تیوری چڑھ گئی۔
’’سامنے والوں کا بیٹا تھا… اُف بریانی میری کمزوری…‘‘
’’اوفو…! توبہ ہے ارمان، آپ تو اس طرح کررہے ہیں جیسے پہلی دفعہ بریانی دیکھی ہو۔‘‘ عافی انتہائی ناگواری سے بولی۔
’’پہلی دفعہ دیکھنے سے پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ نہیں بنتا۔‘‘ ارمان اس کے غصے کو نظرانداز کرکے کچن سے چمچہ اٹھا لایا اور بریانی کھانا شروع کردی۔
عافی نے جھلّا کر ارمان کے ہاتھ سے پلیٹ چھینی۔ ’’ہر الٹی سیدھی گندی سندی چیز کھانے کو کیسے تیار ہوجاتے ہیں۔‘‘
ارمان بغور عافی کے رویّے کو دیکھ رہا تھا۔ بظاہر اس کا دھیان کھانے کی طرف تھا لیکن اصل میں اس کے دماغ میں کچھ اور چل رہا تھا۔ اس نے بے نیازی سے کہا ’’کیوں بھئی کیا گندگی لگ گئی اس میں؟ اپنے گھر سے لایا اور سیدھا میرے گھر دے دیا اس نے۔ تھوڑا سا راستہ تھا، اتنے میں کیا گندگی لگی…؟‘‘
’’پھر بھی یہ کوئی تمیز تہذیب نہیں ہے کہ کھانا بغیر ڈھانکے باہر بھیج دیا جائے۔ ہر ایک کی نظر پڑے۔ دھول، مٹی، مچھر، مکھی… ایک ذرا ڈھک کر دینے میں کیا چلا جاتا ہے؟‘‘
عافی کی نظر میں تو اب وہ کھانا، کھانے کے لائق ہی نہیں تھا۔ ’’اتنا غصہ کیوں کیے چلی جا رہی ہو؟‘‘ ارمان نے مصنوعی حیرانی سے کہا ’’اور یہ ڈھانکنے چھپانے کا مسئلہ تمہارے نزدیک اتنا اہم کب سے ہوگیا؟‘‘ ارمان کا لہجہ طنز کی کڑواہٹ لیے ہوئے تھا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ عافی حیران ہوئی…’’کیا مجھے سینس نہیں ہے ڈھکے اورکھلے کا؟ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں آپ مجھ کو؟‘‘
’’اگر سینس ہوتا تو کھانے کے بجائے خود کو ڈھانپنے کی فکر نہ کرتیں؟‘‘ ارمان تو باقاعدہ ناراض لگ رہا تھا۔
’’کیا میں مناسب کپڑے نہیں پہنتی ؟کیا ہوگیا ہے آپ کو، کیسی باتیں کررہے ہیں!‘‘ عافی روہی پڑی۔
’’ہمیشہ تو نہیں لیکن تقریبات میں آپ کی سجاوٹ، بناوٹ اس بریانی کی بوٹیوں سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے، جب دھول مٹی سے زیادہ کثیف جذبات کے ساتھ لوگ آپ پر قربان ہورہے ہوتے ہیں، اور مکھیوں سے زیادہ غلیظ نگاہیں آپ پر بھنبھنا رہی ہوتی ہیں، اس وقت میں اس کھلی بریانی کو…‘‘
’’بس کریں ارمان، خدا کے لیے بس کریں۔‘‘ عافی نے زچ ہوکر ہاتھ جوڑ دیے۔ ’’کبھی آپ نے کہا ہوتا تو میں کیئر فل ہوجاتی۔‘‘
’’ڈھکے چھپے لفظوں میں تو کئی دفعہ کہا، کھل کر اس لیے نہ کہا کہ اگر مخالفت ہوگی تو نباہ مشکل ہوجائے گا، اور اگر مجبوراً فرمانبرداری ہوئی تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں۔ میں بس مناسب موقع کی تلاش میں تھا۔‘‘
’’یعنی آپ کو میرا سجنا سنورنا پسند نہیں؟‘‘
’’بالکل پسند ہے، مگر بس اوپر کچھ لے لیا کرو، ورنہ اسی بریانی کی طرح ہر بھوکے کی نظر، دھول، مٹی، مچھر، مکھی سب کے لیے عام دعوت لگتی ہے۔‘‘ارمان مسکرا کر کہہ رہا تھا اور عافی شرمندگی سے گردن جھکائے بیٹھی تھی۔ پشیمانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
’’تمہاری آرٹی فیشل جیولری سامنے ہی پڑی رہتی ہے مگر تم اپنی سونے کی جیولری کبھی باہر نہیں چھوڑتیں کہ ماسی کی نظر نہ پڑ جائے۔‘‘ ارمان نے بات آگے بڑھائی۔
’’قیمتی چیز ہے نا… دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمام پھل اور سبزیاں نازک چھلکوں میں لپیٹ دی ہیں، اور جو قیمتی میوے ہیں ان کو لکڑی کی ڈبیوں میں بند کردیا تاکہ حفاظت سے رہیں اور کوالٹی بھی خراب نہ ہو۔ عورت کی عزت کیا اس سے بھی ہلکی ہے!‘‘ ارمان کی نظریں بڑی تیکھی تھیں۔ عافی ان کا سامنا نہ کر پا رہی تھی۔ وہ پلیٹ اٹھا کے دوسرے کمرے میں جانے لگی۔ اس نے دل میں پکا ارادہ کرلیا کہ اب وہ ہمیشہ خود کو ڈھانپنے کا مناسب اہتمام کرے گی۔
’’ارے بھائی بریانی کی پلیٹ تو اِدھر دو، تمہاری باتوں میں ٹھنڈی ہوگئی۔‘‘
’’پھر وہیں بریانی پہ پہنچ گئے، ارمان خدا کے لیے…‘‘ عافی کھسیانی مسکراہٹ سے بولی۔
’’ارے بھائی وہ بچہ اخبار ڈھانک کر لایا تھا، میں نے اخبار لپیٹ کر باہر ہی رکھ دیا تھا۔‘‘ ارمان اب کھل کر ہنس رہا تھا۔

حصہ