سفید کبوتر

568

” ارے وہ دیکھو ،سفید کبوتر ! کتنا پیارا ہے ” احمد نے چھت پر دوسرے کبوتروں کے ساتھ سفید کبوتر کو دیکھا تو زور سے بول کر سب کی توجہ اس طرف دلائی۔
” کہاں ہے ، ؟” علی نے احمد سے پوچھا اور اس طرف دیکھا جہاں وہ اشارہ کر رہا تھا ۔
” واؤ ،یہ تو بہت پیارا ہے ” علی کہتا ہوا اس کی طرف بڑھا تو سارے کبوتر پھڑ سے اڑ گئے ۔
” کیا ہے علی سب کو اڑا دیا ،اب نانو غصہ ہونگی کہ ان کو کھانا نہیں کھانے دیا” احمد نے کہا ۔
” میں نے کوئ جان بوجھ کر تھوری اڑایا ہے ” ۔
” اچھا چلو نیچے چل کر کھیلتے ہیں” اور وہ دونوں نیچے آگئے ۔
کبوتروں نے جب دیکھا کہ اب چھت پر کوئ نہیں ہے تو وہ آرام سے آ کر دانہ چگنے لگے سفید کبوتر بھی آ گیا مگر وہ سب سے الگ ہو کر دانہ چگنے لگا سب نے اس سے کہا بھی کہ آؤ ہمارے ساتھ مل جل کر کھاؤ مگر وہ کہنے لگا ۔
” میں تو اتنا خوبصورت اور سفید ہوں اور تم سب تو گرے ہو اور بھر تمہارے ساتھ تو کالے کوے بھی ہیں ،میں تو نہیں آتا”۔
سب کبوتروں نے بہت سمجھایا کہ مل جل کر رہنے سے دشمن سے بھی محفوظ رہتے ہیں مگر اس نے ایک نہ مانی ۔اب جیسے ہی سب خطرہ محسوس کرتے ایک ساتھ اڑ جاتے ، سفید کبوتر بھی اڑ جاتا مگر سب سے الگ ۔
ایک بڑی سی چیل بہت دن سے یہ سب دیکھ رہی تھی ،ننھی ننھی چڑیا ، کوے ، کبوتر سب قریب قریب ہی رہتے مگر سفید کبوتر گردن اکڑائے الگ الگ رہتا ، جیسے ہی چیل ان کی طرف لپکتی سب جلدی سے ادھر ادھر ہو جاتے چیل کو بھی ان کو ڈرانے میں مزہ آتا ،ادھر بچے تاک میں تھے کہ ایک مرتبہ سفید کبوتر کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھ لیں اور دوسری طرف چیل کے منہ میں پانی آجاتا اور وہ سب سے بے خبر اتراتا پھر رہا تھا ایک دن بچوں نے پلان کیا کی آج تو کبوتر کو پکڑنا ہی ہے وہ چپکے سے نانو کا دوپٹہ اٹھا لائے اور تاک میں بیٹھ گئے ادھر چیل کو بھی آج کچھ کھانے کو نہیں ملا تو اس کی نظریں بھی کبوتر پر ہی تھی جیسے ہی سب پرندے چگنے چھت پر آئے بچوں نے دوپٹہ پھیلا کر پکڑ لیا ادھر چیل نے جھپٹا مارا تو سب پرندے تو اڑ گئے سفید کبوتر آگے بڑھنے لگا تو چیل سے تو بچ گیا مگر دوپٹے کے نیچے آگیا اس نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں احمد نے آہستہ آہستہ اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس کو پکڑ کر باہر نکال لیا سب بچے اس کے سفید پروں کو آہستہ سے پیار کررہے تھے کہ ایک دم نانو اوپر آگئیں ۔
” کیا ہورہا ہے یہ ؟؟” انہوں نے پوچھا تو احمد کے ہاتھ سے کبوتر نکل گیا اور جلدی سے اڑ کر سب پرندوں کے پاس چلا گیا ۔
نانو نے بچوں کو سمجھایا کہ” اس طرح پرندوں کو تنگ نہیں کرتے وہ ڈر جاتے ہیں اور یہ بات بھی سمجھ لو کہ مل جل کر رہنے سے دشمن سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اب سفید کبوتر کو بھی یہ بات سمجھ آ گئی ہو گی ” ۔
اور سفید کبوتر کو اچھی طرح سمجھ آ گیا کہ مل جل کر رہنا ہی سب سے اچھا ہے۔اب وہ سب کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور دشمنوں سے محفوظ رہتا ہے۔۔

حصہ