لومڑی کی پیش گوئی

410

ایک تھی لومڑی کہ دوسری تمام لومڑیوں کی طرح چالاک اور عیار تھی اور چونکہ اتنی طاقت نہ رکھتی تھی کہ شیر اور چیتے کی طرح شکار کرسکے اس لیے ہمیشہ چکنی چپڑی باتوں اور مکر و فریب کے ساتھ پرندوں اور چھوٹے جانوروں کو اپنے جال میں پھنساتی، میٹھی میٹھی باتوں سے اُن کی قربت حاصل کرتی اور پھر اچانک انہیں دبوچ کر ہڑپ کرجاتی۔
ایک روز یہ لومڑی صحرا کے وسط سے گزر رہی تھی اور اپنے دل میں سوچ رہی تھی: آج میں نے کچھ نہیں کھایا۔ کڑاکے کی بھوک لگی ہے۔ مجھے چاہیے کہ اپنے ہوش و حواس قائم رکھوں اور اگر میرا سامنا کسی خرگوش، چکور، پرندے، مرغے یا کسی اور جاندار سے ہوجائے تو مجھے ایسا حیلہ کرنا چاہیے کہ وہ مجھ سے خوف کھا کر بھاگ نہ لے۔ لومڑی یہ سوچتی ہوئی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اگر وہ کسی جانور کو جو اس کی خوراک کے لائق ہو، ملے تو اسے کیا تدبیر کرنی چاہیے اور کس طرح کی گفتگو کرنی چاہیے کہ وہ اس کے نزدیک آجائے۔ اچانک اس نے رستے میں ایک عجیب و غریب چیز دیکھی۔ رستے کے عین درمیان مٹھی بھر گھاس بکھری ہوئی تھی اور اس کے آس پاس لکڑی کا ایک ٹکڑا اور رسی کا ایک حصہ پڑے تھے اور ان کے درمیان ایک تازہ مچھلی نظر آرہی تھی۔ ایک موٹی تازی مچھلی!
لومڑی پہلے تو یہ سمجھی کہ بھوک کی شدت کے باعث اس کی آنکھیں کچھ سے کچھ دیکھ رہی ہیں اور مچھلی کہیں موجود نہیں لیکن وہ تھوڑا سا آگے بڑھی اور غور سے دیکھا تو واقعی ایک مچھلی وہاں موجود تھی اور اس کی بُو اس کے دماغ میں گھسی چلی آرہی تھی!
اگر کوئی گوشت خور جانور ہوتا تو فوراً لپکتا اور مچھلی کو ہڑپ کرجاتا لیکن لومڑی بھوکی ہونے کے باوجود اسی جگہ کھڑی رہی اور سوچتی رہی: اچھا! اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مچھلی موجود ہے، مچھلی کا گوشت بھی بڑا لذیذ ہوتا ہے لیکن میرے لیے یہی سمجھنا ضروری ہے کہ اس جگہ مچھلی آئی کہاں سے؟ یہاں دریا کا کنارہ بھی نہیں کہ کہاں جائے کہ مچھلی اُچھل کر باہر آپڑی ہو اور ہلاک ہوگئی ہو۔ مچھلی فروش کی دکان بھی یہاں نہیں، باورچی خانہ بھی یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ پھر یہ بھی کہ مچھلی کوئی صحرائی جانور نہیں کہ اپنے پائوں چل کر یہاں آگئی ہو۔ لہٰذا اس صحرا میں مچھلی کے ہونے کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو یہ لکڑی اور رسّی شکار کا جال ہیں اور یہ مچھلی کسی شکاری نے یہاں لا ڈالی ہے اور خود کسی کونے کُھدرے میں چھپ گیا ہے تا کہ کسی لالچی جانور کو اپنے دام میں پھنسالے یا یہ کہ کسی ماہی گیر نے دریا سے ڈھیر ساری مچھلیاں پکڑیں اور اس رسے سے جاتے ہوئے یہ مچھلی اس کے پُشتارے سے گر پڑی اور اسے پتا نہ چلا۔ بہرحال خطرہ موجود ہے سو مچھلی کھانے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
دراصل لومڑی کچھ عرصہ پہلے دیکھ چکی تھی کہ کیسے اچانک شکاری کے جال میں حرکت ہوئی تھی اور اس کی ایک سہیلی پھندے میں آگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ وہ ایسی چیزوں کے پکڑنے اور کھانے میں جلد بازی نہیں کرے گی جن کی اصل حقیقت اسے معلوم نہ ہوگی۔ آج بھی اس نے اپنے دل میں کہا: سردست تو اس صحرا میں کوئی نظر نہیں آتا کہ مچھلی کو لے کر بھاگ کھڑا ہو لہٰذا بہتر یہی ہے کہ مچھلی کو یہیں چھوڑ کر اصل صورتِ حال کا کھوج لگائوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مجھے ایسی خوراک مل جائے جو اس جیسی ہی ہو۔
لومڑی نے مچھلی کو اسی طرح چھوڑا اور آگے بڑھنے لگی۔ وہ کافی دور تک چلتی گئی مگر اسے کوئی شکار ہاتھ نہ آیا حتیٰ کہ دور سے اسے ایک بندر دکھائی دیا جو اسی رستے سے چلا آرہا تھا۔
لومڑی جانتی تھی کہ بندر کو کھانا ناممکن ہے لیکن اسے اتنا معلوم تھا کہ ہر کسی کو میٹھی باتوں اور نرم گوئی سے دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ بندر کو دیکھ کر اس کے دل میں اچانک ایک خیال آیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا: جو چالاکی بھی مجھ سے بن پڑے، مجھے بندر کو مچھلی کی بساط تک لے جانا ہوگا تا کہ میں اس کے بھید سے آگاہ ہوسکوں۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی چال چلنا شروع کردی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی اور اس کی پشت کی طرف ہو کر صدا بلند کی: میاں بندر! ذرا رُکیے، مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔ ایک لمحے کو ٹھہریے!
بندر نے اپنا منہ موڑا اور جونہی لومڑی کو دیکھا، دوبارہ آگے بڑھنے لگا۔ جب وہ ایک درخت کے نزدیک پہنچا تو اس پر چڑھ گیا اور ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ لومڑی بھی درخت کے نزدیک چلی آئی اور اس کے بالمقابل کھڑی ہو کر لگی تیز تیز باتیں کرنے: قربان جائوں! سلام عرض کرتی ہوں۔ میں نہیں جانتی خدا کا کیسے شکر بجا لائوں کہ آپ سے یہاں ملاقات ہوگئی۔ میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ آج بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور آپ کی خدمت میں پہنچ پانے کی عزت مجھے مل گئی۔ یقین کیجیے آج میں نے آپ کی تلاش میں تمام صحرا کی خاک چھانی تب جا کر یہاں پہنچی۔ شکر خدا۔ اب میری درخواست ہے کہ آپ جلدی کیجیے، وقت کم رہ گیا ہے۔ نیچے آئیے۔ میری خواہش اور آرزو ہے۔ تمام لوگ آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں!
بندر کو یہ باتیں سُن کر بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے جواباً کہا: مجھے نہیں معلوم تم کیا چاہتی ہو۔ ان باتوں سے تمہارا مقصد کیا ہے؟
لومڑی بولی: آخر تمام جانور جنگل کے میدان میں اب جمع ہیں اور آپ کے تشریف لانے کے منتظر ہیں۔ مہربانی کیجیے، آئیے۔ ہم جلد لوٹ آئیں گے۔ رستے میں بات چیت کریں گے۔
بندر بولا: جانور؟ میرے تشریف لانے کے منتظر ہیں؟ آخر کس لیے؟ کیا مقصد ہے؟ یقینا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے جانوروں سے کیا لینا دینا؟
لومڑی بولی: ہائے افسوس! معلوم ہوتا ہے کہ کل آپ جنگل میں نہ تھے، اسی وجہ سے آپ کو ابھی تک خبر نہ ہوئی۔ آج صبح جنگل میں قیامت کا سا سماں تھا۔ کل تمام درندے، پرندے اور چرندے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شیر کو بادشاہت سے ہٹادیا اور وہ بھی جنگل سے بھاگ گیا۔ بات یہ ہے کہ شیر بڑا خبیث ہوگیا تھا۔ ہر ایک پر ظلم اور جبر کرتا تھا۔ بالآخر تمام جانوروں نے ایکا کرلیا اور اسے بادشاہت سے ہٹادیا۔ پھر نیا بادشاہ مقرر کرنے کے لیے رائے طلب کی گئی کہ کسے اپنا حاکم اور رئیس مقرر کیا جائے۔ تمام جانور بولے: ہمارا حاکم اور رہنما بندروں میں سے چُنا جائے۔
بندر بولا: میرے خیال میں یہ درست نہیں۔ ایک بندر کتنا ہی ہوشیار اور سیاست کا ماہر کیوں نہ ہو، وہ تمام جانوروں پر اپنا حکم چلانے کے لائق نہیں ہوتا۔ ہم بندر یقینا اس قابل ہیں کہ ہر کام خوب انجام دیں مگر سیاست کرنا ہماری دسترس سے باہر ہے۔ میں اس کام کے لائق نہیں ہوں۔ جانوروں کا بادشاہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہیے جس کی سوجھ بوجھ تمام جانوروں سے زیادہ ہو اور اس کا بس ہر ایک پر چل سکے۔
(باقی آئندہ شمارے میں)
لومڑی بولی: میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ آپ مان جائیں۔ جب سب جانور راضی ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔ آج کے دن ظلم و ستم اور دھونس اور دھاندلی رخصت ہوئے اور جب سب نے اظہارِ رائے کیا اور خود ہی ایک شخص کو چُن لیا تو اس کی حمایت بھی یقینا کریں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ بندروں کی ذہانت سب سے بڑھ کر ہے۔ وہ انسانوں کی زبان بہتر سمجھتے ہیں، درختوں کی چوٹی تک جا پہنچتے ہیں، ہنر مند اور ذہین ہیں اور پھر ظلم اور اکڑ بازی تو کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ جانور ایسا رہنما چاہتے ہیں جو ظالم نہ ہو اور بندروں سے آج تک کسی نے بدی نہیں دیکھی۔ پھر یہ بھی کہ بندروں کی جماعت نے آپ کا بیک آواز اور پورے اتفاق سے انتخاب کیا ہے اور اب وہ جنگل کے میدان میں جشن منا رہے ہیں۔ انہوں نے میرے ذمے یہ کام لگایا کہ آپ کو اس خوش خری سے آگاہ کروں اور التجا کروں کہ آپ جلد از جلد تشریف لے چلیں تا کہ حکومت کے کاروبار کو ترتیب دیا جاسکے۔ آخر یہ کون سی اچھی بات ہے کہ آپ ذمہ داری قبول کرنے سے بچیں؟ آپ کو ایثار سے کام لینا ہوگا، خدمت کرنا ہوگی۔ سب حاضرین آپ کے منتظر ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آئیے چلیں۔
بندر کو ابھی تک ان باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں حکومت کا لالچ پیدا ہوگیا تھا۔ چنانچہ وہ بولا: کیا کہوں، مجھے نہیں معلوم۔
لومڑی بولی: بس کام ہوگیا۔ ان لمحوں کو غنیمت جانیے، جلدی کیجیے، آئیے چلیں۔
بندر جو اس صورتِ حال سے خوش تھا، درخت سے نیچے اُترا اور لومڑی کے ہمراہ چل پڑا۔ وہ جس رستے سے آئے تھے، اُسی طرف چل دیے۔ لیکن بندر ابھی تک شک کا شکار تھا گویا اسے لومڑی کی باتوں پر یقین نہ تھا۔ چالاک لومڑی نے بندر کو مزید سوچنے کی فرصت نہ دی۔ وہ باتیں کرتی جاتی تھی، بادشاہت اور حکومت کے بارے میں اظہار خیال کرتی جاتی تھی اور بندر کو نصیحت کرتی جاتی تھی کہ بادشاہت قبول کرنے کے بعد وہ ہمیشہ عدل و انصاف کو پیش نظر رکھے اور شیر کے ظلم و ستم کی تلافی کرے تا کہ اس کے عدل اور انصاف کے سایے تلے تمام جانور اللہ کا شکر بجا لائیں اور سُکھ کا سانس لیں۔ بس وہ اسی طرح چلتے گئے، چلتے گئے اور لومڑی مسلسل بولتی گئی اور جب وہ اس جگہ کے قریب پہنچنے لگے جہاں مچھلی پڑی تھی، لومڑی نے اپنی باتوں کے آخر میں کہا: میں ہمیشہ پیش گوئی کی قائل ہوں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فال اور پیش گوئی وغیرہ قصہ کہانی اور وہم پرستی ہے لیکن میں ے اپنے باپ سے سنا ہے کہ پیش گوئی سچ ہے۔ میرے والد مرحوم ہر چیز سے واقف تھے۔ ان کے منہ سے کبھی نہ سنا کہ وہ فلاں بات نہیں جانتے۔ وہ اگر کوئی بات کہتے اور دوسرا اس پہ یقین نہ کرتا اور دلیل طلب کرتا تو انہیں بڑا رنج ہوتا۔ اس ضمن میں خود میرا تجربہ بھی یہ ہے کہ جب کبھی میں نے تہ دل سے نیت کی اور اپنے سارے حواس قائم رکھے تو کوئی ایسی صورت پیش آئی کہ پیش گوئی کا اچھا بُرا معلوم ہوگیا۔ یہ کتنا اچھا ہو کہ اب اس کام کے بارے میں ہم فال لینے کا ارادہ کریں۔ ہم یہ طے کریں کہ اگر ہمارے رستے میں کھانے کی کوئی عمدہ چیز نظر آجائے تو اسے نیک فال سمجھیں اور اگر کوئی چیر پھاڑ کرنے والا جانور نظر آئے تو اسے بری فال سمجھیں۔ اُس وقت آپ بھی اس فال کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کریں۔
بندر بولا: مجھے کچھ نہیں معلوم۔ شاید تمہیں زیادہ علم ہے۔ کہتے ہیں کہ لومڑیاں بڑی ہوش مند اور دانا ہوتی ہیں۔ اب وہ اس بساط کے قریب آگئے تھے جہاں مچھلی پڑی تھی۔ لومڑی خوش ہو کر چلائی: واہ واہ! ہماری فال اچھی نکلی۔ یہ ہے اس کی نشانی…مچھلی… ایک ترو تازہ مچھلی، خشک اور چٹیل بیابان میں! سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری فال کا حال خوب ہے۔ اب اے عزیز بندر آپ کو اس مزیدار خوراک سے لذت لینی چاہیے اور آنے والے حالات سے مطمئن اور خوش ہوجانا چاہیے۔
بندر کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور وہ ہنستے ہوئے لومڑی سے گویا ہوا: سچ کہا تم نے۔ لیکن میری درخواست ہے کہ پہلے تم بسم اللہ کرو۔ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور خدا جو نعمت دے اسے مل کر کھائیں۔
لومڑی بولی: یہ ناممکن ہے، سخت مشکل ہے کہ میں ایسی جسارت کروں۔ یہ خوراک آپ کا حق ہے۔ میں اسی میں خوش ہوں کہ میری فال پوری ہوئی۔ ہم تو آپ کے نمک خوار ہیں۔ میری التجا ہے کہ آپ اس لذیذ مچھلی کی طرف متوجہ ہوں اور پھر ہم آگے چلیں۔ تمام جانور ہمارے انتظار میں ہیں۔
بندر کی بھوک چمک اُٹھی تھی۔ وہ فوراً مچھلی کی طرف لپکا۔ اس نے ہاتھ بڑھایا کہ مچھلی کو اُچک لے لیکن ابھی اس کا ہاتھ مچھلی تک نہ پہنچا تھا کہ لکڑی اور پھندے نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور بندر کے ہاتھ پائوں جکڑے گئے اور جیسا کہ لومڑی نے قیاس کر رکھا تھا، وہ جال میں پھنس گیا۔
اب لومڑی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ جال اپنا کام کرچکا تھا۔ شکاری بھی ابھی نظر نہیں آرہا تھا۔ لومڑی نے اس موقع کو غنیمت جانا۔ وہ مچھلی کے قریب آئی، اسے اُچک لیا اور کھانا شروع کردیا۔
بندر ابھی تک نہ سمجھ پایا تھا کہ یہ ساری میٹھی میٹھی باتیں اسی مچھلی کی خاطر تھیں، وہ لومڑی سے گویا ہوا: یہ کیا ہوا؟ میں کیسے جال میں آ پھنسا اور تو ہے کہ مزے اُرا رہی ہے؟
لومڑی بولی: ہاں ہاں! ہر کسی کو اپنے عمل کا حساب کرنا چاہیے۔ بادشاہت کا نتیجہ کبھی کبھی یوں بھی نکلتا ہے۔ تم جال میں پھنس گئے کیونکہ تم نے مچھلی دیکھی مگر جال نہ دیکھا۔ میں اس مچھلی کو کھا کھا کر مزے لے رہی ہوں کیونکہ میں ہر کام میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھتی ہوں اور آنکھیں کھول کر چلتی ہوں۔ لو، میں چلی۔

حصہ