شاہنواز فاروقی کے شعری مجموعے “طواف عشق”کی تقریب پزیرائی

404

جمعیت الفلاح کراچی کے تعاون سے بزم یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام شاہ نوازفاروقی کے دوسرے شعری مجموعے ’’طوافِ عشق‘‘ کی تقریب پزیرائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی مجلسِ صدارت میں سعیدالظفر صدیقی اور ڈاکٹر اسامہ رضی شامل تھے۔ رونق حیات اور رفیع الدین راز مہمانان خصوصی تھے۔ نظر فاطمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے پروگرام کا آغاز تلاوت کلامِ پاک اور نعت رسولؐ سے ہوا‘ جس کی سعادت حافظ نعمان طاہر نے حاصل کی۔ اس موقع پر رانا خالد محمود نے شاہ نواز فاروقی کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاہ نواز فاروقی اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک بلند آہنگ رکھتے ہیں اور جرأت اظہار بھی انہوں نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو خوب صورتی سے پیش کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سچے اور کھرے صحافی کی حیثیت سے ابلاغِ عامہ میں اپنی شناخت قائم ہوئے ہیں‘ ان کی شاعری میں داخلیت کا عنصر نمایاں ہے گو کہ خارجیت کا مضمون بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ ان کی شاعری میں کوئی مبالغہ آرائی‘ تصنع یا ثقیل انداز نہیں ملتا۔ شاہ نواز فاروقی نے حزن و ملال یاسیت اور ناامیدی کو اپنے کلام میں حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ وہ مصائب وسائل سے نبرد آزما ہونے کا درس دیتے ہیں کہ زندگی کا نام جہد مسلسل ہے۔
سلمان صدیقی نے کہا کہ شاہ نواز فاروقی ایک ایسے پاکستانی دانش ور ہیں جن کا مشن پاکستان کے شاندار اسلامی ورثے کو نئے سرے سے اجاگر کرنا ہے جسے اکثر پاکستانی فراموش کر چکے ہیں۔ ’’کتابِ دل‘‘ فاروقی صاحب کا پہلا شعری مجموعہ تھا۔ جس نے شاعری کے عام قاری کے ساتھ خاص قارئین کو بھی چونکایا اور وہ ادبی حلقوں میں موضوع بحث رہا اور اب فاروقی صاحب کا تازہ شعری مجموعہ ’’طوافِ عشق‘‘ پیش نظر ہے۔ غزلوں اور نظموں سے مزین‘ مقطع کی خود نمائی سے پاک اس مجموعے میں احساس کی انتہائی گہری سطح‘ ایک غیر محسوس خود کلامی کے انداز میں موجود ہیں۔ روّیوں‘ معاملات اور ان کہی باتوں کا ادراک رکھنے والے شاہ نواز فاروقی ایسی صورت حال کا شعور اور انہیں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں عام آدمی سمجھتا تو ہے مگر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ایک سنجیدہ‘ کم گو اور اپنی ذات میں گم شاعر ایثار کے جذبے سے پُر ہے۔ محبت میں لوگ صلہ مانگتے ہیں مگر شاہ نواز فاروقی اپنی سرشت کے عین مطابق محبت میں بھی صلہ کی طلب سے بے نیاز ہیں۔
اس مجموعے میں آزاد نظمیں بھی شامل ہیں اور یہ نظمیں شاعر کی طرف سے اصناف سخن کے لیے دل کشادہ رکھنے کا اظہار ہے۔ ان کی نظموں میں ایک دھیما پن‘ ایک نرمی ہے۔ جذبوں کی تہہ داری کا بیان بلند آہنگ نہیں ہے۔ خیال کے فکری بہائو میں دانش کا عنصر لطیف جذبوں میں گندھا ہوا ہے۔ نظم ’’سلسلے‘‘، ’’پرواز‘‘، ’’کیوں‘‘ اور ’’جیب خالی ہے‘‘ خوب صورت نظمیں ہیں۔ کچھ مختصر نظمیں بھی اس مجموعے کا حصہ ہیں جو موضوعاتی تنوع کی حامل ہیں اور سوال اٹھاتی ہیں۔ خیال کی پرتیں تہہ در تہہ زندگی کا فلسفہ اور اس کے مسائل کی مختلف جہات سامنے لاتی ہیں۔ سوچنے والا ذہن قاری آگے بڑھتے ہوئے رکتا ہے‘ اپنی علمیت کو بروئے کار لا کر غور کرتا‘ فکر کو مضمون سے ہم آہنگ کرتا اور موضوع کی کسی نئی جہت کو نظم کی سطروں میں پرویا ہوا پاتا۔ یہی شاہ نواز فاروقی کی نظموں کا اختصاص ہے۔
ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا کہ شاہ نواز فاروقی نے اپنی محنت و لگن سے ترقی کی ہے‘ انہوں نے صحافت اور شاعری میں اعتبار حاصل کیا وہ اپنے نصب العین پر قائم ہیں‘ وہ ہمہ جہت آدمی ہیں‘ ان کی شاعری میں فکری اساس نمایاں ہے وہ نثر میں شمشیر زن نظر آتے ہیں اور نظم میں ان کا انداز مختلف ہے۔ ان کی شاعری میں میرتقی میر اور اقبال کا لب و لہجہ نظر آتا ہے۔ صاحب صدر نے کہا کہ وہ شاہ نواز فاروقی کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں آج ہم انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں یہ ایک اچھی تقریب ہے۔
شاہ نواز فاروقی نے کہا کہ ہمیں اپنی زبان کو زندہ رکھنا ہے ہماری تہذیب ہماری زبان پر کھڑی ہے اگر زبان ختم ہو گئی تو ہماری ثقافت بھی ختم ہو جائے گی۔ اس موقع پر بزمِ یارانِ سخن کی جانب سے شاہ نواز فاروقی کو ’’لوحِ سپاس‘‘ پیش کی گئی۔ قمر محمد خان نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادارہ جمعیت الفلاح کراچی ہر ادبی تنظیم کے لیے حاضر ہے ہم اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
پروگرام کے دوسرے دور میں سعیدالظفر صدیقی‘ رفیع الدین راز‘ رونق حیات‘ ظہورالاسلام جاوید‘ محسن اسرار‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ سحر تاب رومانی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد‘ تنویر سخن‘ آئرین فرحت‘ شاہد اقبال‘ یاسمین یاس‘ رانا خالد محمود‘ سلمان عزمی‘ عارف شیخ‘ صفدر علی انشا‘ شاہین عروج‘ مہر جمالی‘ عشرت حبیب‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ نظر فاطمی‘ یحییٰ سرور چوہان نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ