غالب ،جدید شعرا کی ایک مجلس میں

1144

کنہیا لال کپور (۲۷ جون ۱۹۱۰ء تا مئی ۱۹۸۰ء)
اردو کے صاحب طرز ادیب، شگفتہ ادب کے نامور لکھاری ہیں۔ ۲۷ جون ۱۹۱۰ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) پاکستان میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول کمالیہ سے میٹرک ۱۹۲۸ء میں اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے ۱۹۳۴ء میں کیا۔ ڈی اے وی (DAV) کالج لاہور میں ۱۹۳۴ء سے ۱۹۴۷ء تک لیکچرار رہے۔ ۱۹۴۷ء میں بٹوارے کے بعد ڈی ایم کالج موگا (مشرقی پنجاب) میں لیکچرار رہے۔ فکاہیہ ادب کے نامور نثری لکھاری تھے۔ ان کی تصانیف میں سنگ و خشت، شیشہ و تیشہ، جنگ رباب، نوک نشتر، بال و پر، نرم و گرم، گرد کارواں، دلیل سحر اردو میں اور تل پھل پنجابی میں ہیں۔ فروری ۲۰۰۸ء میں دہلی کے معروف جریدے ’’ہم شہری‘‘ کے شمارے میں مرزا غالب کی برسی (پیدائش ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء) کے موقع پر کنہیا لال کپور کی ایک چلبلی تحریر ’’غالب جدید شعراء کی ایک مجلس میں‘‘ شائع ہوئی تھی اور جسارت کے خوش ذوق قارئین کی تفریح طبع کی خاطر اسے تدوین کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔
(دور جدید شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیل القدر شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م ن ارشدؔ، ہیراجیؔ ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما جیت ورما، عبدالحئی نگاہؔ وغیرہ وغیرہ۔ یکایک مرزا غالب داخل ہوتے ہیں ان کی شکل و صورت بعینہٖ وہی ہے جو مولانا حالیؔ نے ’’یاد گار غالب‘‘ میں بیان کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ’’دیوان غالب‘‘ کا ایک نسخہ ہے۔ تمام شعرا کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں)
غالب: حضرات میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے جنت میں دعوت نامہ بھیجا اور اس مجلس میں مدعو کیا۔ میری مدت سے آرزو تھی کہ دورجدید کے شعرا سے شرف نیاز حاصل کروں۔
ایک شاعر:۔ یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے وگرنہ
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
غالب: رہنے بھی دیجیے اس بے جا تعریف کو۔ من آنم کہ من دانم۔
دوسرا شاعر: تشریف رکھیے گا۔ کہیے جنت میں خوب گزرتی ہے۔ آپ تو فرمایا کرتے تھے؛ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن۔
غالب: (مسکراکر) بھئی جنت بھی خوب جگہ ہے۔ جب سے وہاں گیا ہوں۔ ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا۔
دوسرا شاعر:۔ تعجب! جنت میں تو آپ کو کافی فراغت ہے اور پھر ہر ایک چیز میسر ہے۔ پینے کو شراب، انتقام لینے کو پری زاد… اور اس پر فکر سے کوسوں دور کہ
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار
باوجود اس کے آپ کچھ نہیں لکھتے…
تیسرا شاعر: (بات کاٹ کر) سنائیے اقبالؔ کا کیا حال ہے۔ کیا وہی جو اس دنیا میں تھا۔ دن رات خدا سے لڑنا جھگڑنا۔ وہی پرانی بحث
مجھ کو نکما کردیا
اتنا تمہارے عشق نے
گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں
اٹھ کر بھی گرتا ہوں میں
غالب: (طنزاً) بہت خوب بھئی غضب کردیا
غیظ احمد غیظ: اور دوسرا مصرع اس طرح لکھا جاسکتا تھا۔
جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
سب کام کرسکتا تھا میں
اور دل میں میرے جوش تھا
اس وقت تھا میں آدمی
اور آدمی تھا کام کا
لیکن تمہارے عشق نے
مجھ کو نکما کردیا
غالب: واللہ۔ آپ نے کمال کردیا بھئی، اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔
م۔ ن۔ ارشد:۔ اب جدید شاعری کے امام ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ اپنا کلام سنائیں گے۔
ڈاکٹر خالص :۔ اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں۔ اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ اسلئے آپ اپنا کلام پہلے پڑھیے۔
م۔ ن۔ ارشد:۔ توبہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر آپ مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’بدلہ۔‘‘ عرض کیا ہے۔
آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
جس کے آغوش میں یوں ناچ رہے ہیں شعلے
جس طرح دور کسی دشت کی پنہائی میں
رقص کرتا ہو کوئی بھوت کہ جس کی آنکھیں
کرم شب تاب کی مانند چمک اٹھتی ہیں
ایسی تشبیہہ کی لذت سے مگر دور ہے تو
تو کہ اک اجنبی انجان سی عورت ہے جسے
رقص کرنے کے سوا اور نہیں کچھ آتا
دوپہر کو جو کبھی بیٹھے ہوئے دفتر میں
خودکشی کا مجھے یک لخت خیال آتا ہے
میں پکار اٹھتا ہوں یہ جینا بھی کوئی جینا ہے
اورچپ چاپ دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
تاکہ میں چوم ہی لوں عارض گلفام ترا
اور ارباب وطن کو یہ اشارہ کردوں
اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر
اور شب عیش گزر جانے پر
بہر جمع ورم و دام نکل جاتا ہے
ایک بوڑھے سے تھکے ماندے سے رہوار کے پاس
چھوڑ کر بستر سبخاب و سمور
(نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیراجی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں۔)
(حاضرین ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں۔)
غالب:۔ ارشد صاحب معاف کیجئے آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔
غیظ احمد غیظ:۔ یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے۔ مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم، اور ادراک سے بالا تر ہے۔
م۔ ن۔ ارشد:۔ مثلاً میرے ایک دوست کے اس شعر کو لیجئے۔
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے
اب بتائیے اس شعر کا کیا مطلب ہے؟
غالب:۔ (شعر کو دہرا کر) صاحب سچ تو یہ ہے کہ اگر چہ اس شعر میں سر اور پیر کے الفاظ شامل ہیں۔ مگر باوجود ان کے اس شعر کا نہ سر ہے نہ پیر۔
م۔ن۔ ارشد:۔ اجی چھوڑیے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں۔ مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ ڈاکٹر قربان حسین خالص سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام سنائیں۔
ڈاکٹر خالص :۔ میری نظم کا عنوان ہے، ’’عشق‘‘۔عرض کیا ہے۔
عشق کیا ہے؟
میں نے اک عاشق سے پوچھا۔
اس نے یوں رو کر کہا۔
عشق اک طوفان ہے
عشق اک سیلاب ہے
عشق ہے اک زلزلہ
شعلہ جوالہ… عشق ہے
اور عشق ہے پیغام موت
غالب:۔ بھئی یہ کیا مذاق ہے، نظم پڑھیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟
ڈاکٹر خالص:۔ (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم اور فرمایا تھا آپ نے
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں۔
غالب:۔ میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ کس قسم کی نظم ہے۔ نہ ترنم۔ نہ قافیہ۔ نہ ردیف۔
ڈاکٹر خالص:۔ مرزا صاحب۔ یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کئے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعت تخیل، تازگئی افکار اور ندرت فکر سے ہے۔
غالب:۔ رفعت تخیل، کیا خوب۔ کیا پرواز ہے
میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا
ڈاکٹر خالص:۔ (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔
غالب:۔ مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
رقیق احمد خوگر:۔ اس کی وجہ مغربی شعرا کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے جو زندگی کے دوسرے شعبو ں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ دور جدید کی روح انقلاب، کشمکش، تحقیق، تجسس، تعلی پرستی اور جد و جہد ہے۔ ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب و نیٹی فیر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے، قدیم شعرا بقول مولانا آزاد حسن و عشق کی حدود سے باہر نہ نکل سکے اور ہم جن میدانوں میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں نہ ان کی وسعت کی انتہا ہے اور نہ ان کے عجائب و لطائف کا شمار۔
غالب:۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔
م۔ن۔ ارشد:۔ خوگر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ایک نئی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوائی جہاز اور دھماکے سے پھٹنے والے بموں کی دنیا ہے۔ یہ بھوک، بے کاری انقلاب اور آزادی کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں رہ کر ہم اپنا وقت حسن و عشق، گل و بلبل شیریں فرہاد کے افسانوں میں ضائع نہیں کرسکتے۔ شاعری کے لئے اور بھی موضوع سخن ہیں جیسا کہ ہمارے ایک شاعر نے کہا
آج تک سرخ سیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی۔ اجداد پہ کیا گزری ہے
یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جس کا
یہ ہر اک سمت پر اسرار کڑی دیواریں
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے۔
راجہ عہد علی خاں: بہت خوب یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے، ایسے ہی مضامین میں سے ایک مضمون ’’ڈاک خانہ‘‘ ہے۔ جو میری اس نظم کا جو میں ابھی آپ کے سامنے پڑھوں گا، موضوع ہے۔
غالب:۔ ڈاک خانہ؟
راجہ عہد علی خاں:۔ مرزا اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے۔ سنیے عرض کیا ہے۔
ڈاک خانے کے ہے اندر آج اف کتنا ہجوم
ڈالنے کو خط کھڑے ہیں کس قدر اف آدمی
ان میں ہر اک کی تمنا ہے کہ وہ
ڈال کر جلدی سے خط یا پارسل
بھاگ کر دیکھے کہ اس کی سائیکل
ہے پڑی باہر جہاں رکھ کر اسے
ڈاک خانے میں ابھی آیا تھا وہ خط ڈالنے
جارہے ہیں خط چہار اطراف کو۔
ممبئی کو،مصرکو لندن کو کوہ قاف کو
دیکھنا، آئی ہے اک عورت لفافہ ڈالنے
کون کہتا ہے کہ اک عورت ہے یہ
یہ تو لڑکا ہے کسی کالج کا کہ

حصہ