الیکشن فتحیابی اور سوشل میڈیا

536

سماجی میڈیا بھی ہر گزرتے وقت کے ساتھ نئے نئے فیچرز متعارف کرا رہا ہے،معروف سماجی میڈیا پلیٹ فارم ’ٹوئٹر ‘کا حالیہ دنوں متعارف ہونے والا نیا فیچر ’ اسپیس‘ تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہاہے ۔ اسپیس کا فیچر لائیو نشر ہوتا ہے جو کہ صرف آڈیو کی سہولت دیتا ہے ۔ اسپیسز کے متعلق بتائی گئی تفصیل میں واضح کیا گیا تھا کہ یہ عمومی طور پر ٹوئیٹ میں کیے جانے والے تحریری یا تصویری یا ویڈیو پیغامات میں صارفین کواپنے فوری احساسات یا طویل پیگامات و گفتگو کو آوازوں کے ذریعے باہم مربوط کرنے کا موقع دیتا ہے ۔مطلب اسکو سادہ الفاظ میں ٹوئیٹ کی ایک گروپ کال فیچر یا آڈیو سیمینار و کانفرنس سے بھی سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیں۔ ٹوئٹر نے اسپیس فیچر کو ’بہترین طریقے سے ترتیب دی گئی موضوعاتی دعوت طعام‘ سے تشبیہہ دی ہے ، اور ایسی دعوت جس سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کےلیے لازم نہیں کہ آپ سبھی شرکا سے واقف ہوں۔ شروعمیں یہ فیچر کچھ صارفین کو مہیا کر کے انہیں موقع دیا گیا تھا کہ وہ اسپیس کے سیشن منعقد کریں ، جس میں ان کے فالوورز یا فالو نہ کرنے والے بھی ایک لنک کے ذریعہ ان آڈیو چیٹ رومز کا حصہ بن سکیں۔ پھر ٹوئٹر نے اسپیس استعمال کر سکنے والے افراد کی تعداد بڑھاتے ہوئے مزید اینڈرائڈ اور آئی او ایس صارفین کو اس تک رسائی مہیا کی ہے۔ اسپیس کا میزبان دو طریقوں سے اس فیچر کو استعمال کر سکتا ہے۔ اپنی ہوم ٹائم لائن پر رہتے ہوئے ٹوئٹر ایپ میں جمع کے نشان والے ’کمپوز‘ بٹن کو دبائے رکھیں، جن افراد کو اسپیس تک رسائی مہیا کی گئی ہے انہیں یہاں دیگر آپشنز کے ساتھ انتہائی بائیں جانب اسپیس کری ایٹ کرنے کا آپشن دکھائی دے گا۔سپیس کے میزبان کے پاس یہ آپشن ہو تا ہے کہ وہ اپنے سیشن کے لیے نام اور ڈسکرپشن شامل کر سکتا ہے۔ یہ تفصیل سپیس سیشن کی فعالیت کے دوران کسی بھی وقت تبدیل کی جا سکتی ہے۔اس میں میزبان سمیت اسپیس سیکشن میں 11 افراد شامل ہو کر لائیو آڈیو کے ذریعے گفتگو کر سکتےہیں۔ اسپیس کے شرکا کو ڈائریکٹ میسیجز (ڈی ایم) کے ذریعے لنک بھیج کر انوائٹ بھی کیا جا سکتا ہے، یا اسپیس کا لنک ٹویٹ کر کے یا کسی دوسرے پلیٹ فارم پر شیئر کرکے دوسروں کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔ اسپیس کے میزبان کو یہ اختیار بھی ہوتاہے کہ وہ سیشن کے دوران کسے بولنے کی اجازت دے۔ جن لوگوں کو وہ فالو کرتے ہیں یا پھر جن لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے وہ سبھی بول سکتے ہیں۔ اسپیس میں موجود سامعین بھی مائکروفون کے ساتھ دکھائی دینے والے ’ریکوئسٹ‘ کے بٹن پر کلک کرکے میزبان سے بولنے کی اجازت لےسکتا ہے۔ اسپیس کری ایٹ کرتے وقت میزبان کا مائک آف ہوتا ہے، جب میزبان گفتگو کےلیے تیار ہو تو ’سٹار یور اسپیس‘ کے بٹن پر کلک کرکے اپنا مائک آن کر سکتا ہے۔ ’الاؤ مائک ایسس‘ کے آپشن پر کلک کرکے میزبان گفتگو کےلیے منتخب کیے گئے افراد کو بولنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ اگر میزبان نے یا گفتگو کرنے والے نے کیپشنز آن کر رکھے ہوں تو سننے والے یہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ کیپشن کو آن یا آف کر سکیں۔ اس مقصد کےلیے انہیں ’ویو کیپشنز‘ کے بٹن پر کلک کرنا ہوگا۔ اسپیس کے میزبان کے پاس یہ آپشن ہو گا کہ وہ اپنے سیشن کےلیے نام اور ڈسکرپشن شامل کر سکے۔ یہ تفصیل اسپیس سیشن کی فعالیت کے دوران کسی بھی وقت تبدیل کی جا سکے گی۔
اس ہفتہ دو اہم دن تھے ، ایک تو11ستمبر جسے المعروف 9-11بھی کہتے ہیں، مطلب ٹوئن ٹاور کی 20ویں برسی ، اچھا اسی دن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کایوم وفات بھی ہوتا ہے ، جس کا قومی سطح پر اظہار تو نہیں ہوتا البتہ سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو 12ہزار ٹوئیٹس کے ٹرینڈ کی صورت خوب یاد دلایا۔امریکہ بہادر کی بہادری کے چرچے نائن الیون کی برسی کے تناظر میں خوب رہے ، کوئی پونے دو لاکھ ٹوئیٹس کرکے ایک جانب ٹوئن ٹاور کے مرنے والوں کو امریکی یاد کرتے رہے، دوسری جانب اس واقعہ کی آڑ میں امریکی جارحیت کے نتائج بھی یاد دلائے جاتے رہے ۔ افغانستان سے امریکی افواج کی ذلت آمیز واپسی ، قطر مذاکرات کی تصاویر کو لوگ نامعلوم ایمانی جذبہ کے ساتھ شیئر کرتے رہے۔اسی روز عظیم پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خرابی طبیعت کی اطلاع پر ان کی صحت کے لیے دعائیہ پوسٹیں کی گئیں۔
پیٹرول کی قیمتوں میں 15 دن بعد تبدیلی ہوتی ہے ، اس بار مذاق یہ ہواکہ اوگرا نے ایک روپیہ بڑھانے کی سمری وزیر اعظم کو بھیجی ، مگر وزیر اعظم نے5روپے بڑھا دیئے ۔مہنگائی کے اس بم نے ہر جانب ہلچل مچا دی ۔سارا دن مہنگائی کی پہچان عمران خان اور PTIPetrolBomb، کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں رہے، یہی نہیں قبول اسلام کی عجیب شرائط پر مبنی مجوزہ بل پر بھی خاصا شور مچایا گیا اور ٹوئٹر پر اسلام مخالف بل نامنظورکے ذیل میں عوام غصہ نکالتے رہے، اس ٹرینڈ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان، تحریک لبیک، اوریا مقبول جان ، مفتی تقی عثمانی کا سندھ اسمبلی بل سے متعلق فتویٰ بھی ابلاغی مواد کا حصہ رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی نے وفاق جیسا ہی بل پہلے منظور کر لیا تھا جس پر اسمبلی فلور پر جماعت اسلامی کے رکن سید عبد الرشید نے آواز بلند کی مگر وہ سارا شور انکی جانب سے شادی کی عمر والے مجوزہ بل پر مچنے والے شور میں دب گیا۔جواب میں حکومتی چہیتے وفاقی وزیر نور الحق قادری کا بیان چلاتے رہے کہ ابھی قانون وزارت مذہبی امور میں زیر غور ہے۔
2013 قومی و صوبائی الیکشن پھر اسکے بعد 2015بلدیاتی الیکشن اس کے بعد2018کے قومی و صوبائی الیکشن میں بتدریج سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار اور اثرات سب نے دیکھے،محسوس کیے اور نتائج بھی لیے۔یہ جس تحریک انصاف کی عوامی لہر کی بات کی جاتی رہی ، اس میں سوشل میڈیا کاہی اہم کردار نظر آیا، جس نے نفسیاتی طور پر عوام کی رائے عامہ بنائی ۔پاکستان ہی کیوں خود سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ بھی سر عام سوشل میڈیا کو اپنی فتح کا ٹول قرار دیتے رہے اور بعد ازاں شکست کے لیے بھی سوشل میڈیا کو ہی ذمہ دار قراردیا۔ملک بھر میں 12ستمبر کو 42کنٹونمنٹ بورڈ زکے الیکشن ہوئے ، یہ بنیادی طور پر افواج پاکستان کے ماتحت علاقے ہوتے ہیں ،اسکے لفظی معنی تو’چھاؤنی‘ مطلب فوج کی مستقل قیام گاہ ہوتا ہے ۔ یہ کنٹونمنٹ بورڈز ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ ڈیپارٹمنٹ ، وزارت دفاع ، حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ۔ چھاؤنیوں کو کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے تحت قائم کیا گیاتھا، قیامِ امن کی وجہ سے چھاؤنیوں کا آبادیاتی کردار بدل گیا ۔ اب کنٹونمنٹ میں اہم شہری آبادی اور بڑی حد تک نجی کاروبار شامل ہوچکا ہے۔ رہائش پذیر آبادی کو درپیش بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے انتخابی طریقہ کار وضع کرکے ایک نظام بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اسی ضمن میں امسال جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرائے گئے جو بنیادی طور پر ملک میں 2سال سے تعطل کا شکاربلدیاتی انتخابات کے قریب آنے کی جانب ایک اشارہ تھے۔
الیکشن مہم شروع ہوئی اور اِس بار اِس الیکشن مہم میں فعال کردار کراچی میں جماعت اسلامی کا بھی نظر آیا ۔ نتائج کے مطابق حکومتی پارٹی تحریک انصاف سیٹوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ کامیاب رہی ، لیکن ہم بات کر رہے ہیں سوشل میڈیا کی تو ہم نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کراچی اس بارنچلی سطح ، مطلب وارڈ کی سطح تک سوشل میڈیا پر خاصی محنت کرتی نظر آئی ۔جماعت اسلامی کراچی سوشل میڈیا ٹیم کے ٹوئٹر ہینڈلر علی حسین کے مطابق روزانہ کئی ہیش ٹیگز کو ٹرینڈ بنایا گیا، جن میں،Tarazu4CBE، VoteforTarazu, Karachi_NeedsWater, Vote_SirfTarazuKaTarazuChalegaKhiBanega، RevivalofTarazu،شامل تھے۔ یہ تمام ہیش ٹیگز ٹرینڈ کی صورت ہفتہ بھر لسٹ میں گردش کرتے رہے۔ان میں نہ صرف جماعت اسلامی اپنی ماضی کی کار کردگی بلکہ اپنے امیدواران کے تعارف ، حقوق کراچی مہمکے ساتھ ساتھ نت نئے آئیڈیاز کے ساتھ ویڈیوز، میمز اور پیغامات بھی ڈالتی رہی۔مستقل مواد کی ورائٹی کی وجہ سے ٹرینڈ خاصے مقبول ہوئے ۔ملیر اور فیصل کنٹونمنٹ میں اپنے امیدواران کے لیے سوشل میڈیا مہم چلانے والے اطہر بلال کا کہنا تھا کہ ’ سوشل میڈیا کے لیے خصوصی تیاری کی اور متعلقہ آبادی تک اپنے پیغامات کو پہنچانے کے لیے پوری منصوبہ بندی کی، کیونکہ اس مہم کا مقصد مخصوص افراد یعنی ووٹر تک پیغام پہنچانا تھا اس لیے سوشل میڈیا کے اس عالمی سمندر میں ہم نے صرف اپنے وارڈ کے لوگوں تک پہنچنے کی ہی منصوبہ بندی کی جسے اپنا پیغام دینا چاہتے تھے۔کم وقت میں نوجوانوں کی نئی ٹیم کو تیار کرنا ، انکو کام سمجھانا، ویڈیوز بنوانا، نئے آئیڈیاز سوچنا آسان نہیں تھا۔ امیدواران کے تعارف کے ساتھ ان کی سرگرمیوں کی ویڈیوز، تصاویر، خوبصورت ڈیزائننگ کے ساتھ پوسٹوں کو بنوانا اور پھر انکو واٹس ایپ گروپس کے ذریعہ متعلقہ وارڈ کے ووٹر تک پہنچانے کے لیے دن رات محنت کی گئی۔‘
امیر جماعت اسلامی ضلع ایئر پورٹ توفیق الدین صدیقی کےمطابق، ’انتخابات جیسی اہم مہم میں جماعت اسلامی جیسی تنظیم جسے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر دیگر حکومتی جماعتوں کی طرح کوریج نہیں ملتی ان کے لیے سوشل میڈیا ابلاغی ہتھیاروں میں اس وقت ایک کامیاب ہتھیار قرار دیا جاتا ہے۔12ستمبر کی رات جب الیکٹرانک میڈیا پر جماعت اسلامی کے نتائج کو کسی بھی وجہ سے نہیں دکھایا جاتا رہا تو ایسے میں ہماری سوشل میڈیا ٹیم نے گراؤنڈ پر کام کے ساتھ سوشل میڈیا پر ابلاغ کے ساتھ درست نتائج کو اس حد تک پھیلایا کہ ہم نے ملیر کنٹونمنٹ میں 2سیٹوں کے ساتھ ووٹوں کے اعتبار سے تیسری بڑی جماعت کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی،اس ابلاغی مہم کے نتیجے میں ہم نے اپنے ووٹر کو بھی اعتماد دیا کہ اس کا ووٹ ضائع نہیں ہوا بلکہ گنتی میں آیا ہے ۔‘
اسی طرح کلفٹن کنٹونمنٹ جس میں کراچی کا معروف پوش علاقہ ڈیفنس بھی شامل ہے ، وہاں بھی جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کو ووٹوں کی تعداد میں پیچھے کیا ۔اس بارے میں وہاں کے سوشل میڈیا مہم چلانے والے یاسر اسلم کا کہنا ہے کہ ’ ڈیفنس کلفٹن کے عوام کی رائے بدلنے میں اور جماعت اسلامی کا پیغام پہنچانے میں سوشل میڈیا کی مکمل مدد لی گئی۔ خصوصی پیج بنائے گئے ، دلائل پر مبنی کمنٹس کے ذریعہ کنوینسنگسے بھی کام چلایا،نعمت اللہ خان صاحب کی کار کردگی کو بھی پھیلایا، وائس آف ڈی ایچ اے میں پری پول سرگرمیاں بھی کی گئیں ۔اس میں حکمت عملی یہی رکھی گئی کہ واٹس ایپ گروپس اور علاقوں کے فیس بک گروپس میں پوسٹنگ اور ڈسکشن کے ذریعہ رائے عامہ ہموار کی جائے۔ وفاقی حکومت کے اقدامات مستقل عوام دشمنی خصوصاً کراچی دشمنی کااظہار کر رہے تھے ، جب 1100ارب کا حساب مانگا گیا تو سب نے دیکھا کہ اِس سادے سے سوال نے ہر جانب ہلچل مچا دی ۔ہم نے یہی سوچا تھا کہ بندہ گھر سے نکلے تو شہر میں بڑے بینر زکی صورت یہ سوال دیکھے گا، دفتر جائے گا تو کمپیوٹراسکرین پر بھی دیکھے گا، گھر پر بیٹھا ہوگا توفون پر بھی یہ اور اس جیسے کئی سوال بہرحال ہیمرنگ کرتے ہوئے اس کو سوچنے پر مجبور کریں گے ۔ کلفٹن کنٹونمنٹ میں 2سیٹیں جماعت اسلامی نے جیتیں جبکہ 2سیٹوں پر انتہائی معمولی فرق سےرنر اپ رہے جو کہ ہماری ابلاغی مہم کی بڑی کامیابی ہے۔‘
اب چلتے ہیں دیگر جماعتوں کی جانب تو حیرت انگیز طور پر اگر آپ ٹرینڈ لسٹ چیک کریں تو آپ دیکھیں گے کہ کنٹونمنٹ الیکشن کے سوشل میڈیا محاذ پر یا تو جماعت اسلامی واضح نظر آئے گی یا پھر تحریک لبیک۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اس حوالے سے مجموعی طور پر غائب رہیں۔ الیکشن سے تین دن قبل 9-11ستمبرتک کے اہم ترین ٹرینڈ اگر آپ ایک نظر دیکھیں تو آپ کو بھی یقین ہو جائے گا۔
کنٹونمنٹ شیر کا(62ہزار)، بلے پہ ٹھپہ(36ہزار)، کینٹ وی لبیک دا(580ہزار)، جیت کا نشان تیر(31ہزار) یہ 12ستمبر کے دن کے ٹرینڈ تھے ۔ان سے قبل تین دن تک جو ٹرینڈ چلتے رہے ان میں عوام پُکارے نوازشریف(92ہزار ٹوئیٹس)، الیکشن کمیشن پر حملہ نامنظور(13ہزار ٹوئیٹس)، ڈاکٹر عبد القدیر(10ہزار ٹوئیٹس)، رحیم اللہ یوسف زئی(10ہزار ٹوئیٹس)، ری شیڈول ڈیٹ شیٹس(39ہزار ٹوئیٹس)، کس سےمنصفی چاہیں(39ہزار ٹوئیٹس)، لبیک پروموشن (24ہزار)، ایلفی پاؤالیکشن کمیشن مکاؤ(10ہزار)، خاتم النبیین محمدﷺ(35ہزار)، اردوزبان(31ہزار) شامل تھے۔

حصہ