کلمۂ طیبہ کلمۂ خبیثہ

1391

برادرانَ سلام! پچھلے خطبے میں کلمہ طیبہ کے متعلق میں نے آپ سے کچھ کہا تھا۔ آج پھر اسی کلمے کی کچھ اور تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔ اس لیے کہ یہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے‘ اسی کے ذریعے سے آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے اور کوئی شخص حقیقت میں مسلمان بن نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کلمے کو پوری طرح سمجھ نہ لے اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق نہ بنا لے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مجید میں اس کلمے کی تعریف اس طرح فرمائی ہے:
ترجمہ: ’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت‘ جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں‘ ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں اور کلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے‘ اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت‘ دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔‘‘(ابراہیم24-27:14)
یعنی کلمۂ طیبہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اچھی ذات کا درخت ہو جس کی جڑیں زمین میں خوب جمی ہوئی اور جس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہوں اور جو ہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل پر پھل لائے چلا جاتا ہو… اس کے برعکس کلمۂ خبیثہ یعنی برا اعتقاد اور جھوٹا قول ایسا ہے جیسے ایک بد ذات خودرو پودا کہ وہ بس زمین کے اوپر ہی اوپر ہوتا ہے اور ایک اشارے میں جڑ چھوڑ دیتا ہے کیوں کہ اس کی جڑ گہری جمی ہوئی نہیں ہوتی۔
یہ ایسی بے نظیر مثال ہے کہ اگر تم اس پر غور کرو تو تمہیں اس سے بڑا سبق ملے گا۔ دیکھو! تمہارے سامنے دونوں قسم کے درختوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک تو یہ یہ آم کا درخت ہے‘کتنا گہرا جما ہوا ہے‘ کتنی بلندی تک اٹھاہواہے‘ کتنی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں‘ کتنے اچھے پھل اس میں لگتے ہیں‘ یہ بات اسے کیوں حاصل ہوئی؟ اس لیے کہ اس کی گھٹلی زوردار تھی‘ اس کو درخت بننے کا حق حاصل تھا اور وہ حق اتنا سچا تھا کہ جب اس نے اپنے حق کا دعویٰ کیا تو زمین نے‘ پانی نے‘ ہوا نے‘ دن کی گرمی اور رات کی ٹھنڈک نے‘ غرض ہر چیز نے اس کے حق کو تسلیم کیا اور اس نے جس سے جو کچھ مانگا ہر ایک نے اس کو دیا۔ اس طرح وہ اپنے حق کے زور سے اتنا بڑا درخت بن گیا اور اپنے میٹھے پھل دے کر اس نے ثابت بھی کر دیا کہ حقیقت میں وہ اسی قابل تھا کہ ایسا درخت بنے اور زمین و آسمان کی ساری قوتوں نے مل کر اگر اس کا ساتھ دیا تو کچھ بے جا نہیں کیا‘ بلکہ ان کو ایسا کرنا ہی چاہیے تھا‘ اس لیے کہ درختوں کو غذا دینے اور بڑھانے اور پکانے کی جو طاقت زمین اور پانی اور ہوا اور دوسری چیزوں کے پاس ہے وہ اسی کام کے لیے تو ہے کہ اچھی ذات والے درختوں کے کام آئے۔
اس کے مقابلے میں یہ جھاڑ جھنکار اور خودرو پودے ہیں۔ ان کی بساط ہی کیا ہے؟ ذرا سی جڑ‘ کہ ایک بچہ اکھاڑ لے‘ نرم اور بودے اتنے کہ ہوا کے ایک جھونکے سے مر جھا جائیں۔ ہاتھ لگائو تو کانٹے سے تمہاری خبر لیں۔ چکھو تو منہ کا مزا خراب کر دیں۔روز خدا جانے کتنے پیدا ہوتے ہیں اور کتنے اکھاڑے جاتے ہیں۔ ان کا یہ حال کیوں ہے؟ اس لیے کہ ان کے پاس حق کا وہ زورنہیں جو آم کے پاس ہے۔ جب اعلیٰ ذات کے درخت نہیں ہوتے تو زمین بے کار پڑے پڑے اکتا جاتی ہے اور ان پودوں کو اپنے اندر جگہ دے دیتی ہے۔ کچھ مدد پانی کر دیتا ہے۔ کچھ ہوا اپنے پاس سے سامان دے دیتی ہے‘ مگر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی ایسے پودوں کا حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے نہ زمین اپنے اندر ان کی جڑیں پھیلنے دیتی ہے نہ پانی ان کو دل کھول کر غذا دیتا ہے اور نہ ہو ا کھلے دل سے ان کو پروان چڑھاتی ہے۔ پھر جب اتنی سی بساط پر یہ خبیث پودے بدمزا‘ خاردار اور زہریلے بن کر اٹھتے ہیں تو واقع میں ثابت ہو جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی طاقتیں ایسے پودے اُگانے کے لیے نہیں تھیں۔ ان کو اتنی زندگی بھی ملی تو بہت ملی۔
ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھو اور پھر کلمۂ طیب اور کلمۂ خبیث کےفر ق پر غورکرو۔
کلمۂ طیب کیا ہے؟
کلمہ طیب کیا ہے‘ ایک سچی بات ہے۔ ایسی سچی بات کہ دنیا میں اس سے زیادہ سچی بات کوئی ہو نہیں سکتی۔ سارے جہان کا خدا ایک اللہ ہے۔ اس چیز پر زمین اور آسمان کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے۔ یہ انسان‘ یہ جانور‘ یہ درخت‘ یہ پتھر‘ یہ ریت کے ذرّے‘ یہ بہتی ہوئی نہر‘ یہ چمکتا ہوا سورج‘ یہ ساری چیزیں جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں‘ ان میںسے کون سی چیز ہے جس کو اللہ کے سوا کسی اور نے پیدا کیا ہو؟ جو اللہ کے سوا کسی اور کی مہربانی سے زندہ اور قائم رہ سکے؟ جس کو اللہ کے سوا کوئی اور فنا کر سکتا ہو؟ پس جب یہ سارا جہان اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور اللہ ہی کی عنایت سے قائم ہے اور اللہ ہی اس کا مالک اور حاکم ہے‘ تو جس وقت تم کہو گے کہ ’’اس جہان میں اس ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی نہیں ہے‘‘ تو زمین و آسمان کی ایک ایک چیز پکارے گی کہ تو نے بالکل سچی بات کہی۔ ہم سب تیرے اس قول کی صداقت پر گوا ہیں۔ جب تم اس کے آگے سر جھکائو گے تو کائنات کی ہر چیز تمہارے ساتھ جھک جائے گی‘ کیوں کہ یہ ساری چیزیں بھی اسی کی عبادت گزارہیں۔ جب تم اس کے فرمان کی پیروی کرو گے تو زمین و آسمان کی ہر چیز تمہارا ساتھ دے گی‘ کیوں کہ یہ سب بھی تو اسی خدا کے فرماں برار ہیں۔ جب تم اس کی راہ میں چلو گے تو تم اکیلے نہ ہوگے بلکہ کائنات کا بے شمار لشکر تمہارے ساتھ چلے گا کیوں کہ آسمان کے سورج سے لے کر زمین کے ایک حقیر ذرّے تک و ہ چیز ہر آن اسی کی راہ میں تو چل رہی ہے۔ جب تم اس پر بھروسا کرو گے تو کسی چھوٹی طاقت پر بھروسہ نہ کرو گے بہلکہ اس عظیم الشان طاقت پر بھروسہ کرو گے جو زمین اور آسمان کے سارے خزانوں کا مالک ہے۔ غرض اس حقیقت پر جب تم نظر رکھو گے تو تم کو معلوم ہوتا کہ کلمہ طیبہ پر ایمان لا کر جو انسان اپنی زندگی کو اسی کے مطابق بنا لے گا‘ زمین اور آسمان کی ساری طاقتیں اس کا ساتھ دیں گی۔ دنیا سے لے کر آخرت تک وہ پھلتا اور پھولتا ہی چلا جائے گا اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ناکامی و نامرادی اس کے پاس نہ آئے گی۔ یہی چیز اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ کلمہ ایسا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں اور ہر وقت یہ خدا کے حکم سے پھل لاتا رہتا ہے۔
کلمۂ خبیث کیا ہے؟
اس کے مقابلے میں کلمۂ خبیث کو دیکھو۔ کلمۂ خبیث کیا چیز ہے؟ یہ کہ اس جہان کا کوئی خدا انہیں یا یہ کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی بھی ہے۔
غور کرو! اس سے بڑھ کر جھوٹی اور بے اصل بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ زمین اور آسمان کی کون سی چیز اس پر گواہی دیتی ہے؟ دہریہ کہتا ہے کہ خد انہیں ہے‘ زمین اور آسمان کی ہر چیز کہتی ہے تو جھوٹا ہے۔ ہم کو اور تجھ کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے اور اسی خدا نے تجھ کو وہ زبان دی ہے جس سے تو یہ جھوٹ بک رہا ہے۔ مشرک کہتا ہے کہ خدائی میں دوسرے بھی اللہ کے شریک ہیں‘ دوسرے بھی رازق ہیں‘ دوسرے بھی مالک ہیں‘ دوسرے بھی قسمتیں بناتے اور بگاڑتے ہیں‘ دوسرے بھی فائدہ اور نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں‘ دوسرے بھی دعائیں سننے و الے ہیں‘ دوسرے بھی مرادیں پوری کرنے والے ہیں‘ دوسرے بھی ڈرنے کے لائق ہیں‘ دوسرے بھی بھروسہ کرنے کے قابل ہین‘ اس خدائی میں دوسروں کا حکم بھی چلتا ہے اور خدا کے سوا دوسروں کا فرمان اور قانون بھی پیروی کے لائق ہے۔
اس کے جواب میں زمین و آسمان کی ہر چیز کہتی ہے کہ تو بالکل جھوٹا ہے۔ ہر ہر بات جو تو کہہ رہا ہے یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ اب غور کرو کہ یہ کلمہ جو شخص اختیار کرے گا اور اس کے مطابق جو شخص زندگی بسر کرے گا‘ دنیا اور آخرت میں وہ کیوں کر پھل پھول سکتا ہے؟ اللہ نے اپنی مہربانی سے ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے اور رزق کا وعدہ ان سے کیا ہے‘ اس لیے زمین اور آسمان کی طاقتیں کسی نہ کسی طرح اس کو بھی پرورش کریں گی جس طرح وہ جھاڑ جھنکار اور خودرو پودوںکو بھی آخری پرورش کرتی ہی ہیں۔ لیکن کائنات کی کوئی چیز بھی اس کا حق سمجھ کر اس ساتھ نہ دے گی اور نہ پوری طاقت کے ساتھ اس کی مدد ہی کرے گی۔ وہ انہی خودرو درختوں کی طرح ہو گا جن کی مثال ابھی آپ کی سامنے بیان ہوئی ہے۔
نتائج کا فرق:
یہی فرق دونوں کے پھلوں میں ہے۔ کلمہ طیب جب کبھی پھلے گا اس سے میٹھے اور مفید پھل ہی پیدا ہوں گے۔ دنیا میں اس سے امن قائم ہوگا۔ نیکی اور سچائی اور انصاف کا بول بالا ہوگا اور خلقِ خدا اس سے فائدہ ہی اٹھائے گی‘ مگر کلمۂ خبیث کی جتنی پرورش ہوگی اس سے خاردار شاخیں ہی نکلیں گی۔ اس میں کڑوے کسیلے ہی پھل آئیں گے۔ اس کی رگ رگ میں زہر ہی بھرا ہوگا۔ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو‘ جہاں کفر اور شرک اور دہریت کا زور ہے وہاں کیا ہورہا ہے؟ آدمی کو آدمی پھاڑ کھانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آبادیوں کی آبادیاں تباہ کرنے کے سامان ہو رہے ہیں‘ زہریلی گیسیں بھری ہیں۔ ایک قوم دوسروں قوم کو برباد کر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ جو طاقت ور ہے وہ کمزوروں کو غلام بناتا ہی‘ صرف اس لیے کہ اس کے حصے کی روٹی خود چھین کر کھا جائے اور جو کمزور ہے وہ فوج اور پولیس اور جیل اور پھانسی کے زور سے دب کر رہنے اور طاقتور کا ظلم سہنے پر مجبور ہو جاتاہے۔ پھر ان قوموں کی اندرونی حالت کیا ہے؟ اخلاق بد سے بد تر ہیں جن پر شیطان بھی شرمائے۔ انسان وہ کام کر رہا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے۔ مائیں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے ہلاک کرتی ہیں کہ کہیں یہ بچے ان کے عیش میں خلل نہ ڈال دیں۔ شوہر اپنی بیویوں کو خود غیروں کی بغل میں دیتے ہیں‘ تاکہ ان کی بیویاں ان کی بغل میں آئیں۔ ننگوں کے کلب بنائے جاتے ہیں جن میں مرد اور عورت جانوروں کی طرح برہنہ ایک دوسرے کے سامنے پھرتے ہیں۔ امیر سود کے ذریعے سے غریبوں کا خون چوسے لیتے ہیں اور مال دار ناداروں سے اس طرح خدمت لیتے ہیں کہ گویا وہ ان کے غلام ہیں اور صرف ان کی خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ غرض اس کلمۂ خبیث سے جو پودا بھی جہاں پیدا ہوا ہے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے اور جو پھل بھی اس میں لگتا ہے کڑوا اور زہریلا ہی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں مثالوں کو بیان فرمانے کے بعد آخرمیں فرماتا ہے کہ:
’’کلمۂ طیب پر جو لوگ ایمان لائیں گے اللہ ان کو ایک مضبوط قول کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں ثابت او ر جمائو بخشے گا اور ان کے مقابلے میں وہ ظالم لوگ جو کلمۂ خبیث کو مانیں گے اللہ ان کی ساری کوششوں کو بھٹکا دے گا‘ وہ کبھی کوئی سیدھا کام نہ کریں گے جس سے دنیایا آخرت میں کوئی اچھا پھل پیدا ہو۔‘‘(ابراہیم 27:14)
کلمہ گو خوار کیوں؟
بھائیو! کلمۂ طیبہ اور کلمۂ خبیثہ کا فرق اور دونوں کے نتیجے تم نے سن لیے۔ اب تم یہ سوال ضرور کرو گے کہ ہم تو کلمۂ طیبہ کے ماننے والے ہیں‘ پھر کیا بات ہے کہ ہم نہ پھلتے ہیں نہ پھولتے ہیں‘ اور کفار جو کلمۂ خبیثہ کے ماننے والے ہیں یہ کیوں پھل پھول رہے ہیں؟
اس کا جواب میرے ذمے ہے اور میں جواب دوں گا بشرطیکہ آپ میں سے کوئی میرے جواب پر برا نہ مانے‘ بلکہ اپنے دل سے پوچھے کہ میرا جواب و اقعی صحیح یا نہیں۔
اوّل تو آپ کا یہی کہنا غلط ہے کہ آپ کلمۂ طیبہ کو مانتے ہیں اور پھر بھی نہ پھلتے ہیں نہ پھولتے ہیں۔ کلمۂ طیبہ کو ماننے کے معنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے نہیں ہیں اس کے معنی دل سے ماننے کے ہیں اور اس طرح ماننے کے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی عقیدہ آپ کے دل میں نہ رہے اور اس کے خلاف کوئی کام آپ سے ہو نہ سکے۔
میرے بھائیو! خدارا مجھے بتائو! کیا تمہارا حقیقت میں یہی حال ہے؟ کیا سینکڑوں ایسے مشرکانہ اور کافرانہ خیالات تم میں نہیں پھیلی ہوئے ہیں جو کلمہ طیبہ کے بالکل خلاف ہیں؟ کیا مسلمان کا سر خدا کے سوا دوسروں کے آگے نہیں جھک رہا ہے؟ کیا مسلمان دوسروں سے خوف نہیں کرتا؟ کیا وہ دوسروں کی مدد پر بھروسہ نہیں کرتا؟ کیا وہ دوسروں کو رازق نہیں سمجھتا؟ کیا وہ خدا کے قانون کو چھوڑ کر دوسروں کے قانون کی خوشی خوشی پیروی نہیں کرتا؟ کیا اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے عدالتوں میں جاکر یہ صاف نہیں کہتے کہ ہم شرع کو نہیں مانتے بلکہ رسم و رواج کو مانتے ہیں؟ کیا تم میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جن کو دنیوی فائدوں کے لیے خدا کے قانون کی کسی دفعہ کو توڑنے میں ذرا تامل نہیں ہوتا؟ کیا تم میں وہ وہ لوگ موجود نہیں ہیں جن کو کفار کے غضب کا ڈر ہے‘ مگر خدا کے غضب کا ڈر نہیں؟ جو کفار کی نظر عنایت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں مگر خدا کی نطر عنایت حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے؟ جو کفار کی حکومت کو حکومت سمجھتے ہیںاور خدا کی حکومت کے متعلق انہیں کبھی یاد نہیں آتا کہ وہ بھی کہیں موجود ہے؟ خدارا سچ بتائو کیا یہ واقعہ نہیں ہے؟ اگر یہ واقعہ ہی تو پھر کس منہ سے تم کہتے ہو کہ ہم کلمہ طیبہ کو ماننے والے ہیں اور اس کے باوجود ہم نہ پھولتے ہیں نہ پھلتے ہیں۔ پہلے سچے دل سے ایمان تو لائو اور کلمۂ طیبہ کے مطابق زندگی اختیار تو رکو‘ پھر اگر وہ درخت نہ پیدا ہو جو زمین میں گہری جڑوں کے ساتھ جمنے والا اور آسمان تک چھا جانے والا ہے تو معاذ اللہ‘ معاذ اللہ‘ اپنے خدا کو جھوٹا سمجھ لینا کہ اس نے تمہیں غلط بات کا اطمینان دلایا۔
کیا کلمۂ خبیث کو ماننے والے پھل پھول ہے ہیں؟
پھر آپ کایہ کہنا بھی غلط ہے کہ جو کلمۂ خبیثہ کو مانتے ہیں وہ واقعی دنیا میں پھل پھول رہے ہیں۔ کلمۂ خبیثہ کو ماننے والے نہ کبھی پھولے پھلے ہیں نہ آج پھول پھل رہے ہیں۔ تم دولت کی کثرت‘ عیش و عشرت کے اسباب اور ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر سمجھتے ہو کہ وہ پھل پھول رہے ہیں‘ مگر ان کے دلوں سے پوچھو کہ کتنے ہیں جن کو اطمینانِ قلب میسر ہے؟ ان کی اوپر عیش کے سامان لدے ہوئے ہیں‘ مگر ان کے دلوں میں آگ کی بھٹیاں سلگ رہی ہیں جو ان کو کسی وقت چین نہیں لینے دیتیں۔ خدا کے قانون کی خلاف ورزی نے ان کے گھروںکو دوزخ بنا رکھا ہے۔ اخباروں میں دیکھو کہ یورپ اور امریکا میں خودکشی کاکتنا زور ہے۔ طلاق کسی کیسی کثرت ہے۔ نسلیں کس طرح گھٹ رہی ہیں اور گھٹائی جارہی ہیں۔ امراضِ خبیثہ نے کس طرح لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ مختلف طبقوںکے درمیان روٹی کے لیے کیسی سخت کشمکش برپا ہے۔ حسد اور بغض اور دشمنی نے کس طرح ایک ہی جنس کے آدمیوں کو آپس میں لڑا رکھا ہے۔ عیش پسندی نے لوگوں کے لیے زندگی کو کس قدر تلخ بنا دیا ہے‘ اور یہ بڑے بڑے عظیم الشان شہر جن کو دور سے دیکھ کر آدمی رشکِ جنت سمجھتا ہے‘ ان کے اندر لاکھوں انسان کس مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اسی کو پھلنا اور پھولنا کہتے ہیں؟ کیا یہی وہ جنت ہے جس پر تم رشک کی نگاہیں ڈالتے ہو؟
میرے بھائیو! یاد رکھو کہ خدا کا قول کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں کلمۂ طیبہ کے سوا اور کوئی کلمہ نہیں جس کی پیروی کرکے انسان کو دنیا میں راحت اور آخرت میں سرخ روئی حاصل ہو سکتے۔ تم جس طرح چاہو نظر دوڑا کر دیکھ لو‘ اس کے خلاف تم کو کہیں کوئی چیز نہ مل سکے گی۔ (جاری ہے)

حصہ