شعرو شاعری

652

افسر میرٹھی
آغاز ہوا ہے الفت کا اب دیکھیے کیا کیا ہونا ہے
یا ساری عمر کی راحت ہے یا ساری عمر کا رونا ہے
شاید تھا بیاضِ شب میں کہیں اکسیر کا نسخہ بھی کوئی
اے صبح یہ تیری جھولی ہے یا دنیا بھر کا سونا ہے
تدبیر کے ہاتھوں سے گویا تقدیر کا پردہ اٹھتا ہے
یا کچھ بھی نہیں یا سب کچھ ہے یا مٹی ہے یا سونا ہے
ٹوٹے جو یہ بندِ حیات کہیں اس شور و شر سے نجات ملے
مانا کہ وہ دنیا اے افسرؔ صرف ایک لحد کا کونا ہے
…٭…
حسرتؔ موہانی
دردِ دل کی انہیں خبر نہ ہوئی
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
کوششیں ہم نے کیں ہزار مگر
عشق میں ایک معتبر نہ ہوئی
کر چکے ہم کو بے گناہ شہید
آپ کی آنکھ پھر بھی تر نہ ہوئی
نارسا آہ عاشقاں وہ کہاں
دور ان سے جو بے اثر نہ ہوئی
آئی بجھنے کو اپنی شمعِ حیات
شبِ غم کی مگر سحر نہ ہوئی
شب تھے ہم گرم نالہ ہائے فراق
صبح اک آہ سرد سر نہ ہوئی
تم سے کیونکر وہ چھپ سکے حسرتؔ
نگۂ شوق پردہ در نہ ہوئی
…٭…
احمد ندیم قاسمی
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدّام قدیم
دھجیّاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی
دل میں وہ زخم کھلے ہیں کہ چمن کیا شے ہے
گھر میں بارات سی اتری ہوئی گل دانوں کی
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا یا ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی
تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی
ایک اک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
…٭…
امجد اسلام امجد
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ہجر کے دوراہے پر ایک پل نہ ٹھہرا وہ
راستے بدلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
آنکھ سے نہ ہٹنا تم آنکھ کے جھپکنے تک
آنکھ کے جھپکنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خشک بھی نہ ہو پائی روشنائی حرفوں کی
جانِ من مکرنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
فرد کی نہیں ہے یہ بات ہے قبیلے کی
گر کے پھر سنبھلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
درد کی کہانی کو عشق کے فسانے کو
داستان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
دستکیں بھی دینے پر در اگر نہ کھلتا ہو
سیڑھیاں اترنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خواہشیں پرندوں سے لاکھ ملتی جلتی ہوں
دوست پر نکلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
عمر بھر کی مہلت تو وقت ہے تعارف کا
زندگی سمجھنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنگ یوں تو ہوتے ہیں بادلوں کے اندر ہی
پر دھنک کے بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ان کی اور پھولوں کی ایک سی ردائیں ہیں
تتلیاں پکڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
زلزلے کی صورت میں عشق وار کرتا ہے
سوچنے سمجھنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
بھیڑ وقت لیتی ہے رہنما پرکھنے میں
کاروان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وش کا
حسن کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
مستقل نہیں امجدؔ یہ دھواں مقدر کا
لکڑیاں سلگنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
نظر فاطمیؔ
شاہ کے آگے نہ محتاط‘ اسے کیا کہیے
ہائے کیا شخص تھا سقراط‘ اسے کیا کہیے
ہم تو حیران و پریشاں ہیں تری محفل میں
ایک عالم بنا بقراط‘ اسے کیا کہیے
وید رزاقیِ قدرت پہ نہ لائے ایماں
اور کرتے رہے اسقاط‘ اسے کیا کہیے
واں بتدریج خوشی اور گھٹن یاں لیکن
غم کی بڑھتی گئی اقساط‘ اسے کیا کہیے
نذرِ قرطاس کیا جو بھی ہوا محفل میں
بائولا تھا کوئی خطاط‘ اسے کیا کہیے
کوئی جچتا ہی نہ تھا اس کے بدن پر ملبوس
سب ہی عاجز ہوئے خیاط‘ اسے کیا کہیے
عمر بھر جس نے کبھی گھر پر توجہ ہی نہ دی
ہے وہ شطرنج پہ تو محتاط‘ اسے کیا کہیے
ہائے مہنگائی نے یوں ڈیرہ جمایا ہے نظرؔ
مفلسی کی ہوئی افراط‘ اسے کیا کہیے
…٭…
اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
…٭…
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یادِ خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
…٭…
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
…٭…
بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے
…٭…

جون ایلیا
ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں
شکریہ مشورت کا چلتے ہیں
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں
ہے وہ جان اب ہر ایک محفل کی
ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
ہے اسے دور کا سفر در پیش
ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں
تم بنو رنگ تم بنو خوشبو
ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں
میں اسی طرح تو بہلتا ہوں
اور سب جس طرح بہلتے ہیں
ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی
چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں
…٭…

دلاور فگار
یا رب مرے نصیب میں اکل حلال ہو
کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو
لے کر برات کون سپر ہائی وے پہ جائے
ایسی بھی کیا خوشی کہ سڑک پر وصال ہو
جلدی میں منہ سے لفظ جمالو نکل گیا
کہنا یہ چاہتا تھا کہ تم مہ جمال ہو
عورت کو چاہئے کہ عدالت کا رخ کرے
جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو
اک بار ہم بھی راہنما بن کے دیکھ لیں
پھر اس کے بعد قوم کا جو کچھ بھی حال ہو
ہم تو کسی سے بھیک نہیں مانگتے فگارؔ
لیکن اگر فقیر کی صورت سوال ہو
…٭…
پاگل عادل آبادی
ادھر تو شہر کے گنجے میری تلاش میں ہیں
ادھر تمام لفنگے مری تلاش میں ہیں
میں ان کا مال غبن کرکے جب سے بیٹھا ہوں
یتیم خانے کے لونڈے مری تلاش میں ہیں
ملا ہے نسخہ جوانی پلٹ کا جب سے مجھے
تمہارے شہر کے بڈھے مری تلاش میں ہیں
میں جن کے واسطے جوتے چرا کے جیل گیا
وہ لے کے ہاتھ میں جوتے مری تلاش میں ہیں
دیا ہے نام کفن چور جب سے تم نے مجھے
پرانی قبروں کے مردے مری تلاش میں ہیں
پتے کی بات جو منہ سے نکل گئی پاگلؔ
تمام شہر کے پگلے مری تلاش میں ہیں
…٭…
پاپولر میرٹھی
اس مرتبہ بھی آئے ہیں نمبر ترے تو کم
رسوائیوں کا کیا مری دفتر بنے گا تو
بیٹے کے منہ پہ دے کے چپت باپ نے کہا
پھر فیل ہو گیا ہے منسٹر بنے گا تو
…٭…
مشرق ہار گیا
سلیم احمد
کپلنگؔ نے کہا تھا
مشرق مشرق ہے
اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا نا ممکن ہے
لیکن مغرب مشرق کے گھر آنگن میں آ پہونچا ہے
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدلؔ اور حافظؔ کے بجائے
شیکسپئیرؔ اور رلکےؔ کی باتیں کرتا ہوں
اخباروں میں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
مجھ کو چگی داڑھی والے اکبرؔ کی کھسیانی ہنسی پر
…..رحم آتا ہے
اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے)
مجذوب کی بڑ ہیں
وارثؔ شاہ اور بلھےؔ شاہ اور بابا فریدؔ؟
چلیے جانے دیجے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
مشرق ہار گیا ہے!
یہ بکسرؔ اور پلاسیؔ کی ہار نہیں ہے
ٹیپوؔ اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی جا سکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے
قبلہ خان تم ہار گئے ہو!
اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولوؔ
…..جیت گیا ہے
اکبر اعظم! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
اس کے کتے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہا بلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے
مشرق کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی!
میں سوچ رہا ہوں، سورج مشرق سے نکلا تھا
(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے
میں ہار گیا ہوں
میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
میں ہار گیا ہوں
میں نے اپنے آئینے پر کالک مل دی ہے
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کے لیے صدیاں بھی نا کافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپوؔ کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک غصہ دے دو
ایسی نفرت ایسا غصہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں
۔۔۔۔۔میں بھی!!

منتخب اشعار

باقی رہا نہ فرق زمین آسمان میں
اپنا قدم اٹھا لیں اگر درمیاں سے ہم
وزیر علی صبا لکھنؤی
…٭…
وصالِ یار کی خواہش میں اکثر
چراغِ شام سے پہلے جلا ہوں
عالم تاب تشنہ
…٭…
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
فردوس گیاوی
…٭…
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
داغ دہلوی
…٭…

عاطف جاوید عاطف
دِلِ بےتاب کو دھڑکن عنایت کیوں نہیں کرتے
محبت ہے تو پھر کھُل کے وضاحت کیوں نہیں کرتے
بڑا ہے شوق جھیلوں پر تمہیں جگنو پکڑنے کا
وہ آنکھیں خوبصورت ہیں سیاحت کیوں نہیں کرتے
کہاں ہے اب وہ گلیوں میں کھلونے بانٹنے والا
ہمارے دور کے بچے شرارت کیوں نہیں کرتے
دلوں میں نفرتیں بھر کے کدھر سے یار لاتے ہیں
مجھے لوگوں پہ حیرت ہے محبت کیوں نہیں کرتے
سکونِ قلب کی کیونکر دعا کرتے نہیں آکر
مریضِ مرضٍ وحشت کی عیادت کیوں نہیں کرتے
تمہاری سُرخ آنکھیں یہ بتاتی ہیں اناڑی ہو
الم میں مسکرانے کی ریاضت کیوں نہیں کرتے
…٭…

اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
…٭…
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
…٭…
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…

ابھی منزل نہیں آئ،ابھی یہ جنگ جاری ہےوہ دنیابھی ہماری تھی،یہ دنیا بھی ہماری ہے !شہیدوں کے لہو سے بام و در روشن ہوئے،آخرعزیمت کی کہانی ہے، جنوں ہے ،جاں نثاری ہے!الجھنے اور الجھانے کی دل میں رہ گئ حسرتعدو حیران ہے کیونکر ،خدا کی چال بھاری ہے !زمانہ پتھروں کو چوم کر آگے نکل آیا !سفر تو زندگی کی شاہراہوں پر ہی جاری ہے !*ڈاکٹر محمد اورنگزیب رہبر

حصہ