خطابت کا فن (دو سرا اور آخری حصہ)

452

’’تقریر کا ایک کمال ’’وقفہ ‘‘ بھی ہے ‘‘
دوران خطابت’’وقفہ‘‘ دیں تاکہ آپ کا سامع لمحہ بھر کو آپ کی بات پر غور کرسکے۔ آپ کی آواز کو اپنے کانوں سے دل کی بستی اور ذہن کے ایوان تک پہنچا سکے۔ خود کو اس پر آمادہ کرسکے۔ ایک بھر پور وقفہ دیں۔ ایک بامعنی ٹھہرائو کی جگہ بنائیں۔ یاد رہے دانش مندی‘ ٹھہرائو میں ملتی ہے۔ بگٹٹ، حواس باختہ رفتار میں نہیں اور بے خیالی میں اپنے ہی پیدا کردہ وقفہ پر الفاظ کی اوس نہ انڈیلیں۔ وقفہ‘ تخلیقی گھڑی ساقیمتی ہوتا ہے۔ تخلیق ایک جادوئی لمحہ مانگتی ہے۔ہاں! اس دوران آپ اپنے چہرے کو پورے ایوان پر گردش دے سکتے ہیں۔ دعوتِ فکر دینے والی نگاہوں سے لوگوں سے رابطہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اقدام ِ علم کی تمنائوں میں روشن اپنی آنکھوں سے ان کے حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔ لیکن اپنے ہی ’’وقفہ‘‘ پر ٹوٹ نہ پڑیں۔اس پر آپ کا نہیں سامعین کا حق ہے۔
خطاب سے میں اگر یہ نکات نہ ہوں تو باتیں بکواس لگتی ہیں۔
-1 جوکبھی ایک قول، جملہ یا ایک مصرعہ کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔
-2 اس جملے کو بارہا تقریر میں دہرانا چاہیے۔ جیسے ’’تن درستی ہزار نعمت ہے‘‘۔ ’’حسنِ تدبیر سے جاگ اٹھتا ہے قوموں کا ضمیر‘‘۔
-3 یہ جملہ دلیلوں سے روشن ہوتا رہے۔ ورنہ دل کی بات دل میں رہ جائے گئی۔
تقریر کے ڈرامائی حسن کے علاوہ اس کا زیادہ ترحصہ ایک پُر اثر گفتگو کے آہنگ میں ہونا چاہیے۔ گفتگو کے بے ساختہ پن کا جادو تقریر میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کمال ہنر مندی سے بناوٹی زبان و بیان سے نکل آنا چاہیے۔ سوال بھی کرنا، وقفہ بھی دینا، دل سے دل کو جوڑنے والے جملے ادا کرنا ورنہ لوگ اوب جائیں گے۔
ان نکات کو ضرور شامل ِ خطاب رکھیں:
-1 تشبیہات کی تلاش و تخلیق : حسن تصور کی دنیا جس سے آباد ہوتی ہے اس میں ایک ہزار لفظ ایک تصویر کے برابر ہوتے ہیں اور ایک تمثیل و تشبیہ ہزار تصویروں کے برابر ہوگی۔
-2 منفرد انداز: کسی طور اپنا انفرادی انداز بنانا ہوگا۔ جو سب سے قدرے مختلف ہو۔
-3 تجسس ذہنی اڑانوں کو تھام لیتا ہے: سننے والوں کو آخر تک تجسس پر لگا ئے رکھنا اور پیاس بڑھائے رکھنا۔ ورنہ سننے والے اپنی الجھنوں میں کھوجائیں گے۔
-4 ’’سوال کو چھو کر جواب دینا‘‘۔ خود ہی ایک سوال تراشنا، ایک چھپی بات کے بند دروازے پردستک دینا پھر خود ہی کھل جا سم سم کہہ کر جواب کے خزانوں تک پہنچنا۔
-5 مثال دو اور آگے بڑھو: اسٹیج پر ورکشاپ یا چلتے ہوئے تقریر کرتے وقت کسی بات کی مثال دیتے ہوئے موضوع کو موڑنا، جوڑنا اور آگے بڑھ جانا۔ جیسے ’’مثلاً‘‘ کہنا اور کسی بھی بات، واقعہ کا ذکر چھیڑ دینا۔ اگر اسٹیج کی وسعت پر چلتے ہوئے کہنے کا موقع ہو تو جگہ کی تبدیلی کے لیے یہ حربہ ضرور برتنا۔ بامقصد پیش قدمی، بامعنی پیش رفت۔ جیسے مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ… (وغیرہ وغیرہ) موضوع کے اعتبار سے ایک نکتہ سجا دینا۔ اگر آپ کی تقریر کے تین اہم نکات ہیں تو اسٹیج کو تین حصوں میں تقسیم کرلیں۔ اسٹیج کے حصہ پر ذہنی طور پر خاص کرتے ہوئے۔ ایک حصہ پر ایک نکتہ پیش کریں اور الگ بات کے لیے جگہ بدل دیں۔ یہ حکمت صرف جگہ بدلنے کی نہیں بلکہ وقت، زمانہ اور موضوع بھی بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
-6’’دھنک کے سب رنگ اپنے فن میں شامل کریں‘‘ اپنی تقریر میں ذہانت، ذکاوت، مزاح، طنز ، ظرافت، تحیر میں ڈالنے والے نکات سے اپنی بات کو دھنک رنگ رکھنا۔
-7 ’’موضوعات کو انسانی کردار بنادیں ‘‘: مسائل ، موضوع اور مشکلوں کو کسی نہ کسی فرضی کردار میں ڈھال دینا۔ اس کا نام ہے برتنا۔ جیسے کاہلی پر تقریر پر ’’کاہل ِ اعظم ‘‘۔ یاد رہے کسی صفت کو کردار بنا کر کہنا ادب و روایات کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ حربہ بہت کارگر ہے۔ ہر بڑا ادیب اس کو برتتا ہے۔
-8’’فرضی موضوع کو حقیقت کا روپ رنگ دیں‘‘: سامعین میں سے اہم ترین لوگوں کا نام لے کر اپنے موضوع کو حقیقت بنانا۔
-9 ’’نگاہِ بے قابو پر گرفت‘‘: اپنی نگاہِ بے قابو پر گہری گرفت رکھنا۔ اپنی بات نظریں ملا کر ایک شخص سے کہنا لیکن دیکھنا سب کی طرف۔
-10’’عمومی اظہار کے بجائے خصوصی اصرار‘‘: کسی بات کو یادگار یا قابل ِ یقین بنانا ہوتا یوں نہ کہیں کہ وہ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ بلکہ یوں کہیں کہ اس وقت صبح کے 8 بج کر 7 منٹ ہو رہے تھے۔ تاکہ وقت کا جھول و اندازے پر شک کو راہ نہ دی جائے۔ اس سے یقین کی سطح بلند ہوجائے گی۔
-11 ’’چہرہ سطرسطرکتاب بن جائے‘‘: تقریر کے آخری مرحلے میں اہم ترین نکات کا انکشاف مقرر کے چہرے مہرے سے نکھر کر سامنے آئے۔
’’ جس کے سبب تقریر برباد ہو جائے گی۔ ان کمزوریوں سے ضرور بچیں‘‘
-1 ’’یکسانیت سے پناہ مانگنا‘‘: ایک رنگی طرز سے بچتے رہنا۔ یہ ایک ایسی اذیت ہے جس سے سامع آپ کو سن کر کوستا رہتا ہے۔
-2 ’’توجہ شکن حرکات سے بچ کر رہیں‘‘:یہ جرم آواز اور ہاتھ پیر کے حرکات سے سرزد ہوتا ہے۔ ایک ہی طرح ہاتھ اٹھانا یا ہاتھ کو واپس لانا وغیرہ۔
-3 تکیہ کلام : یہ ایک طرح کی عادت بلکہ وحشت ہے جیسے مویشی جگالی کرتے ہیں۔ اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ کو اندر سے نکال نکال کر چبا چبا کر بات کرنا۔ اس لت سے سننے والے کو ابکائی آتی ہے۔ یہ ایک ایسا چیونگم ہے جو آپ چباتے رہتے ہیں اور سننے والا آپ کے منہ کو دیکھتا رہتا ہے۔ جس کو لت پڑچکی ہے۔ وہ اپنے آپ پر محنت کریں ورنہ وہ ایک زبانی معذور کے طور پر جانے جائیں گے۔ اس لت کو کوشش سے اس کو دور کیا جاسکتا ہے۔
-5’’قلیل ہو اور دلیل ہو‘‘۔ تقریر کو توانائی بخشنے کے لیے اگر آپ نے کسی کہانی کا ذکر چھیڑ دیا ہو تو اس کہانی کو داستان نہ بنائیں بلکہ فوراً ہی اس کے مرکزی نکتہ تک جست لگائیں۔ بات وہی بہتر جو ’’قلیل ہو اور دلیل ہو‘‘کیوں کہ اختصار ہی اعتبار پاتا ہے۔ کہانی کے بیانیہ کو مختصر کرنے کے لیے آپ اس میں ڈرامائی کردار ڈال دیں۔ ان سے مکالمہ کروائیں۔ اس سے جزئیات سے نجات ملے گئی۔
-6 قہقہے مت روندیں: اگر آپ کی کسی بات پر محفل میں ہنسی کے غنچے چٹکے ہوں تو اپنی جلد باز طبعیت کے ہاتھی سے اسے مت روندھیں۔
-7 ’’خود ستائی مسخروں کا فن ہے ‘‘: خود کو اپنی کہانی کا ہیرو کم کم بنائیں۔ اپنی کامیابیوں کے ذکر میں اپنے مربی، طریقہ کار یا طرز زندگی کو اپنے شہرت و کامیابی کا ہیرو بنائیں۔ورنہ خود ستائی سے اپنا قد کاٹھ خود کٹتا ہے اور دنیا آپ پر ہنستی ہے۔ بلکہ یوں لوگوں کی دل کی بات کہیں کہ لوگ کہیں:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

حصہ