ہم کیوں مسلمان ہوئے

490

(یہ مضمون ماہ نامہ ’’الحق) اکوڑہ خٹک کے نومبر 1982ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اسے بشیر محمود اختر صاحب نے مرتب کیا ہے۔)
…٭…
مجھے ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں اپریل تا جولائی لندن میں قیام کا موقع ملا۔ ایک روز اسلامی کتابوں کی ایک دوکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک چھوٹی سی کتاب Islam my Religion (اسلام میرا دین) پر نظر پڑی۔ مصنف کا نام کیٹ اسٹیونز (Cat Stevens) لکھا تھا اور اندر کے صفحے پر وضاحت کی گئی تھی کہ یہ صاحب برطانیہ کے مشہور موسیقار اور پاپ سنگر رہے ہیں‘ اب مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں اور یوسف اسلام کے نام سے موسوم ہیں۔ میں نے یہ کتاب خرید لی اور اسے شوق سے پڑھا۔ یہ دراصل یوسف اسلام کا ایک انٹرویو تھا جو مارچ 1980ء میں لیا گیا تھا۔ آپ ملاحظہ کیجیے:
…٭…
سوال: میں پہلاسوال یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اسلام کے بارے میں معلومات کس ذریعے سے حاصل ہوئیں؟
جواب: اسلام کے بارے میں مجھے سب سے پہلے اپنے بھائی ڈیوڈ کے ذریعے معلومات حاصل ہوئیں۔ پانچ سال پہلے انہوں نے یروشلم کا سفر اختیار کیا تھا۔ وہاں انہوں نے جن مقدس مقامات کی زیارت کی ان میں ایک مسجد اقصیٰ بھی تھی۔ اس سے قبل وہ کبھی کسی مسجد کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے۔ یہاں کی فضا مسیحی گرجوں اور یہودیوں کے معبدوں سے اس قدر مختلف تھی کہ انہوں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ یہ دین (اسلام عیسائیت کی طرح پُراسرار کیوں ہے؟ وہ مسلمانوں کے رویے اور سکون بخش اندازِ عبادت سے بہت متاثر ہوئے۔ انگلستان واپس پہنچتے ہی انہوں نے قرآن حکیم کا ایک نسخہ خریدا اور لا کر مجھے دیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ میں رہنمائی کا محتاج تھا۔ الحمدللہ۔
سوال: جب آپ نے قرآن کا مطالعہ کیا تو آپ کو کس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
جواب: یہ اس پیغام کی دائمی نوعیت تھی۔ میں حیران تھا کہ الفاظ سب کے سب آشنا قسم کے تھے لیکن ہر اس چیز سے بے حد مختلف جس کا میں پہلے مطالعہ کر چکا تھا۔ اس مرحلی تک زندگی کا مقصد میرے لیے ایک سربستہ راز کی حیثیت رکھتا تھا۔ ہمیشہ مجھے اس بات پر یقین رہا کہ زندگی کی اس تصویر کشی کے پس پردہ ایک زبردست تخلیق کار کا ہاتھ ہے۔ لیکن وہ اَن دکھا تخلیق کار کون ہے؟ اس کا پتا نہ چلتا تھا۔ میں اس سے پیشتر بہت سے روحانی راستوں کی جادہ پیمائی کر چکا تھا لیکن تسکین کی پیاس کہیں نہیں بجھی۔ میں ایک ایسی نائو کی مانند تھا جو پتوار اور کھیون ہار کے بغیر چلی جارہی تھی اور جس کی کوئی منزلِ مقصود نہ تھی‘ لیکن جب میں نے قرآن کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے احساس ہواکہ میں اس کے لیے اور یہ میرے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ میں ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک اس کا بار بار مطالعہ کرتا رہا۔ اس دوران میری ملاقات کسی بھی مسلمان سے نہ ہوئی۔
میں قرآن کے پیغام میں پوری طرح مستغرق ہو چکا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب جلد ہی یا تو مجھے پوری طرح ایمان لانا ہوگا یا پھر اپنی راہ پر چلتے چلتے موسیقی کی دنیا میں کھوئے رہنا ہوگا۔ یہ میری زندگی کا سب سے مشکل اقدام تھا۔ ایک روز مجھے کسی نے بتایا کہ لندن میں ایک نئی مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ پس اب میرے لیے اپنا دین قبول کرنے کا وقت آپہنچا تھا۔ 1977ء کے موسم سرما کی بات ہے کہ ایک جمعہ کے روز میں مسجد کی طرف چل پڑا۔ نمازِ جمعہ کے بعد میں امام صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا کہ میں قبولِ اسلام کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مسلم برادری سے یہ میرا پہلا رابطہ تھا۔
سوال: اب آپ مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
جواب: میرا خیال ہے کہ بہت سارے مسلمان اپنا راستہ کھو بیٹھے ہیں کیوں کہ انہوں نے صحیح طور پر قرآن کا مطالعہ نہیں کیا۔ یہ تو علم کا جوہر ہے اور جو لوگ اسے سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لیے سچی ہدایت کا حامل ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اسلام اصل میں صرف ایک ہی ہے یعنی اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فرماں برداری۔ میرے نزدیک جنت کا یہی واحد محفوظ راستہ ہے۔ ہمیں سچ اور جھوٹ میں امتیاز کرنا چاہیے اس کے لیے ہمیں اپنے علم میں اضافہ کرنا چاہیے اور راہِ حق پر چلنے والوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کے خزانے کی بے شمار کنجیاں دنیا میں بکھیر کر اسے محفوظ فرما دیا ہے۔ ہم مسلمانوں کو صرف آپس میں قریب آنے کی ضرورت ہے تاکہ صحیح معنوں میں اسلام کی حقانیت کی زیادہ جامع تفسیر ہو سکے۔ تمام مسلمان ایک خدا‘ ایک قرآن اور ایک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہر فرد اپنی پسند کے مطابق اپنی راہ متعین کرتا ہے۔ آخرت میں ہر کوئی اپنے ہی اعمال کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔
سوال: آپ کی لیے یہ کس قدر دشوار ثابت ہوا ہوگا کہ اچانک ہی وہ بہت ساری باتیں ترک کردیں‘ جن کے آپ عادی ہو چکے تھے؟
جواب: یہ دشوار نہیں تھا کیوں کہ میں بہ خوبی جانتا تھا کہ ان برائیوں کو ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔ یہ برائیاں دراصل مجھے تباہ کر رہی تھیں۔ مثلاً شراب نوشی‘ سگریٹ نوشی اور سود خوری وغیرہ۔ لیکن اپنے پرانے دوستوں سے قطع تعلق کرنا میرے لیے سب سے زیادہ دشوار ثابت ہوا۔ میں یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ وہ لوگ پیغام اسلام کا فہم کیوں نہیں پیدا کر سکے۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہو سکا‘ میں ان سے دوستی نبھاتا چلا گیا لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب اپنے دین کی خاطر میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اپنے ماضی اور اسلام کے درمیان مجھے ایک خط کھینچنا ہوگا اس کے لیے مجھے کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ مثال کے طور پر شروع میں جب میں غیر مسلموں کے درمیان ہوتا تو ان سے معذرت طلب کرکے چپکے سے نماز کے لیے نکل جاتا۔ میں یہ نہ بتاتا کہ میں کہاں جا رہا ہوں کیوں کہ یہ ان کے لیے قدرے عجیب سی بات ہوتی۔ پھر ایک روز میں نے تہیہ کر لیا کہ اب میں سب کو بتا دوں گا کہ میں نماز کی ادائیگی کے لیے جا رہا ہوں۔ چنانچہ سب سے میرا نقطۂ نظر سمجھ لیا اور اس کے لیے وہ میری عزت کرنے لگے۔ جب آپ اپنی بات پر ڈٹ جائیں اور اپنا فرض ادا کرتے چلے جائیں تو اللہ اس میں آسانی فرما دیتا ہے۔ اس کے بعد کوئی خاص دشواری پیش نہیں آئی۔
سوال: آپ اپنے ماضی کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
جواب: میں پندرہ سال برس کا تھا جب مجھے موسیقی سے بہت دل چسپی پیدا ہو گئی۔ میرے والد میرے لیے ایک گٹار لے آئے اور میں نے اپنے گیت لکھنے کا آغاز کردیا۔ میں نے کیٹ اسٹیونز کا نام منتخب کیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں میرا پہلا ریکارڈ بہت مشہور ہوا۔ میں بہت کامیاب ہوا اور میرے گانوں کے ریکارڈ یورپ بھر میں فروخت ہونے لگے۔ لیکن یہ شو بزنس مجھے راس نہ آیا۔ ہر طرح کے عیش و آرام کے باوجود میرا سکون بھی چھن گیا‘ پریشانی اور بے خوابی میرا مقدر بن گئی۔ چنانچہ میں نے کثرت سے مے کشی اور سگریٹ نوشی شروع کردی لہٰذا میں دق کا مریض بن گیا۔ اس سے میرا ذریعۂ معاش ختم ہو گیا اور مجھے چند ماہ اسپتال میں رہنا پڑا۔ اس دوران میں نے مشرقی فلسفے کا مطالعہ شروع کیا۔ میرے پاس ایک کتاب تھی جس کا نام The Secret Path (خفیہ راستہ) تھا یہی کتاب روحانی معاملات سے میرا پہلا تعارف ثابت ہوئی۔ اسی کے ذریعے میں طمانیت و بصیرت کی تلاش کے لمبے سفر پر روانہ ہوا۔ اس سفر نے بالآخر مجھے اسلام کے دروازے پر پہنچا دیا۔ میں نے ایسے گیت لکھناشروع کیے جن میں اس روحانی بیداری کا اظہار ہوتا تھا۔ چنانچہ میرے یہ گیت میری سرگزشت بنتے چلے گئے۔
میں اکیس برس کا تھاجب مجھے عالمی سطح کی پہلی بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ میرے ان گیتوں کا سلسلہ Tea for Tiller Man کے نام سے مشہور ہوا اوراس طرح میرا شمار اعلیٰ درجے کے فن کاروں میں ہونے لگا۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک لحاظ سے میرے گانوں کے سلسلے میں میری اگلی منزل اور میرے سفر کے مختلف مراحل ثابت ہوئے۔
سوال: اس زمانے میں لوگ ساز و سنگیت کے متوالے ہو رہے ہیں حتیٰ کہ مسلمان بھی اس میں کھوئے جارہے ہیں‘ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: بدقسمتی سے آج کل لوگ اپنی ادنیٰ خواہشات کے مطابق چیزوں کی خریداری کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ریکارڈ فلمیں‘ ٹیپ‘ رسالے۔ ان میں سے اکثر پیسہ کمانے کی غرض سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ پاپ موسیقی سننا تو خواب دیکھنے کی طرح ہے۔ اس سے عارضی طور پر چین ملتا ہے۔ اس قسم کی موسیقی سننے والے عموماً حقیقت سے سفرار کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ موسیقی انہیں کچھ وقت کے لیے سکون پہنچتی ہے۔ یعنی یہ اس بے رحم نظام سے تھوڑی دیر کے لیے فرار ہے‘ جسے ہم ماڈرن زندگی کہتے ہیں۔
سوال: تو کیا آپ نے موسیقی سے قطع تعلق کر لیا ہے؟
جواب: میں نے موسیقی کے مشاغل ترک کر دیے ہیں۔ مجھے خطرہ تھا کہ یہ مشاغل مجھے صراطِ مستقیم سے بھٹکا نہ دیں۔ میرا یہ کہنا شاید بڑا بول نہ سمجھا جائے گا کہ میں اب کبھی موسیقی کا شغل اختیار نہیں کروںگا۔ لیکن اس کے ساتھ ان شاء اللہ کہے بغیر بات مکمل نہیں ہو سکتی۔
سوال: تو اب آپ کیا پیشہ اختیار کریںگے؟
جواب: میں دراصل صرف اللہ کا کام کر رہا ہوں۔ وہی میری دست گیری کر رہا ہے‘ اور اس نے ایسا انتظام فرما دیا ہے کہ میں اپنا کام جاری رکھ سکوں۔ میری خواہش ہے کہ میں برطانیہ میں تبلیغ اسلام کی خدمت بجا لا سکوں۔ اس کے لیے مجھے خواں کچھ ہی کرنا پڑے اورکسی بھی حیثیت سے کم ترخدمت انجام دینی پڑے۔ اسلام برادری روز بہ روز مستحکم ہو رہی ہے۔ اس وقت میرا کام عربی زبان کی تحصیل ہے۔ میری بڑی آرزو ہے کہ میں قرآن کو سمجھ سکوں۔ بہت سارے مسلمان عربی پڑھ سکتے ہیں اور ان کے لیے یہ کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن مجھے ابھی تفہیمِ قرآن کا مرحلہ طے کرنا ہے۔ قرآنِ حکیم کی ہر آیت مکمل ہدایت ہے اور بہ ذاتِ خود ایک باب کا درجہ رکھتی ہے۔ مجھے اکثر یہ دیکھ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ لوگ قرآن کا مناسب احترام نہیں کرتے‘ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور سب زمانوں کے لیے کارآمد ہے۔ یہ ہر سچے دین دار کے لیے ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔
سوال: برطانیہ کے غیر مسلموں میں تبلیغِ دین کی سرگرمیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: اس سلسلے میں ہمیں احتیاط برتنی چاہیے اور عیسائیوں کا طریقِ کار اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہم سب کی ایک بری ذمہ داری ہے۔ اسلام کا پیغام صرف زبان سے ہی نہیں پھیلانا چاہیے۔ پہلے تو آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے اپنے اعمال درست ہیں‘ پھر سادہ اور واضح طریقے سے اتنی خوش خبری سنائیں کہ ’’کہیے کہ وہ اللہ ایک ہے۔‘‘ اس بات کی کوشش نہ کریں کہ اسلام کا پورا پیغام ایک ہی بار منتقل کر دیا جائے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو یمن روانہ کیا تو ان سے فرمایا کہ ان لوگوں کی طرف جا رہے ہو جو اہلِ کتاب ہیں‘ لہٰذا انہیں سب سے پہلے توحید کی دعوت دینا۔ جب یہ بات ان کی سمجھ میں آجائے تو انہیں بتاتا کہ اللہ تعالیٰ نے دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگر وہ نمازیں ادا کرنے لگیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی جائدادوں میں سے زکوٰۃ دینے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہ زکوٰۃ ان میں سے مال دار لوگ ادا کریں گے اور محتاجوں میں تقسیم کی جائے گی اور اگر وہ اس پر رضامند ہو جائیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر لینا۔ لیکن لوگوں کی بہترین جائدادوں سے درگزر کرنا۔
ایک مسلمان کو اوّل تو خوش خلق‘ مہربان اور متواضع ہونا چاہیے کہ یہ اوصاف خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے۔ اگر ہم لوگوں کے سامنے بڑی منطقی بحثیں کرتے رہیں تو شاید وہ ہم سے متفق بھی ہو جائیں گے لیکن وہ ہم سے رخصت ہوتے ہی سب باتیں فراموش کر دیں گے کیوں کہ انہوںنے ہمیں عملی طور پر کچھ کرتے نہیں دیکھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ تنہا فرماتی ہیں ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجسم تھے۔‘‘ یہی بنیادی بات ہے۔ قرآن کو صرف پڑھ لینا کافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام انسان کی تکمیل کے لیے صادر فرمائے گئے اور قرآن انہی احکام کا مجموعہ ہے۔ آپ اسے صرف زبانی تبلیغ و بیان کے لیے استعمال نہیں کرسکتے‘ بلکہ اس پر عمل درآمد بہت ضروری ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ باتیں کم کریں اور عمل زیادہ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہی کسی شخص کو قبولِ اسلام کی توفیق ملتی ہے۔ (جاری ہے)
(جاری ہے)
سوال: اس ملک میں ذرائع ابلاغ سے اسلام کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل ہی نہیں کرسکتے یا صحیح صورت حال سے واقف نہیں ہوتے۔ ہم ان تک اپنی بات کیسے پہنچا سکتیہیں یا انہیں کم از کم اتنا بتانے کی کوشش کیسے کرسکتے ہیں کہ صحیح اسلام ہے کیا؟
جواب: میں یہ بات آپ پر واضح کرنا چاہوں گا کہ لوگ اپنی مرضی کے آپ مالک ہوتے ہیں اور اپنی راہ کا آپ تعین کرتے ہیں۔ وہ سب اس قدر احمق نہیں کہ جو کچھ اخبار میں پڑھیں یا خبروں میں سنیں تو اس پر یقین کر بیٹھیں۔ تاہم جب وہ خود مسلمانوں کے اعمال و افعال میں کچھ خرابیاں دیکھتے ہیں تو پھر اس بات کا احتمال بڑھ جاتا ہے کہ وہ جو کچھ پڑھتے ہیں اس پر اعتبار کر لیں۔ آپ جانتے ہیں کہ دعوت تو ذاتی طور پر دی جانی چاہیے۔ تبلیغ اسلام کاکام بہترین طور پر رفاقت کے ذریعے سرانجام پا اسکتا ہے۔ آج کی خبر کل پرانی ہو جاتی ہے۔ لوگوں میں اس طرح اشتعال تو پیدا کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس کا اثر دیرپا نہیںہوتا۔ انہیں حقیقی معنوں میں متاثر کرنے والے درحقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے وہ گھلتے ملتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ ایک مسلمان ہیں اور آپ کے قرابت داروں میں سے کوئی شخص اسلامی ضابطوں کا پابند نہیں ہے تو بلاشبہ آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ کسی غیر شخص کے پاس جانے سے پہلے اپنے اس قرابت دار کی خبر لیں۔ سب سے پہلے اپنے کنبے کی حفاظت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ صرف مسلمان کہلوانے سے ہم سزا سے نہیں بچ سکتے۔ ہم میں سے بہت سارے تو ابھی اسلام کے اصل پیغام سے نا آشنا ہیں۔
…٭…
یوسف اسلام کا یہ انٹرویو پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا اور ان کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ صاحب لندن ہی میں رہتے ہیں اور انہوں نے تبلیغِ دین کے لیے اپنا ایک حلقہ قائم کر رکھا ہے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد یہ مژدۂ جانفزا سننے میں آیا کہ یہ صاحب 28 مئی 1982ء کو اسکول آف اوریننٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز کے اسمبلی ہال میں جمعہ کی نماز کے بعد خطاب فرمائیںگے۔
میں اپنے کورس کے سلسلے میں لندن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن میں آیا کرتا تھا۔ مذکورہ اسکول وہاں سے قریب ہی تھا اور جمعہ کی نماز اکثر وہیں ادا کرتا تھا۔ اسکول کے ایک کمرے میں جائے نماز اور چادریں بچھا دی جاتی تھیں اور یونیورسٹی کے مسلمان اساتذہ اور طلبہ نماز ادا کرتے تھے۔ باقاعدہ خطبۂ جمعہ ہوتا اور نمازیوں کی تعداد تیس‘ پینتیس کے قریب ہوا کرتی تھی۔ جمعے کی نماز کا وقت ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں دوپہر کے کھانے کے وقفے میں پڑتا تھا اور کلاس دوبارہ شروع ہونے تک جمعے سے فارغ ہو کر واپس پہنچ جاتا۔
اس اطلاع سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ چنانچہ میں اور میرے ایک ساتھی پروگرام کے مطابق وہاں پہنچ گئے۔ اس روز اسمبلی ہال کے ایک حصے میں اسلام کتابوں کی نمائش بھی ہو رہی تھی۔ ایک نظر ان کتابوں پر بھی ڈالی لیکن نگاہیں یوسف اسلام کی جستجو میں تھیں۔
نماز سے پہلے ایک صاحب نے خالص عربی لہجے میں اذان دی جو بڑی مسحور کن تھی۔ یہ صاحب لمبا سفید کرتا پہنے ہوئے تھے۔ سر پر چھوٹی سی پگڑی‘ خوب صورت داڑھی‘ متناسب مونچھیں‘ سرخ و سفید رنگت‘ نوجوانی کا عالم‘ چہرے پر اطمینان اور آنکھوں میں کشش… بعد میں انکشاف ہوا کہ یہی یوسف اسلام ہیں۔
نماز سے فارغ ہوتے ہی جائے نماز‘ چادریں وغیرہ سمیٹ دی گئیں۔ ہال کی کرسیاں اور بینچیں ترتیب سے لگا دی گئیں۔ تقریب کا آغاز ہوا۔ یوسف اسلام کی تقریر شروع ہوئی۔ میں بڑے اشتیاق اور انہماک سے تقریر سن رہاتھ۔ نظریں مقرر کے چہرے پر جمی تھیں۔ رات کو وہ ساری تقریر یاد کرکے اردو میں قلم بند کی‘ آپ مطالعہ فرمایئے:
میں بچپن ہی سے ایک فنکاربننے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک گلوکار بننے کی لیے میں نے بڑی مشقت کی۔ پھر مجھے ایک رقاص بننے کی سوجھی۔ ان مشاغل کے ساتھ ساتھ میری روحانی جستجو کا سفر شروع ہو چکا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنی عمر کے انیسویں برس جب کہ میں اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھا‘مجھے شدید ذہنی کرب نے گھیر لیا۔ساری مادّی آسائشوںکے باوجود پریشانی تھی کہ دور نہ ہوتی تھی۔ ایک بار تو سکون کی تلاش میں‘ مین نے بدھمت کا پیروکار بننے کی ٹھان لی لیکن اس کے مطالعے سے پتا چلا کہ ایک بھکشو کی زندگی ایک عام شخص کی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ پھر وہ زندگی بھی کیا ہوئی کہ آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اور سب سے قطع تعلق کرکے جنگل بیابان کی راہ لیں اور زندگی کی کوئی سرگرمی باقی نہ رہے۔
پھر مجھے یوگا نے بڑا متاثرکیا۔ اس کی مختلف مشقیں مجھے پسند آئیں اور کبھی کبھی مجھے قدرے اطمینان کا احساس بھی ہوا‘ لیکن جلد ہی ظاہر ہوگیا کہ یوگا یا اس قسم کے اور سب طریقے حقیقت سے بہت بعید ہیں۔ ان میں سے کسی کو آپ زندگی کا لائحہ عمل قرارنہیں دے سکتے۔ انکے اصول قاعدے بظاہر کتنے ہی بھلے کیوں نہ لگتے ہوں‘ زندگی کی وسعتوں اور عملی ضرورتوں پر محیط نہیں ہیں۔ آپ اپنے سرے سوالوں کا جواب ان سے طلب نہیں کرسکتے۔ مختلف طریقوں اور مذہبوں میںبعض باتیں بہت عمدہ اور دل کش دکھائی دیتی ہیں‘ لیکن زندگی کی مکمل رہنمائی میسر نہیں آتی اور حقیقت کا انکشاف نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ سوچ کر میرے گرد مایوسی اور اداسی کا ایک پردہ چھا گیا۔ میری عمر اب 25 برس کے لگ بھگ ہوگئی۔ ان دنوں میں‘ میں موسیقار کی حیثیت سے شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ انہی دنوں میرے بڑے بھائی ڈیوڈ کو یروشلم جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس کا ایک مقصد مقدس مقامات کی زیارت بھی تھا۔ شاید وہ وہاں جا کر دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہاں پیدا ہوئے‘ انہوں نے اپنی زندگی کے دن کہاں کہاں گزرے اور کس کس مقام پر تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیا۔ شاید وہ اطمینانِ قلب کی خاطر وہاں گئے تھے‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ انہیں وہاں سے کچھ نہیں ملا۔
ایک روز وہ گھومتے پھرتے مسجد اقصیٰ میں جا نکلے۔ وہ اس کے جمال اور وقار سے قدرے متاثر ہوئے اور وہاں ایک خاص طرح کا روحانی کون محسوس کیا۔ یہودی اور عیسائی عبادت گاہوں کے برعکس یہاں ان کو ایک مختلف تجربہ ہوا۔ ماحول کی کشادگی اور نمازیوں کی سجدہ ریزی کے پُر سکون منظر نے انہیں بڑا متاثرکیا۔ وہ اس سے پہلے کبھی کسی مسجد کے اندر نہیں گئے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہاںکوئی راز نہیں‘ ہر شے عیاں اور کھلی ہے۔ بہرحال انہوںنے انگلستان پہنچتے ہی قرآن شریف کا ایک ترجمہ خرید لیا۔ انہوں نے شاید اس کا تھوڑا بہت مطالعہ بھی کیا۔ اگرچہ ہم بھائیوں کے درمیان تحفوں کا تبادلہ شاید ہی ہوا تھا‘ لیکن انہوں نے انگریزی ترجمہ بطور تحفہ مجھے عنایت فرمایا۔ شاید یہ سوچ کر کہ مجھ پریشان خاطر کوہدایت کی زیادہ ضرورت تھی۔
الحمدللہ کہ میں نے قران شریف کا مطالعہ شروع کیا۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا مایوسی اور اداسی کا پردہ چاک ہوتا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ زندگی کا ایک واضح مفہوم میری سمجھ میں آنے لگا۔ زندگی کی روشنی مجھ پر طلوع ہونے لگی اور حقیقت کے انکشاف کا آغاز ہوگیا۔ میں آہستہ آہستہ گردوپیش‘ اپنے ماحول اور اپنے دوستوں سے بے زار ہونے لگا اور ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا گیا۔ اس سلسلے میں مجھے بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
قرآن شریف کے مطالعے سے مجھ پر یہ حقیقت کھل گئی کہ میں جو مکمل نظامِ حیات تلاش کررہا تھا اور جس حقیقت کے حصول کے لیے بھٹکتا پھر رہا تھا‘ وہ اسلام کی راہ پر چلنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ شک کے سب کانٹے نکل چکے تھے اور ایمان کے تازہ پھول کھلنے لگے تھے۔ میں کوئی ڈیڑھ سال تک قرآنِ حکیم کو بار بار پڑھتا رہا اور سوچتا رہا کہ شاید میں اسی کے لیے پیدا کیا گیا ہوں اور یہ میرے لیے تخلیق ہوا ہے۔ میں اب تک کسی مسلمان سے نہیں ملا تھا‘ لیکن مجھے احساس ہونے لگ کہ مجھے جلد ہی یا تو مکمل ایمان لانا ہوگا یا موسیقی کے دھندے ہی میں پھنسے رہنا ہوگا۔ یہ وقت میرے لیے بڑا کٹھن تھا۔
ایک روز کسی نے لندن کی ایک نئی مسجد کا تذکرہ کیا۔ قبولِ دین کا لمحہ آ پہنچا تھا۔ 1977ء کا موسم سرما تھا کہ ایک جمعے کے روزمیرے قدم مسجد کی طرف اٹھنے لگے۔ جمعے کی نماز کے بعد میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور اس طرح مسلمانوں سے میرا پہلا رابطہ قائم ہوا۔
مجھے قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی نظر آئے جن کی اپنی ایک شخصیت تھی اور جن کا اپنا ایک پیغام تھا۔ بلاشہ وہ اللہ کے نیک بندے اور رسول تھے۔ ان کی صرف ایک ہی تصویر ابھرتی ہے اور وہ ایک انسانی تصویر ہے۔ دنیا کے مختلف گرجا گھروں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بنی ہوئی تصویریں اور مورتیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وہمختلف شخصیتوں کو نمایاں کرتی ہیں لیکن وہ خدا نہ تھے نہ خدا کے بیٹے۔ قرآن شریف میں ان کی صحیح شخصیت کا تصور واضح ہوتا ہے۔
بہرحال سب پیغمبر خدا کے بھیجے ہوئے ہیں لہٰذا قابل احترام ہیں اور سب کے بعد تشریف لانے والے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیںجن کا پیغام رہتی دنیا تک کے لیے ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن رہیںاور دنیا و آخرت کی سعادتیں حاصل کریں۔
الحمدللہ میں ایک مسلمان کی حیثیت سے بہت خوش ہوں۔ میری بیوی بہت اچھی مسلمان ہے۔ ہم اپنے بچوں کو بھی بہت اچھا مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں اور اسلام کی خدمت میں زندگی گزار دینا چاہتے ہیں۔

حصہ