ذہنی امراض سے نجات اور صحت مند زندگی کا راز

497

انسان کی خوشی و راحت کا تعلق جسمانی صحت و تندرستی سے ہے، اور جسمانی صحت کا دارومدار ذہنی صحت پر ہوتا ہے۔ کیونکہ دماغ ہی انسان کے سارے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغی کمزوری یا بیماری کے سبب ہی بہت سی اعصابی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی ایک مجوّزہ تعریف ہے کہ’’صحت محض کسی بیماری کی عدم موجودگی کا نام نہیں، بلکہ یہ جسمانی، نفسیاتی اور سماجی آسودگی وخوش حالی کا نام ہے۔‘‘ مگر ڈاکٹر اقبال آفریدی جو ذہنی و نفسیاتی عوارض سے متعلق بیداریٔ شعور و آگاہی کے کام میں خاصے متحریک ہیں آپ کے مطابق طبّی اعتبار سے یہ تعریف نامکمل ہے وہ اس ضمن میں کہتے ہیں کہ “” ورلڈ فیڈریشن فارمینٹل ہیلتھ کااس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’ذہنی صحت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان کو اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہو۔‘‘ جس کی تفصیل میں وہ بتاتے ہیں کہ “”مذکورہ فرد کو اپنی خُوبیوں، خامیوں کا علم ہو اور وہ یہ فہم بھی رکھتا ہو کہ مَیں کس طرح اپنی خامیاں ختم کرکے، خوبیاں اُجاگر کرسکتا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اُس میں روزمرّہ کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ہو۔ سوم،وہ ایسے مثبت اور مفید کام کرے، جن کے ثمرات لوگوں کو ملیں اور آخری و چوتھی بات یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کے لیے فعال کردار ادا کرے۔ اگر کوئی فرد ان تمام خواص پر پورا اُترتا ہے، تو وہ ایک آسودہ زندگی بسر کررہا ہے، لیکن اگر ان مقاصد میں سے کسی ایک میں بھی ناکام ہے، تو وہ ذہنی صحت کے اعتبار سے صحت مند نہیں””۔ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ہر دوسرا فرد ،بے چینی ،نیندکی کمی کا شکار ،کسی نہ کسی خوف،گھبراہٹ میں مبتلا، بھوک میں کمی یا زیادتی کی کیفیت میں مبتلا، غمگین ،یا بلا وجہ پریشان نظر آتا ہے اس طرح کی کیفیت میں دماغی اور ذہنی صحت کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے فرد یا اس کے گھر والے فوری ڈاکٹر سے رابطہ کریں ا ور پھر بات یہاں ختم نہیں ہوگئی ، ویسے غصّہ تو ہر شخص کو ہی آتا ہے،لیکن وہ بہت زیادہ ہوجائے اس کے علاوہ کوئی معمول کے برعکس حرکت کررہا ہو ، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کشش کررہاہو ، ایسی آوازیں سُن رہا ہو ، جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو یا پھر بہت زیادہ بول رہا تو یہ علامات بھی ڈاکٹرسے رابطہ کرنے والی ہیں۔
معروف ماہر نفسیات اور سائیکاٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیںڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ، شعبہ طب نفسیات کے سربراہ رہ چکے ہیں ،اآپ سے ایک ملاقات میں پوچحا کہ “”وطن عزیز میںبھی ذہنی و نفسیاتی امراض میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟تو آپ نے کہا کہ “”نفسیاتی بیماری کا براہِ راست تعلق ذہنی تنائو یا دبائو سے ہوتا ہے۔ جس معاشرے کے افراد میں جتنا زیادہ ذہنی دبائو پایا جاتا ہے اس معاشرے میں اتنی ہی زیادہ ذہنی و نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں پر ذہنی دبائو بہت زیادہ ہے اس لیے نفسیاتی بیماریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ 1993ء میں عالمی بینک نے ہارورڈ اسکول آف کمیونٹی میڈیسن میں گلوبل برڈن آف ڈیزیز یعنی عالمی سطح پر بیماریوں کا بوجھ معلوم کرنے کے لیے ایک سروے کروایا تھا، سروے کی ضرورت یوں پڑی کہ عالمی ادارہ صحت کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ جو آتا تھا وہ فنڈز مانگتا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے لیے مشکل ہوگیا تھا کہ کس کو زیادہ فنڈز دیئے جائیں، کس کو کم دیئے جائیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی ادارہ صحت نے ایک اسٹڈی کروائی، جس میں معاشرے پر بیماریوں کے بوجھ کا مطالعہ کیا گیا۔ اس میں یہ معلوم کیا گیا کہ اگر ایک شخص اسپتال میں داخل ہو تو اس کا خرچ، کام پر نہ جانے سے خرچ کا کتنا بوجھ پڑتا ہے۔ مریض کے ساتھ اسپتال میں کوئی تیماردار رہ رہا ہو تو اس کی تنخواہ کٹنے کا خرچ۔ پھر آپ سے لوگ ملنے آرہے ہیں ان کا خرچہ۔ آپ کے لیے کوئی چیز لارہے ہیں تو اس کا خرچ۔ تمام خرچوں کو جمع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک مریض پر کتنا بھاری خرچ آتا ہے۔ اس اسٹڈی میں تمام بیماریوں کو ایک سے ایک سو دس نمبر کی ترتیب میں رکھا گیا۔ ان بیماریوں کے مطالعے سے یہ جان کر بھونچال آگیا کہ اولین دس بیماریوں میں سے پہلی پانچ کا تعلق نفسیاتی بیماریوں سے ہے۔آپ نے اس ضمن مزید بتاتے ہوے کہا کہ “” ایک زمانے میں ٹریفک حادثات پہلے نمبر پر تھے۔ ان کو کم کرنے کے لیے ٹریفک کے قاعدے قوانین کو بہتر بنائیں گے۔ حادثات کم کردیں گے۔ بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بوجھ معاشرے پر دوسرے نمبر پر تھا۔ اس پر قابو پانے کے لیے جینٹک انجینئرنگ مطلب یہ کہ انسان کی جینیاتی ساخت میں تبدیلی لانے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کو مسئلے کا حل مانا گیا اور کہا گیا کہ اس طرح بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو نیچے لے آئیں گے۔ تیسرے نمبر پر آنے والی دل اور خون کی وریدوں سے متعلق بیماریوں کو نیچے لانے کے لیے تجویز کیا گیا کہ طرز زندگی اور غذائی عادات کو بہتر بنائیں گے اور نئی دوائیں لائیں گے۔ چوتھا بڑا نمبر تھا ڈپریشن کا، پوچھا گیا کہ ڈپریشن کیوں ہوتا ہے؟ بتایا گیا کہ بچہ فیل ہوجائے تو ڈپریشن، نوکری نہ ملے تو ڈپریشن، نوکری چھوٹ جائے تو ڈپریشن، ساس بہو کا جھگڑا ہوجائے تو ڈپریشن، اور شادی نہ ہو تو ڈپریشن۔ غرض کسی بھی پریشان کن بات سے ڈپریشن ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال پر عالمی ادارہ صحت والوں کا کہنا تھا کہ نہ ہم سب کو روزگار دلا سکتے ہیں، نہ شادیاں کرا سکتے ہیں، نہ ساس بہو کے جھگڑے میں پڑ سکتے ہیں۔ ان بے شمار وجوہات کی بنا پر ڈپریشن پر قابو ڈبلیو ایچ او کے کنٹرول سے باہر ہے۔
1993ء میں ادارے کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے زندگی تیز ہوگی ڈپریشن کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔ خیال تھا کہ 2020ء تک ڈپریشن چوتھے نمبر سے دوسرے نمبر پر آجائے گا۔ لیکن یہ 2008ء میں ہی پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے اور اب پہلے نمبر پر آنے والا ہے۔ جیسے کہ میں نے بتایا کہ پاکستان میں لوگوں پر ذہنی دبائو باقی دنیا کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہماری سماجی اقدار دم توڑتی جارہی ہیں۔ ہمیں پتا تک نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ کہیں دہشت گردی ہے۔ ٹریفک سے بھی ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ نفسیاتی بیماریوں کا تعلق صرف دماغ سے ہوتا ہے یا دل سے بھی ان کا تعلق ہے؟تو پروفیسر ڈاکٹررضا الرحمن کیا کہنا تھا کہ دیکھیں سب سے بڑی بحث تو یہ ہے کہ دماغ کیا ہے اور دل کیا ہے۔ اکثر مریض آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا دل ٹوٹ گیا، میرا دل گھبراتا ہے۔ میں نے اس پر کام کیا، اپنے ایک سرجن دوست سے بھی معلوم کیا کہ کبھی دوران آپریشن آپ نے دل ٹوٹا ہوا پایا؟ اس نے یہی بتایا کہ ایسی بات تو کبھی نہیں دیکھی۔ دراصل ہم جیسے جذبات اور احساسات والے دل جس کو کہتے ہیں وہ دماغ کا Limbic Systemہوتا ہے۔ ذہن میں جو اعصابی نظام ہوتا ہے، جو جذبات و احساسات ابھرتے ہیں یہ دماغ ہی کا بالائی حصہ ہوتا ہے۔ جو دھڑکتا ہے وہ ہمارا قلب ہے جو خون پمپ کرنے کی مشین ہے، اس کو ہم دل کہتے ہیں۔ اس دل کا جذبات پیدا کرنے یا کنٹرول کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دل کہلانے والا عضو دراصل دماغ کا ہی حصہ ہے جو جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ کیا بچوں میں بھی ذہنی و نفسیاتی مسائل سامنے آرہے ہیں؟
آپ کا کہناتھا کہ “” پیدائش سے بچہ سب سے پہلا کام کیا کرتا ہے؟ وہ روتا ہے، مگر بچے کی شخصیت شروع کے 5سال میں بن رہی ہوتی ہے۔ بچہ ماں باپ کو بحیثیتِ مجموعی دیکھتا ہے مگر جب وہ پیدا ہونے کے بعد ماں باپ کو الگ دیکھتا ہے تو اس کا اثر اُس کے دماغ پر پڑتا ہے۔ بچہ جب محسوس یا نوٹ کرتا ہے، ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں Conflict پیدا ہورہا ہے جو اس کو نفسیاتی امراض کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ (Conflicting Environment)جھگڑالو ماحول یاذہنی کشمکش کے جو کام کررہے ہیں وہ نظر بھی آئیں، پتا چلے کہ بچے کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ اگر یہ چیزیں نہیں کریں گے تو اس کی شخصیت میں کجی آنا شروع ہوجائے گی ۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا جو والدین کے لیے بہت اہم ہے کہ “” بچے کی 5سال میں کافی حد شخصیت بن جاتی ہے۔ ہمارے یہاں والدین تربیت یافتہ نہیں ہوتے، ان کو بتانا ضروری ہے کہ انہیں کیسے تربیت کرنا چاہیے تاکہ ذہنی طور پر بچہ صحت مند بھی ہو۔اس اہم سوال کے جواب میں کہ عمومی خیال یہ ہے کہ ذہنی و نفسیاتی بیماری کا مسئلہ خواتین میں زیادہ ہوتا ہےتو آپ نے کہا “” یہ نفسیاتی امراض خواتین میں اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ بتادیتی ہیں، اور مرد حضرات نہیں بتاتے۔ ہارمونز کے کم زیادہ ہونے کی وجہ سے ان میں نفسیاتی امراض زیادہ ہوتے ہیں۔ ان میں ذہنی دبائو بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ گھروں میں رہتی ہیں اور مرد حضرات باہر جاتے ہیں۔ اس لیے مردوں کا اسٹریس لیول کم ہوتا ہے۔ میں نے کہا تو خواتیں کیا کریں؟ تو آپ کا کہنا تھا کہ”” خواتین کو اپنے روزمرہ کے معاملات ٹھیک کرنے چاہئیں اور سماجی سرگرمیاں بڑھانی چاہئیں۔میں نے آپ سے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ ورزش ذہنی و جسمانی صحت کے لیے ضروری ہے، لیکن اس جدید دنیا اور اتنے مصروف ماحول میں یہ کیسے ممکن ہے؟ کوئی آسان طریقہ بتائیں؟
تو اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹررضا الرحمن کا کہنا تھا کہ “” چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ اپنے لیے نکالیں۔ ورزش کی وجہ سے آپ کی ذہنی صحت بہتر( (Mental Health improveہو گی اور آپ 10گھنٹوں کا کام 4گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔ اس سے ذہنی دبائو میں بھی کمی ہوگی اور آپ کی شخصیت میں بھی تبدیلی آئے گی۔ ہم اپنے آپ کو قومی سطح پر بیمار کررہے ہیں۔ پہلے پارک ہوتے تھے۔ اب جو نئے علاقے بن رہے ہیں، بستیاں آباد ہورہی ہیں وہاں پارک نہیں ہوتے، کھلے میدان نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنے آپ کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بدلنا ہوگا۔جب آخر میںانٹرویو کے اختتام پر پوچحا کہ ایک صحت مند زندگی کے لیے کیا کریں ؟تو آپ نے فرمایا “” زندگی میں ترتیب پیدا کریں، کھانے اور سونے کا وقت طے کریں، غیر ضروری خواہشات اور دبائو سے دور رہیں، ورزش کریں”” اور آخر میں رازدرانہ انداز میں آپ نے کہا “”ایک خاص بات آپ کو بتاتا ہوں:”” زندگی میں دینا شروع کریں۔آپ پیسے دیں، کسی کو وقت دیں، کسی کو مشورہ دے دیں، کسی کو راستہ دے دیں، کسی کو علم دے دیں۔ پھر کہاآگے کہا “دیکھیں دینے کی خصوصیت اللہ کی ہے،جب آپ دینا شروع کردیتے ہیں تو آپ کی نسبت رحمان سےجڑجاتی ہے، پھر آپ کبھی پریشان اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ جتنا زیادہ آپ دینے والے بنیں گے اتنا زیادہ آپ کی زندگی میں خوشیاں آنا شروع ہوجائیں گی۔ آپ طے کرلیں کہ ہر مہینہ کسی کو کچھ نہ کچھ دوں گا””ویسے یہ کہنے کو ایک بات ہے لوگ کہہ جاتے ہیں اور ہم بھی پڑھ و سن کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن خوش رہنے ،ڈیپریشن سے بچنےاور خوش حال رہنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے،عمل کرنے میں کوئی حر ج نہیں زندگی بدل جائے گی۔

حصہ