کلمہ طیبہ کے معنی

1706

برادرانِ اسلام! آپ کو معلوم ہے کہ انسان دائرۂ اسلام میں ایک کلمہ پڑھ کر داخل ہوتا ہے اور کلمہ بھی کچھ زیادہ لمبا چوڑا نہیں ہے‘ صرف چند الفاظ ہیں ’’لَاَاِلہَ اِلَّااﷲُ مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اﷲِ ‘‘ (اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں، محمد اللہ کے رسول ہیں۔)
ان الفاظ کو زبان سے ادا کرتے ہی آدمی کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ پہلے کافر تھا‘ اب مسلمان ہو گیا۔ پہلے ناپاک تھا‘ اب پاک ہوگیا۔ پہلے خدا کے غضب کا مستحق تھا‘ اب اس کا پیارا ہوگیا۔ پہلے دوزخ میں جانے والا تھا‘ اب جنت کا دروازہ اس کے لیے کھل گیا اور بات صرف اتنے ہی پر نہیں رہتی۔ اسی کلمے کی وجہ سے آدمی اور آدمی میں بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ جو اس کلمے کے پڑھنے والے ہیں وہ ایک امت ہوتے ہیں اور جو اس سے انکار کرتے ہیں وہ دوسری امت ہو جاتے ہیں۔ باپ اگر کلمہ پڑھنے والا ہے اور بیٹا اس سے انکار کرتا ہے تو گویا باپ باپ نہ رہا اور بیٹا بیٹا نہ رہا۔ باپ کی جائداد سے اس بیٹے کو ورثہ نہ ملے گا۔ ماں اور بہنیں تک اس سے پردہ کرنے لگیں گی۔ (یہ اگرچہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے کہ کافر بیٹے سے ماں اور کافر بھائی سے بہن پردہ کرے‘ مگر عملاً ایمانی غیرت رکھنے والی مسلمان خواتین اکثر ایسے بھائیوں اور بیٹوں کا منہ تک دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔) غیر شخص اگر کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس کی گھر کی بیٹی بیاہتا ہے تو وہ اور اس کی اولاد تو اس گھر سے ورثہ پائے گی‘ مگر یہ اپنی صُلب کا بیٹا صرف اس وجہ سے کہ کلمے کو نہیں مانتا‘ غیروں کا غیر بن جائے گا۔ گویا یہ کلمہ ایسی چیز ہے جو غیروں کو ایک دوسرے سے ملا دیتی ہے اور اپنوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیتی ہے حتیٰ کہ اس کلمے کا زور اتنا ہے کہ خون اور رحم کے رشتے بھی اس کے مقابلے میں کچھ نہیں۔
اتنا بڑا فرق کیوں؟
اب ذرا اس بات پر غور کرو کہ یہ اتنا بڑا فرق جو آدمی اور آدمی میں ہو جاتا ہے‘ یہ آخر کیوں ہوتا ہے؟ کلمے میں ہے کیا؟ صرف چند حروف ہی تو ہیں… لام‘ الف‘ ہ۔م۔و۔ س… اور ایسے ہی دو چار حروف اور ان حرفوں کو ملا کر اگر منہ سے نکال دیا تو کیا کوئی جادو ہو جاتا ہے کہ آدمی کی کایا پلٹ جائے؟ آدمی اور آدمی میں کیا بس اتنی سی بات سے زمین و آسمان کا فرق ہو سکتا ہے؟
میرے بھائیو! تم ذرا سمجھ سے کام لو گے تو تمہاری عقل خود کہہ دے گی کہ فقط منہ کھولنے اور زبان ہلا کر چند حرف بول دینے کی اتنی تاثیر نہیں ہو سکتی۔ بت پرست مشرک تو ضرور سمجھتے ہیں کہ بس ایک منتر پڑھ دینے سے پہاڑ ہل جائے گا‘ زمین شق ہو جائے گی اور چشمے ابلنے لگیں گے‘ چاہے منتر کے معنی کی کسی کو خبر نہ ہو‘ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ساری تاثیر بس حرفوں میں ہے۔ وہ زبان سے نکلے اور طلسمات کے دروازے کھل گئے‘ مگر اسلام میں یہ بات نہیںہے۔ یہاں اصل چیز معنی ہیں۔ الفاظ کی تاثیر معنوں سے ہے۔ معنی اگر نہ ہوںاور وہ دل میں نہ اتریں اور ان کے زور سے تمہارے خیالات‘ تمہارے اخلاق اور تمہارے اعمال نہ بدلیں تو نرے الفاظ بول دینے سے کچھ بھی اثر نہ ہوگا۔
اس بات کو میں ایک موٹی سی مثال سے تمہیں سمجھائوں۔ فرض کرو تمہیں سردی لگتی ہے۔ اگر تم زبان سے روئی لحاف‘ روئی لحاف پکارنا شروع کر دو تو سردی لگنی بند نہ ہوگی چاہے تم رات بھی میں ایک لاکھ تسبیحیں روئی لحاف کی پڑھ ڈالو۔ ہاں اگر لحاف میں روئی بھروا کر اوڑھ لو گے تو سردی لگنی بند ہو جائے گی۔ فرض کرو کہ تمہیں پیاس لگ رہی ہے۔ اگر تم صبح سے شام تک پانی پانی پکارتے رہو تو پیاس نہ بجھے گی۔ ہاں پانی کا ایک گھونٹ لے کر پی لو گے تو کلیجے کی ساری آگ فوراً ٹھنڈی ہو جائے گی۔ فرض کرو کہ تم کو نزلہ‘ بخار ہو جاتا ہے۔ اس حال میں اگر بنفشہ گائو زبان‘ بنفشہ گائوزبان کی تسبیحیں تم پڑھنی شروع کر دو گے تو نزلے بخار میں کچھ بھی کمی نہ ہوگی۔ ان دوائوں کا جوشاندہ بناکر پی لو گے تو نزلہ بخار خود بھاگ جائے گا۔ بس یہی حال کلمۂ طیبہ کا بھی ہے۔ فقط چھ‘ سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہو جائے‘ ناپاک سے پاک ہو جائے ‘ مردود سے محبوب بن جائے‘ دوزخی سے جنتی بن جائے۔ یہ فرق صرف اس طرح ہوگاکہ پہلے ان الفاظ کا مطلب سمجھو اور وہ مطلب تمہارے دل میں اتر جائے۔ پھر مطلب کو جان بوجھ کر جب تم ان الفاظ کو زبان سے نکالو تو تمہیں اچھی طرح یہ احساس ہو کہ تم اپنے خدا کے سامنے اور ساری دنیا کے سامنے کتنی بڑی بات کا اقرار کر رہے ہو اور اس اقرار سے تمہاے اوپر کتنی بڑی ذمہ داری آگئی ہے۔ پھر یہ سمجھتے ہوئے جب تم نے اقرار کر لیا تو اس کے بعد تمہارے خیالات پر اور تمہاری ساری زندگی پر اس کلمے کا قبضہ ہو جانا چاہیے۔ پھر تم کو اپنے دل و دماغ میں کسی ایسی بات کو جگہ نہ دینی چاہیے جو اس کلمے کے خلاف ہو۔ پھر تم کو ہمیشہ کے لیے بالکل فیصلہ کر لیناچاہیے کہ جو بات اس کلمے کے خلاف ہے وہ جھوٹی ہے اور یہ کلمہ سچا ہے۔ پھر زندگی کے سارے معاملات میں یہ کلمہ تمہارا حاکم ہونا چاہیے۔ اس کلمے کا اقرار کرنے کے بعد تم کافروں کی طرح آزاد نہیں رہے کہ جو چاہو کرو‘ بلکہ اب تم اس کلمے کے پابند ہو۔ جو وہ کہے اُس کو کرنا پڑے گا اور جس سے وہ منع کرے اس کو چھوڑنا پڑے گا۔ اس طرح کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہوتا ہے‘ اور اس طرح کلمہ پڑھنے کی وجہ سے آدمی اور آدمی میں اتنا بڑا فرق ہوتا ہے جس کا ذکر میں نے ابھی تم سے کیا۔
کلمے کا مطلب:
آئو اب میں تمہیں بتائوں کہ کلمے کا مطلب کیا ہے اور اس کو پڑھ کر آدمی کس چیز کا اقرار کرتا ہے اور اس کا اقرار کرتے ہی آدمی کس چیز کا پابند ہو جاتا ہے۔
کلمے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ کلمے میں’’الٰہ‘‘ کا جو لفظ آیا ہے اس کے معنی ’’خدا‘‘ کے ہیں۔ خدا اس کو کہتے ہیں جو مالک ہو‘ حاکم ہو‘ خالق ہو‘ پالنے اور پوسنے والا ہو‘ دعائوں کا سننے اور قبول کرنے والا ہو اور اس کا مستحق ہو کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اب جو تم نے ’’لَا َاِلہَ اِلَّااﷲُ ‘‘ کہا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اوّل تو تم نے یہ اقرار کیا کہ یہ دنیا نہ تو بے خدا کے بنی ہے اور نہ ایسا ہی ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہوں‘ بلکہ دراصل اس کا خدا ہے‘ اور وہ خدا ایک ہی ہے اور اس ایک ذات کے سوا خدائی کسی کی نہیں ہے۔ دوسری بات جس کا تم نے کلمہ پڑھتے ہی اقرار کیا وہ یہ ہے کہ وہی ایک خدا تمہارا اور سارے جہان کا مالک ہے۔ تم اور تمہاری ہر چیز اور دنیا کی ہر شے اس کی ہے۔ خالق وہ ہے‘ رازق وہ ہے‘ موت اور زندگی اس کی طرف سے ہے‘ مصیبت اور راحت بھی اسی کی طرف سے ہے‘ جو کچھ کسی کو ملتا ہے اس کو دینے والا حقیقت میں وہی ہے۔ جو کچھ کسی سے چھینا جاتا ہے اس کا چھیننے والا بھی حقیقت میں وہی ہے۔ ڈرنا چاہیے تو اس سے‘ مانگنا چاہیے تو اس سے۔ سر جھکانا چاہیے تو اس کے سامنے۔ عبادت اور بندگی کی جاگی تو اس کی۔ اس کے سوا ہم کسی بندے اور غلام نہیں اور اس کے سوا کوئی ہمارا آقا اور حاکم نہیں۔ ہمارا اصلی فرض یہ ہے کہ اسی کا حکم مانیں اور اسی کے قانون کی پیروی کریں۔
اللہ سے عہد و پیمان:
یہ عہد و پیمان ہے جو ’’لَاَاِلہَ اِلَّااﷲُ ‘‘پڑھتے ہی تم اپنے خدا سے کرتے ہو اور ساری دنیا کو گواہ بن کر کرتے ہو‘ اس کی خلاف ورزی کرو گے تو تمہاری زبان‘ تمہارے ہاتھ‘ پائوں‘ تمہارا رونگٹا رونگٹا اور زمین اور آسمان کا ایک ایک ذرّہ جس کے سامنے تم نے جھوٹا اقرار کیا‘ تمہارے خلاف خدا کی عدالت میں گواہی دے گا اور تم ایسی بے بسی کے عالم میں وہاں کھڑے ہوگے کہ ایک بھی گواہ تم کوصفائی پیش کرنے کے لیے نہ ملے گا۔ کوئی وکیل یا بیرسٹر وہاں تمہاری طرف سے پیروی کرنے والا نہ ہوگا‘ بلکہ خود وکیل صاحب اور بیرسٹر صاحب‘ جو دنیا کی عدالتوں میں قانون کی الٹ پھیر کرتے پھرتے ہیں‘ یہ بھی وہاںتوتمہاری ہی طرح بے بسی کے عالم میں کھڑے ہوں گے۔ وہ عدالت ایسی نہیں ہے جہاں تم جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستاویز پیش کرکے اور غلط پیروی کرکے بچ جائو گے۔ دنیا کی پولیس سے تم اپنا جرم چھپا سکتے ہو‘ خدا کی پولیس سے نہیں چھپا سکتے۔ دنیا کی پولیس رشوت کھا سکتی ہے‘ خدا کی پولیس رشوت کھانے والی نہیں۔ دنیا کے گواہ جھوٹ بول سکتے ہیں‘ خدا کے گواہ بالکل سچے ہیں۔ دنیا کے حاکم بے انصافی کر سکتے ہیں‘ خدا ایسا حاکم نہیں جو بے انصافی کرے۔ پھر خدا جس جیل میں ڈالے گا اس سے بچ کر بھاگنے کی بھی کوئی صورت نہیں ہے۔ خدا کے ساتھ جھوٹا اقرار نامہ کرنا بہت بڑی بے وقوفی‘ سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ جب اقرار کرتے ہو تو خوب سوچ سمجھ کر کرو اور اس کو پورا کرو‘ ورنہ تم پر کوئی زبردستی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ زبانی ہی اقرار کرلو‘ کیوں کہ خالی خولی زبانی اقرار محض بے کار ہے۔
رسولؐ کی رہنمائی کا اقرار:
’’لَاَاِلہَ اِلَّااﷲُ ‘‘کہنے کے بعد تم مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اﷲِ کہتے ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم نے یہ تسلیم کر لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ پیغمبر ہیں جن کے ذریعے سے خدا نے اپنا قانون تمہارے پاس بھیجا ہے۔ خدا کو اپنا آقا اور شہنشاہ مان لینے کے بعد یہ معلوم ہونا ضروری تھا کہ اس شہنشاہ کے احکام کیا ہیں۔ ہم کون سے کام کریں جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور کون سے کام نہ کریں جن سے وہ ناراض ہوتاہے۔ کس قانون پر چلنے سے وہ ہم کو بخشے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے پر وہ ہم کو سزا دے گا۔ یہ سب باتیں بتانے کے لیے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا پیغامبر مقرر کیا۔ آپؐ کے ذریعے سے اپنی کتاب ہمارے پاس بھیجی اور آپؐ نے خدا کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرکے ہم کو بتا دیا کہ مسلمانوںکو اس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔ پس تم نے مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اﷲِ کہا تو گویا اقرار کر لیا کہ جو قانون اور جو طریقہ حضورؐ نے بتایا ہے تم اسی کی پیروی کرو گے اور جو قانون اس کے خلاف ہے اس پر لعنت بھیجو گے۔ یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم نے حضورؐ کے لائے ہوئے قانون کو چھوڑ دیا اور دنیا کے قانون کو مانتے رہے تو تم سے بڑھ کر جھوٹا اور بے ایمان کوئی نہ ہوگا‘ کیوں کہ تم یہی اقرار کرکے تو اسلام میں داخل ہوئے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا لایاہوا ہوا قانون حق ہے اور اسی کی تم پیروی کرو گے۔ اسی اقرار کی بہ دولت تو تم مسلمانوں کے بھائی بنے‘ اسی کی بدولت تم نے باپ سے ورثہ پایا‘ اسی کی بہ دولت ایک مسلمان عورت سے تمہارا نکاح ہوا‘ اسی کی بہ دولت اولاد تمہاری جائز اولاد بنی‘ اسی کی بہ دولت تمہیں یہ حق ملا کہ تمام مسلمان تمہارے مددگار بنیں‘ تمہیں زکوٰۃ دیں‘ تمہاری جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ لیں اور ان سب کے باوجود تم نے اپنا اقرار توڑ دیا۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں کون سی بے ایمانی ہو سکتی ہے؟
اگر تم ’’لَاَاِلہَ اِلَّااﷲُ مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اﷲِ ‘‘کے معنی جانتے ہو اور جان بوجھ کر اس اقرار کرتے ہو تو تم کو ہر حال میں خدا کے قانون کی پیروی کرنی چاہیے‘ خواہ اس کی پیروی پر مجبور کرنے والی کوئی پولیس اور عدالت اس دنیا میں نظر نہ آتی ہو۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پولیس اور فوج اور عدالت اور جیل کہیں موجود نہیںہے اس لیے اس کے قانون کو توڑنا آسان ہے‘ اور گورنمنٹ کی پولیس‘ فوج‘ عدالت اور جیل موجود ہے اس لیے اس کے قانون کو توڑنا مشکل ہے‘ ایسے شخص کے متعلق میں صرف کہتا ہوں کہ وہ ’’لَاَاِلہَ اِلَّااﷲُ مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اﷲِ ‘‘ کا جھوٹا اقرار کرتا ہے۔ اپنے خدا کو‘ ساری دنیا کو‘ تمام مسلمانوں کو اور خود اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے۔
اقرار کی ذمہ داریاں:
بھائیو! اور دوستو! ابھی میںنے تمہارے سامنے کلمۂ طیبہ کے معنی بیان کیے ہیں‘ اب اس سلسلےمیںایک اور پہلو کی طرف تم کو توجہ دلاتا ہوں۔
تم اقرار کرتے ہو کہ اللہ تمہارا اور ہر چیز کا مالک ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری جان تمہاری اپنی نہیں‘ خدا کی ملک ہے‘ تمہارے ہاتھ اپنے نہیں‘ تمہاری آنکھیں اور تمہارے کان اور تمہارے جسم کا کوئی عضو تمہارا اپنا نہیں۔ یہ زمینین جن کو تم جوتتے ہو‘ یہ جانور جن سے تم خدمت لیتے ہو‘ یہ مال اسباب جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو‘ ان میں سے بھی کوئی چیز تمہاری نہیں۔ ہر چیز خدا کی مِلک ہے اور خدا کی طرف سے عطیے کے طور پر تمہیں ملی ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمہیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ جان میری ہے‘ جسم میراہے‘ مال میرا ہے‘ اور فلاں چیز میری ہے اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قراردینا‘ بالکل ایک لغو بات ہے۔اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے تو اس سے دو باتیں خود بخود تم پر لازم ہوجاتی ہیں:
-1 مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنا:
ایک یہ کہ جب مالک خدا ہے اور اس نے اپنی ملکیت امانت کے طور پر تمہارے حوالے کی ہے توجس طرح مالک کہتا ہے اسی طرح تمہیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ اس کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو۔ تم اپنے ان ہاتھوں اور پائوں کو بھی اس کی پسند کے خلاف ہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ تم ان آنکھوں سے بھی اس کی مرضی کے خلاف دیکھنے کا کام نہیں لے سکتے۔ تم کو اس پیٹ میں بھی کوئی ایسی چیز ڈالنے کا حق نہیں ہے جو اس کی مرضی کے خلاف ہو‘ تمہیں ان زمینوں اور ان جائدادوں پر بھی مالک کے منشا کے خلاف کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ تمہاری بیویاں جن کو تم اپنی کہتے ہو‘ اور تمہاری اولاد جن کو تم اپنی کہتے ہو‘ یہ بھی صرف اس لیے تمہاری ہیں کہ تمہارے مالک کی دی ہوئی ہیں‘ لہٰذا تم کو ان سے بھی اپنی خواہش کے مطابق نہیں‘ بلکہ مالک کے حکم کے مطابق ہی برتائو کرنا چاہیے۔ اگر اس کے خلاف کرو گے تو تمہاری حیثیت غاصب کی ہوگی۔ جس طرح دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے والے کو تم کہتے ہو کہ وہ بے ایمان ہے‘ اسی طرح اگر خدا کی دی ہوئی چیزوں کو تم اپنا سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرو گے‘ یا خدا کے سواکسی اور کی مرضی کے مطابق ان سے کام لو گے تو وہی بے ایمانی کا الزام تم پر بھی آئے گا۔اگر مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے میں کوئی نقصان ہوتا ہے تو ہوا کرے‘ جان جاتی ہے تو جائے۔ ہاتھ پائوں ٹوٹتے ہیں تو ٹوٹیں‘ اولاد کا نقصان ہوتا ہے تو ہو۔ مال و جائداد بربا ہو تو ہوا کرے‘ تمہیں کیوں غم ہو؟ جس کی چیز ہے وہی اگر نقصان پسند کرتا ہو تو اس کو حق ہے۔ ہاں اگر مالک کی مرضی کے خلاف تم کام کرو اور اس میں کسی چیز کا نقصان ہو تو بلاشبہ تم مجرم ہوگے‘ کیوں کہ دوسرے کے مال کو تم نے خراب کیا۔ تم خود اپنی جان کے مختار نہیں ہو‘ مالک کی مرضی کے مطابق جان دو گے تو مالک کا حق ادا کر دو گے۔ اس کے خلاف کام کرنے میں جان دو گے تو یہ بے ایمانی ہوگی۔
-2 اسلام لانا خدا پر احسان نہیں:
دوسری بات یہ ہے کہ مالک نے جو چیز تمہیں دی ہے اس کو اگر تم مالک ہی کے کام میں صَرف کرتے ہو تو کسی پر احسان نہیں کرتے۔ نہ مالک پر احسان ہے نہ کسی اور پر۔ تم نے اگر اس کی راہ میں کچھ دیا یا کچھ خدمت کی‘ یا جان دے دی جوتمہارے نزدیک بہت بڑی چیز ہے‘ تم بھی کوئی احسان کسی پر نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ جو کام تم نے کیا وہ بس اتنا ہی تو ہے کہ مالک کا حق جو تم پر تھا وہ تم نے ادا کر دیا۔ یہ کون سی ایسی بات ہے جس پر کوئی پھولے اور فخر کرے اور یہ چاہے کہ اس کی تعریفیںکی جائیں اور یہ سمجھے کہ اس نے کوئی بہت بڑا کام کیا ہے جس پر اس کی بڑائی تسلیم کی جائے؟ یاد رکھو کہ سچا مسلمان مالک کی راہ میں کچھ صَرف کرنے یا کچھ خدمت کرنے کے بعد پھولتا نہیں ہے‘ بلکہ خاکساری اختیار کرتا ہے۔ فخر کرنا کارِ خیر کو بربادکر دیتا ہے۔ تعریف کی خواہش جس نے کی اور اس کے خاطر کوئی کارِ خیر کیا وہ خدا کے ہاں کسی اجر کا مستحق نہ رہا‘ کیوں کہ اس نے تو اپنے کام کا معاوضہ دنیا ہی میں مانگا اور یہیں اس کو مل بھی گیا۔
اللہ کا احسان اور ہمارا رویہ:
بھائیو! اپنے مالک کا احسان دیکھو کہ اپنی چیز تم سے لیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ چیز میں نے تم سے خریدی ہے اور اس کا معاوضہ میں تمہیں دوں گا‘ اللہ اکبر! اس شانِ جُود و کرم کا بھی کوئی ٹھکانا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اللہ نے ایمان داروں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اس معاوضے میں کہ ان کے لیے جنت ہے۔‘‘(التوبہ9:111)
یہ تو مالک کا برتائو تمہارے ساتھ ہے‘ اب ذرا اپنا برتائو بھی دیکھو۔ جو چیز مالک نے تم کو دی تھی اور جس کو مالک نے پھر تم سے معاوضہ دے کر خرید بھی لیا‘ اس کو غیروں کے ہاتھ بیچتے ہو‘ نہایت ذلیل معاوضے لے لے کر بیچتے ہو۔ وہ مالک کی مرضی کے خلاف تم سے کام لیتے ہیں اور تم یہ سمجھ کر ان کی خدمت کرتے ہو کہ گویا رازق وہ ہیں۔ تم اپنے دماغ بیچتے ہو‘ اپنے ہاتھ پائوں بیچتے ہو‘ اپنے جسم کی طاقتیں بیچتے ہو اور وہ سب کچھ بیچتے ہو جس کو خدا کے باغی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر بداخلاقی اور کیا ہو سکتی ہے؟ بیچی ہوئی چیز کو بیچنا قانونی اور اخلاقی جرم ہے۔ دنیا میں اس پر دغا بازی اور فریب دہی کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا کی عدالت میں اس پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا؟

حصہ