علاقائی زبانیں اردو کے بغیر ترقی نہیں کرسکتیں،ڈاکٹر شاداب احسانی

174

26 اگست 2021ء کو بزمِ شعر و سخن کے سابق صدر طارق جمیل نے پاکستانی بیانیے پر ایک اجلاس بلایا جس میں فراست رضوی‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ رضوان صدیقی‘ صفدر علی رضی‘ فہیم برنی‘ انیس احمد ایڈووکیٹ‘ زاہد جوہری‘ راشد عزیز‘ سہیل امتثال صدیقی‘ ہانی رضوی‘ وقار چھتری والا‘ طارق رئیس‘ فاروق عرشی‘ شاہین مصور اور جمال اکبر نے شرکت کی۔ اس محفل میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے پاکستانی بیانیے پر سیر حاصل گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا کہ انسانی زندگی میں مذہب دیو مالائی مسلک‘ سائنس‘ میونیٹس یہ سب حیات اور کائنات کے تعلق کے استعارے ہیں‘ ہمیں ہر عمل کی گواہی تلاش کرنی پڑتی ہے‘ اس گواہی کے عمل نے انسان کو کہانی کار بنایا اور کہانی کہنے والے کے مؤقف/بیانیے نے کہانی کی انفرادیت کو نمایاں کرنے میں بنیاد کا کام کیا۔ کہانی کار کا بیانیہ جب تک مقامی رہا‘ کہانی پڑھنے اور سننے والوں نے اسے دل و جان سے قبول کیا اور اسے اپناتے رہے کیوں کہ کہانی کی تشبیہات‘ استعارات‘ کردار نیز منظر و پس منظر میں انہیں اپنا تشخص زندہ و جاوید نظر آتا تھا۔ جن قوموں نے اپنا بیانیہ بنا لیا وہ ترقی کی منزلوں پر گامزن ہیں۔ امریکا نے آزادی حاصل کرنے کے بعد برطانوی بیانیہ مسترد کیا اور امریکی انگلش رائج کی آج وہ واحد عالمی سپر پاور ہے۔ لینن نے جب روس کو بیانیہ دیا تھا تب روس نے ترقی کی تھی۔ آج ہم برطانوی بیانیے کے زیر اثر ہیں۔ لارڈ میکالے نے 1835ء میں کہا تھا کہ جب تک مسلمانوں میں روحانی اقدار موجود ہیں ہم انہیں کمزور نہیں کرسکتے لہٰذا مسلمانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں دس علاقائی زبانیں ہیں یہ سب اردو کے ساتھ ترقی کر سکتی ہیں انگریزی کے زیر اثر ان کا حلیہ بگڑ جائے گا آیئے ہم پاکستانی بیانیے کی اہمیت کو محسوس کریں اور اس کے لیے کام کریں۔ شعرائے کرام ہماری ضرورت ہیں‘ یہ علم و دانش کی ترقی میں اہم کردار ہیں۔ طارق جمیل نے کہا کہ انہوں نے بزمِ شعر و سخن کے تحت بہت سے مشاعرے اور مذاکرے ترتیب دیے آج ہم نے پاکستانی بیانیہ سننے کے لیے احباب کو جمع کیا ہے جس میں شاداب احسانی نے مختلف سوالات کے جوابات دے کر مقامی بیانیہ‘ پاکستانی بیانیہ کی وضاحت کی ہماری کوشش ہے کہ ہم ایک بیانیے پر متحد ہو جائیں تاکہ ہم ترقی کرسکیں دوسروں کی ثقافت کے بجائے ’’پاکستانیت‘‘ بحال کی جائے اردو کو رومن انگریزی میں لکھنے کا مطلب ہے کہ ہم اردو کو قتل کر رہے ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ زبان و ادب کے فروغ کے لیے قائم کردہ اداروں کو ہدایت کی جائے کہ وہ صحیح خطوط پر کام کریں۔

حصہ