خطابت کا فن

3485

قرآن کی ایک روشن آیت کہتی ہے کہ ’’ انسان کو حُسنِ بیان کے اعزاز کے ساتھ پیدا کیا گیا۔‘‘ اس کی روشنی میں آگے بڑھتے ہوئے ہم جب اس اعزاز کو برتنے کے گُر سیکھتے ہوئے یہ دیکھتے ہیں کہ ’’اچھا کہنا فن ہے۔ کیسا کہنا ہنر ہے(جو سیکھا جاسکتا ہے) اور کب کہنا دانش ہے۔‘‘ (یہ مشکل سے آتا ہے)۔ بس مسئلہ وہیں پیدا ہوتا‘ وہیں پختہ شاطروں سے حماقتیں سرزرد ہوتی ہیں۔ اس لیے بھی یہ سچ ہے کہ ’’شاعر پیدا اور مقرر بنتے ہیں۔‘‘ مقرر تو لمحہ ٔ موجود کے سفیر و نامہ نگار ہوتے ہیں جو آنے والے اچھے زمانوں کی بشارت دیتے ہیں۔
خطابت صرف رائے کی ہمواری تک نہیں بلکہ روحوں کو جیتنے کا فن ہے۔ جب یہ اونچے معیار کو پہنچتی ہے تو سننے والے پر نور برستاہے۔ اس میں جچے تلے لفظوں کے موتی رولتے ہیں۔ اگلی پچھلی کڑیوں کو جوڑتے ہوئے، نوک پلک سے سنوری زبان۔ دلوں کے تار ہلانے والی زبان۔ ولولوں کو، جذبوں کو تہذیب سکھانے والا ہنر۔ اپنے رائے کے طوفان میں بہا لے جانے والا ہنر۔ الفاظ کے چنائو ، شعروں کے جڑاو، مطالب سے رشتہ جوڑتے ہوئے، کبھی لفظوں کی پھوار سے دل کی کھیتی ہری ہو جاتی ہے‘ کبھی اندازِ تکلم سے قافلے تھم جاتے ہیں۔ کبھی اُڑتے پرندے ٹھہرجاتے ہیں۔ تقریر میں نثری گوہر پارے بولتے کہاں ہیں‘ وہ تو موتی رولتے ہیں ’’شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘‘بلکہ یہ تو دل کی دنیا میں آگ لگا دیتی ہے۔
زندگی کے سفر میں لوگ اپنے خیالات کے اندھیرے لے کر آئیں گے تم حسنِ گفتار کے چراغ لے کر جانا‘ بدحواس نہ ہونا‘ ہمواری سے بولنا‘ الفاظ کے بدن میں خیال کا دل دھڑکتا ہو، چوں چوں کا مربہ نہیں۔
جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو ،کھٹی نہ ہو ،مصری کی ڈلی ہو
( اسمعیل میرٹھیؔ)
اظہار کا بانکپن:
جب جب اور جہاں جہاں بھی حسنِ اظہار کا موقع مل جائے تب سب سے پہلے اپنی آواز میں عزم کو شامل کرنا نہ بھولنا۔ لیکن اس کا حُسنِ توازن بنائے رکھنے میں چوک نہ جانا ورنہ سننے والا ہماری گفتگو کو کفن پھاڑ کر بولنے والابے چین مردہ نہ سمجھ لے۔ پہلے پہل ’’کیا کہنا‘‘ اور ’’کیسے کہنا ہے‘‘ سے زیادہ ’’کیوں کہنا‘‘ ہے طے ہو جائے تو یہ آپ کے لیے رہنما نظر کی طرح مرکزی مقصد طے ہوجاتا ہے۔ پھر وہی بات اظہار کی روح بن کر ماحول میں بہاروں کا سماں باندھ دے گی۔
آواز یا تو جگاتا ہوا جادو ہے یا تباہ کن سفلی عمل۔ اگر آواز بھرائی، گھبرائی، تھرائی، مرجھائی، شرمائی و لجائی ہوئی ہو تو سننے والا آپ کے پیام پر کیسے جان چھڑکے گا بلکہ وہ آپ کی کسی بات کو قبول ہی نہیں کرے گا۔ آواز میں ایک باوقار صفائی، خوش گوارہمواری، ضرورت کے تحت چین و قرار دینے والی خوبی یا دلوں کی دنیا میں کہرام مچانے والی جادوگری چاہیے ورنہ سمجھو کہ ’’بات کھوئی التجا کر کے‘‘۔ آخرش سب بول بَلابن جائے گی اور بے نتیجہ ثابت ہوگی بلکہ اچھی تقریر میں تومواد و متن کی شاہی مسلّم ہے ۔
اظہار کے تمام وسیلے مواد کی چاکری کرتے ہیں۔ خیال کی راج نگری میں صرف متن کا کھرا سکہ چلتا ہے۔ خام مواد کا کھوٹا سکہ چور بازاری کے توکام آسکتا ہے لیکن جگ جیتنے کے کام نہیں آسکتا۔
’’زبان‘‘ کا معاملہ بڑا نازک ہے۔ زبان جذبے کی آنچ سے دہکی ہو ئی ہو‘ تاکہ دکھوں کے گھائو پر لفظوں کا مرہم رکھتے ہی روح کو چین ملے، دلیل کو وقار ملے۔ دل کشا لفظوں سے بات کرنے کا ہنر آجائے تو اظہار کا فن پورا ہوتا ہے۔ ورنہ یک طرفہ بک بک سے زیادہ اس کی اہمیت نہیں۔
اچھی خطابت علم بانٹنے کا نام ہے۔ ورنہ ہانکی ہوئی ’’گپ‘‘ کی طرح جو جلدی میں سنی گئی اور دیر تک کہی گئی بکواس سی بن جاتی ہے۔ اگر مقرر میں کسی بات کو سلیقہ سے پہنچانے کی صلاحیت ہے تو بڑے سے بڑے معاملات حل ہوجاتے ہیں۔ مقرر کا کام ہے کہ وہ کسی طرح سے اپنے سننے والوں کو یہ احساس دلا ئے کہ وہ کسی پیراشوٹ میں پرواز کررہے ہوں یا کسی ماہر تیراک کی طرح تیر کر دریا پار کررہے ہوں تاکہ پیراشوٹ اُڑان کے بعد زمین پر آن کی آن میں اور تیراک کے پائوں کو کنارے چوم لیں گے۔
مقرر جلد ہی سامعین کو اپنی تقریر میں شامل کرلے جیسے ’’اس تصور میں آپ شامل ہوکر دیکھیں۔ اس مسئلے کو آپ اپنے ذہن و دل میں اتار کر دیکھیں کہ اگر آپ ہوتے تو کیا نتیجہ اخذ کرتے؟‘‘ اگر اس کے بجائے آپ کی تقریر کو صرف سن رہے ہوں‘ جیسے دور سے کسی اور کے پیراشوٹ کو دیکھ رہے ہوں یا کسی ماہر تیراک کو دیکھ رہے ہوں‘ تو اپنے ذہن اور احساس کو دور ہی رکھیں گے۔ اس طرح وہ آپ کے لفظوں کے ساتھ دور تک سفر نہیں کرسکیں گے اور سننے والوں کے حساس کان سیپیوں کی طرح آپ کی موتیوں سی باتوں کو محفوظ بھی نہیں کریں گے۔
یہ ایک روشن سچ ہے کہ ہر گفتگو کسی نہ کسی حیثیت میں عوامی خطاب یا تقریر ہوتی ہے چاہے وہ دو افراد کے درمیان ہی کیوں نہ ہو ورنہ وہ خود کلامی ہوگی۔ اس لیے ایک زبان پر بھرپورکمال بلکہ کئی زبانوں سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے کیوں کہ زبانوں کا مطالعہ در اصل زمانوں کا مطالعہ ہوتا ہے۔ اسی سے جینے کا شعور آتا ہے۔ تقریرکی بُنت و رنگ روپ عالمی معیار پر ہو لیکن مواد مقامی ہو۔ یعنی فن، فکر، وسعت، حسنِ فطرت کی مثالیں، مقاصد کا شعور عالمی ہو اور ایسا ہوا کہ مدتوں تک دور درازکے لوگ بھی اس کی اہمیت کے قائل ہوں۔ لیکن مواد مقامی ہو اس لیے کہ اس کو چھوئے بغیر تقریر خیالی پلائو لگے گی۔ تبدیلی کا خاکہ تصوراتی لگے گا۔ ورنہ بے جوڑ باتوں کے بھنور میں پھنس کر کہنے اور سننے والے اپنی راہیں گم کر دیتے ہیں۔ اظہار کی خوبی بدل کر تماشا بن جاتی ہے۔ اکثر جذبات نگاری کے شوق میں مقررگھڑ گھڑ کر گالیاں دیتے ہیں۔ ایسی باتوں کے سبب سپاٹ ذہنوں کے منہ سے قہقہے ضرور ابل پڑتے ہیں جس سے ان کا وقار بھی کم ہو جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ افواہوں کو خطابت میں ہرگز جگہ نہیں دینی چاہیے کیوں کہ افواہوں کے پَر ہوتے ہیں۔ یہ جلے بوریہ کے ٹکڑے بن کر ماحول میں پھیل جاتے ہیں۔ سچی اور مکمل بات پر ہی انسانی تہذیب کا دار و مدار ہے ایسے مقرر گہرے معنوں کے امین ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں موضوع کو امکان بھر اُجال دیتی ہیں۔ اس کے برعکس چرب زبانی اور چاپلوسی تو گالیاں دینے کے برابر ہیں۔ چوکس ذہنوں کو ان سے پرے رہنا چاہئیں۔
بے قابو بدن پر قابو پائیں
سامعین ایک وزنی پتھر کی طرح ہوتے ہیں۔ جنہیں کھسکانے کے لیے پہلے پہل آپ کو گاڑی کاپہلا توانا گیئر لگانا پڑتا ہے۔ پھر دوسرا ، تیسرا ، رفتار کے بڑھتے ہی آپ کے اختیارات کھل جاتے ہیں ورنہ موضوع کی گاڑی اٹک ، پھسل یا لڑھک جائے گی ساتھ مقرر بھی منہ کے بل گرے گا۔ اگر ہم موضوع کو ایک وزنی پتھر کی طرح صرف چوم کر گزرجائیں توسننے والوں کی توجہ حاصل نہ کرپائیں گے۔ ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ایک خوشگوار آغازکا افتتاحی جملہ حواس کے علاوہ حسبِ ضرورت، لطیفہ، شعر، قول دانش، اہم اعلان، خوش خبری اور کبھی چونکادینا بھی ضروری ہوتا ہے۔
اپنے ابتدائی خوف پر قابو پانے کے لیے آپ سامعین کی آنکھوں کی صرف پتلیوں کے رنگ تلاش کریں۔ یاد رہے آپ انھیںگھور نہیں رہے ہیں اور نہ ٹکر ٹکر دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اپنے لیے ان کے آنکھوں کی پتلیوں سے رنگ چن رہے ہیں۔ یہ ضروری بھی نہیں کہ وہ رنگ یاد رکھے جائیں بلکہ یہ تو ایسا دل چسپ کام ہے جیسے ہم ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کبھی بہلنے کے لیے پہاڑوں اور درختوں کے رنگوں سے بہلتے ہیں اور سفر تمام ہوجاتا ہے۔ اس حکمتِ عملی سے آپ پر خوف کی شدت کم ہو جائے گی۔ بعض مقرِر ین کی بے قرار آنکھیں لٹو کی طرح سامعین کے چہروں پر ڈل مل ڈل مل گھومتی رہتی ہیں۔ اس سے سننے والوں کی توجہ کی ہتک ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کا جسمانی حملہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر لفظ گول مول کرکے کہے جائیں تو ان کے کانوں اور سماعت کو رسوا کرنا ٹھہرے گا۔ (جاری ہے)

حصہ