منتخب غزلیں

454

علامہ اقبال
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانندِ خامہ تیری زباں پر ہے حرفِ غیر
بیگانہ شے پہ نازشِ بے جا بھی چھوڑ دے
لطفِ کلام کیا جو نہ ہو دل میں دردِ عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے
شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
…٭…
اسرار الحق مجاز
جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر وہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
تقاضے کیوں کروں پیہم نہ ساقی
کسے یاں فکر بیش و کم نہیں ہے
ادھر مشکوک ہے میری صداقت
ادھر بھی بد گمانی کم نہیں ہے
مری بربادیوں کا ہم نشینو
تمہیں کیا خود مجھے بھی غم نہیں ہے
ابھی بزمِ طرب سے کیا اٹھوں میں
ابھی تو آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
بہ ایں سیلِ غم و سیلِ حوادث
مرا سر ہے کہ اب بھی خم نہیں ہے
مجازؔ اک بادہ کش تو ہے یقیناً
جو ہم سنتے تھے وہ عالم نہیں ہے
…٭…
جلیل مانک پوری
آج تک دل کی آرزو ہے وہی
پھول مرجھا گیا ہے بُو ہے وہی
سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تو ہے وہی
جو ہو پوری وہ آرزو ہی نہیں
جو نہ پوری ہو آرزو ہے وہی
مان لیتا ہوں تیرے وعدے کو
بھول جاتا ہوں میں کہ تُو ہے وہی
تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے وہی
صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تُو ہے وہی
ہو گئی ہے بہار میں کچھ اور
ورنہ ساغر وہی سبو ہے وہی
عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمیٔ ہائے جستجو ہے وہی
…٭…
وکیل اختر
جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا
وہی بیش و کم درس گاہوں میں تھا
جو خنجر بکف قتل گاہوں میں تھا
وہی وقت کے سربراہوں میں تھا
عجب خامشی اس کے ہونٹوں پہ تھی
عجب شور اس کی نگاہوں میں تھا
اسے اس لئے مار ڈالا گیا
کہ وہ زیست کے خیر خواہوں میں تھا
ہماری نظر سے وہ کل گر گیا
جو کل تک ہماری نگاہوں میں تھا
وہ کیا دیتا اخترؔ کسی کو پناہ
جو خود عمر بھر بے پناہوں میں تھا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی
دل کے کہنے پہ چلوں عقل کا کہنا نہ کروں
میں اسی سوچ میں ہوں کیا کروں اور کیا نہ کروں
زندگی اپنی کسی طرح بسر کرنا ہے
کیا کروں آہ اگر تیری تمنا نہ کروں
مجلسِ وعظ میں کیا میری ضرورت ناصح
گھر میں بیٹھا ہوا شغل مے و مینا نہ کروں
مست ہے حال میں دل بے خبر مستقبل
سوچتا ہوں اسے ہشیار کروں یا نہ کروں
کس طرح حسن زباں کی ہو ترقیِ وحشتؔ
میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں
…٭…
اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
…٭…
یوں قتل سے بچّوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
…٭…
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
…٭…
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
…٭…

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
…٭…
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
…٭…
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
…٭…
بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے
…٭…
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
…٭…
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
…٭…
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
…٭…
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
…٭…
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
…٭…
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
…٭…
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا
…٭…

اکبر الہ آبادی
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
یہ طرز احسان کرنے کا تمہیں کو زیب دیتا ہے
مرض میں مبتلا کر کے مریضوں کو دوا دینا
بلائیں لیتے ہیں ان کی ہم ان پر جان دیتے ہیں
یہ سودا دید کے قابل ہے کیا لینا ہے کیا دینا
خدا کی یاد میں محویت دل بادشاہی ہے
مگر آساں نہیں ہے ساری دنیا کو بھلا دینا
…٭…
شکیل بدایونی

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے

آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ

منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا

مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری

اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ

مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
…٭…

ناصر کاظمی

شہر سنسان ہے کدھر جائیں

خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

رات کتنی گزر گئی لیکن

اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں

جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

ان اجالوں کی دھن میں پھرتا ہوں

چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور

چاند نکلے تو پار اتر جائیں
…٭…

…٭…

…٭…

…٭…

حصہ