رضیہ سلیم کا شعری مجموعہ ،آگہی کی منزل ،منظر عام پر آگیا

152

پروفیسر رضیہ ایک خوش فکر شاعرہ کے علاوہ معروف ماہر تعلیم بھی ہیں انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور بحیثیت پرنسپل ریٹائرڈ ہوئیں۔ ان کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن کے نام ہیں سرد آگ‘ خاموش دستک‘ سیپیاں محبت کی‘ مکاں لامکاں اور آگہی کی منزل۔ ’’آگہی کی منزل میں سورۃ فاتحہ کا منظوم ترجمہ‘ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم‘ سلامِ حسینؓ، 74 غزلیں اور 14 نظمیں شامل ہیں۔ ان کی غزلیں دروں بینی‘ داخلی احساسات اور وارداتِ قلبی سے آراستہ ہیں‘ ان کی نظمیں حیرت انگیز طور پر خارجی زندگی کے مشاہدے اور ہمارے اطراف پھیلے ہوئے مناظر کی آئینہ دار ہیں۔ رضیہ سبحان اپنے تجربات و محسوسات کو آسان الفاظ کی شاعری میں ڈھال کر سامعین و قارئین تک پہنچانے کا ڈھنگ جانتی ہیں‘ ان کے یہاں نسائی لب و لہجہ اور مردانہ جدوجہد کے مضامین نظر آتے ہیں۔ حیات و کائنات کے مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہم کس طرح اپنی زندگی بسر کریں‘ ان کی طبیعت میں جدت پسندی اور تازہ کاری کے عناصر پائے جاتے ہیں‘ ان کی ریاضتِ شاعری بے مقصد اور بے ہنری کا شکار نہیں ہے بلکہ یہ نئے نئے افکار‘ جدید تراکیب‘ تلمیحات اور استعارے تراشنے میں مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ:
پائوں میں رختِ سفر باندھ لیا ہے میں نے
دل کو بیگانۂ صد شوق کیا ہے میں نے
ہم نے سیکھا ہی ہنر مندوں سے جینا رضیہؔ
ہم کبھی موت کے ہاتھوں نہیں مرنے والے
چاند کو روشنی عطا کرکے
روز مرتا ہے رات کو سورج
یہ کہاں ضروری ہے کہ ہر چراغ ہو روشن
اک دیے کا جلنا بھی موت ہے اندھیرے کی
اچانک پوچھ کر احوال میرا
وہ میرے غم کو آدھا کر گیا ہے
پروفیسر رضیہ سبحان کے اشعار مفاہیمِ زندگی کے مختلف شعبوں کی نمائندگی کر رہے ہیں‘ ان کی نظمیں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ حالاتِ حاضرہ کی عکاس ہیں۔ انہوں نے مولانا رومیؒ کی جن نظموں کو اردو شاعری میں ڈھالا ہے اس سے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے میرے نزدیک انہوں نے اپنی شاعری میں زمینی حقائق بیان کیے ہیں اور وہ شاعری کبھی نہیں مرتی جو زندگی سے ہم آہنگ ہو۔ رضیہ سبحان ایک مصورہ بھی ہیں ان کی بہت سی تصاویر مصوری کے شعبے میں گراں قدر اضافہ ہے۔

حصہ