یوم تاسیس جماعت اسلامی پاکستان

456

1941 میں 75 افراد اور 74 روپے اور کچھ آنے جماعت ِ اسلامی ایک نئی تحریک ابھر کر سامنے آتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ بہت ساری تحریکوں کے ہوتے ہوئے کیا ضرورت تھی ایک اور جماعت بنانے کی؟
اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو برصغیر میں انگریز کی حکومت تھی اور ظاہر ہے جس کی حکومت اسی کا قانون تھا۔ اور قانون تمام رعایا پر لاگو ہوتا ہے چاہے افراد کسی گروپ‘ کسی بھی مسلک اور مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ مسلمانوں سمیت سب کے لیے وہ قابِل قبول تھا۔ ہاں کچھ ہستیاں ایسی تھیں جنہیں فکر تھی کہ مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے ان کی مسلمانیت میں فرق آچکا ہے اور اب اندھی تقلید انہیں سرے سے مسلمان رہنے ہی نہیں دے گی۔ یہی فکر مندی مختلف محاذ پر نظر آئی اور صحیح سوچ و فکر رکھنے والے افراد میدانِ عمل میں اتر آئے بس یہ ہی وہ زمانہ تھا جب اقتدار انگریزوں کے ہاتھوں سے نکل کر ہندوؤں کے پاس جانے والا تھا اور اگر اس وقت قوم سوئے رہتی اور جگانے والے موجود نہ ہوتے تو آج ہم محکوم مسلمان ہوتے۔
اُس وقت جب مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی ، علامہ اقبال اور دیگر رہنماؤں نے مسلمانوں کی سوچ کا رُخ بدلا اور انہیں ایک نصب العین دیا کہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہیں۔ اور اسی زمانے میں مولانا مودودی نے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں مضامین لکھ کر بند ذہنوں کو کھولنے کی کوشش کی اور جب لگا کہ افراد ان کی بات سے متفق ہیں تو جماعتِ اسلامی کی بنیاد ڈالی۔
ہندوستان کے مسلمان جن میں چار بڑی خرابیاں لادینیت ، منافقت، نفس پرستی اور انتشار تھیں۔ ان کی اصلاح کی ضرورت تھی اور ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے افراد کی تیاری اہم حیثیت رکھتی تھی تاکہ صالح افراد سامنے آئیں اور معاشرے کی اصلاح کر یں۔ سب سے پہلی چیز اس کا نصب العین تھا۔
جماعتِ اسلامی کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین، حکومتِ الہٰیہ اور اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہوگا اور حقیقتاً فلاحِ اخروی اور رضائے الٰہی کا حصول ہوگا۔
یہ نصب العین دلوں میں اتر رہا تھا اور نوجوان ذوق و شوق سے جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھے۔ جماعت کی بنیاد رکھنے والا بھی 22 سالہ نوجوان اور 75 میں سے69 افراد نوجوان تھے۔ یہ ایک پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت تھی اور یہ قافلہ چلا تو موتیوں کی مالا کی طرح بڑھتا چلا گیا اور صالحین کی ایک بڑی جماعت وجود میں آئی۔ متقی، صالح، امانت دار اور عجز و انکسار ی کے پیکر افراد تھے۔ یہ جہاں بھی رہے اپنی انتھک محنت اور لگن سے کام کرتے رہے اور آج دنیا کے اندر جماعتِ اسلامی ایک شاندار پہچان رکھتی ہے۔ وہ زندگی کے تمام ضاشعبوں میں کام کررہی ہے اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں مصروفِ ہے۔
متفقین سے لے کر ذمہ داران تک سب اپنے کام اور مقام پہچانتے بھی ہیں اور حساس دل اور پر عزم جذبے بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے تین نکاتی دعوتی پروگرام کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اور معاشرے کی اصلاح میں مصروف ہیں۔
وہ الخدمت ہو یا بیٹھک اسکول ، وکلا کی تنظیم ہو یا ڈاکٹروں کی پیما تحریک، مدارس کا قیام ہو یا المحصنات میں طالبات کی تیاری کا کام، خارجہ پالیسی ہو یا یوتھ کی تنظیم و تربیت… وہ کون سی جگہ ہے جہاں جماعت اسلامی نظر نہیں آتی۔
لیکن یہاں پر رک کر ہم ضرور سوچیں کہ ہماری کامیابی و ناکامی کا معیار کیا ہے؟ کیا دنیا میں کامیاب ہوجانا ہی اصل فلاح ہے؟ کیا نمرود و ہامان انتہائی طاقت‘ جاہ و حشمت رکھتے ہوئے کامیاب کہلانے کے مستحق ہوں گے یا بظاہر ناکامی کا منہ دیکھنے والے حضرت امام حسینؓ کامیاب ہیں۔ کیا آج اخوان المسلمون کے ہزاروں شہدا کو ہم ناکام کہیں گے؟
حق ہمیشہ فاتح رہتا ہے چاہے دنیا میں اسے کامیابی ملے یا نہ ملے‘ مگر لوگ ہمیشہ حق کو پسند بھی کرتے ہیں اور یاد بھی کرتے ہیں اور ہر سال ہمیں یہ سب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جماعتِ اسلامی بھی حق اور سچ پر ہے اور دنیا اس کو سراہتی بھی ہے اور پسند بھی کرتی ہے اور ناحق پر رہنے والے لوگوں کو اگر کبھی یاد بھی کیا جاتا ہے تو برے الفاظ میں جب کہ صالح افراد وہ علامہ اقبال یا قائدِ اعظم محمد علی جناح ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا مودودی ہوں یا حسن البناء شہید یا شیخ احمد یاسین نہ صرف دل و دماغ میں زندہ ہیں ا ورقیامت تک اُن کا تذکرہ کیا جاتا رہے گا اور لوگ ان کی قائدانہ صلاحتیوں سے سیکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
یومِ تاسیس ہمیں ہمارے رہنما سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نصب العین کو دہرانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ آج تجدیدِ عہد کا دن پھر سے عزم و ہمت کو یک جا کرنے کا دن ہے۔
آیئے! ہم سب پھر رب العالمین سے کیے گئے عہد کو زندہ کریں‘ اپنے مشن اور نصب العین پر جم جائیں۔ اللہ ہمیں اس وعدے کو وفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین۔

حصہ