جامعہ الازہر (از آغاز تا 1955۔۔۔ایک اجمالی جائزہ

1867

جامعہ ازہر دنیا کی ان چند درس گاہوں میں سرفہرست ہے جو اپنی قدامت اور شہرت کے لیے ممتاز ہیں۔ اس کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے‘ اس مختصر گفتگو میں اس کے متعلق صرف چند باتیں ہی کہی جاسکتی ہیں۔
مشہور فاطمی حکمراں معز کے عہد حکومت میں اس کے سپہ سالار جوہر صعقلی نے 358ہجری بمطابق 969ء میں مصر فتح کیا۔ فسطاط کے قدیم شہر کے مضافات میں جبل مقطم کے دامن میں ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی اور اپنے آقا کے نام پر اس کا نام ’’قاہرہ معزیہ‘‘ رکھا۔ قصر شاہی کے جنوبی گوشے میں ایک عالی شان مسجد کی بنیاد رکھی۔ 24 جمادی الاوّل 359ہجری بمطابق 4 اپریل 970ء کو اس کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا اور 7 رمضان 361ہجری (22 جون 972ء) کو اس کی افتتاحی تقریب عمل میں آئی۔ معز کے جانشین عزیز کے عہد میںمسجد کے پہلو میں اساتذہ کی رہائش کے لیے ایک بڑی عمارت تعمیر کی گئی۔ عزیز کے بعد اس کے بیٹے حاکم کے عہد حکومت میں 400 ہجری میں طلبہ کی کثرت کی وجہ سے ایک نئی عمارت کا اضافہ کیا گیا اور مصارف کے لیے اوقاف قائم کیے گئے۔ مستنصر کے زمانے میں عمارتوں میں مزید توسیع ہوئی۔ وہ آخری فاطمی بادشاہ جس کے دور میں جامعہ ازہر کی عمارتوں میں اضافے ہوئے‘ حافظ (44 ہجری بمطابق 1130-49ء) تھا
جب بنو فاطمہ کی بساط سیاست الٹی اور آل ایوب حکمران ہوئے تو عملاً الازہر کی درس گاہ بند کر دی گئی۔ مملوک سلاطین کے عہد حکومت میں اس درس گاہ کو پھر اگلی سے رونق حاصل ہوئی اور اس کی عمارتوں میں توسیع کی گئی۔ سلطانی بیبرس نے اس کی توسیع کی اور مسجد کو دوبارہ سنیوں کے لیےکھول دیا اور کسی قدر وقف بھی کیا۔ پھر امیر سلار‘ امیر قلائوون اور بل بک خازندارنے اپنے اپنے عہد میں پرانی عمارتوں کی مرمت‘ نئی عمارتوں کی تعمیر اور نئے اوقاف قائم کیے۔
ممالیک کے جانشین سلاطین عثمانیہ ہوئے۔ آل عثمان نے بھی جامعہ ازہر کی ضروریات کو مدنظر رکھا۔چانچہ عثمانی گورنر حسن پاشا‘ قاصد اوغلو اور عبدالرحمن کتخدا نے عمارات میں اضافے کیے اور بڑھتے ہوئے مصارف کے لیے نئے اوقاف قائم کیے۔
1220ہجری (1805ء) میں محمد علی پاشا مصر کا عثمانی گورنر ہوا۔ اس کے عہد میں مصر سلطنت عثمانیہ سے الگ ہو کر ایک نیم خود مختار ملک قرار پایا۔ محمد علی اور اس کے جانشینوں کا دورِ حکومت مصر کی ترقی اور خوش حالی کا عہد ہے۔ چنانچہ الازہر میں بھی نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ محمد علی نے الازہر میں نئے رواق (ہاسٹل) قائم کیے۔ 1302ہجری بمطابق 1889ء میں خدیو توفیق پاشا نے اور 1309ہجری بمطابق 1892ء میں خدیو عباسی حلمی پاشا نے نئی نئی عمارتوں سے جامعہ ازہر کی پہنائیوں میں وسعت پیدا کی۔ اسی زمانے میں یہاں ایک بڑا کتب خانہ بھی قائم کیا گیا۔ 1354ہجری بمطابق 1935ء میں طلبہ کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ ازہر کے گردونواح کی مساجد کو درس گاہ کی ملحقہ عمارتوں کے بطور استعمال کیا جانے لگا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے حکومت مصر نے الازہر کی وسعت کے پیش نظرایک نئے شہر جامعہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ قاہرہ کے مضافات میں دراسہ اور عباسیہ کے درمیان ایک وسیع و عریض قطعہ زمین پر تعمیرات کا آغازہوا۔ ان تمام عمارتوں کا نام ’’مدینۃ الازہر‘‘ رکھا گیا۔ اس میں جامعہ ازہر کا مرکزی ادارہ‘ ماتحت درس گاہیں‘ اقامت گاہیں اور کتب خانے شامل ہیں۔ نئے شہر کی یہ تمام عمارتیں قدیم عمارات سے ملا دی گئی ہیں۔ اس طور سے ہزار سال کے طویل زمانے میں ازہر‘ جس کا آغاز ایک مسجد سے ہوا تھا‘ عہد حاضر کی ایک وسیع و عریض درس گاہ بن گیا۔ اس جامعہ کی بنیاد اس لیے رکھی گئی تھی کہ مذہب اسماعیلی کے مبلغ اور داعی تیار کیے جائیں جو نو مفتوحہ ملک میں نئے مذہب کی ترویج و اشاعت کا کام انجام دیں‘ اس لیے ازہر کا ابتدائی نصاب اسماعیلی حدیث و فقہ تک محدود تھا۔ 372ہجری میں عزیز کا وزیر یعقوب بن کلیس‘ جو بڑا علم دوست اور معارف پرور تھا‘ ازہر کے نصابِ تعلیم میں اصلاح کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے اسماعیلی مذہب کے درسیات کے علاوہ عربی ادب‘ فلسفہ‘ منطق اور علوم نظری و عملی کی تعلیم کا اجراء کیا۔ پینتیس معلمین کی ایک جماعت مقرر کی جن کا صدر معلم قاضی الخندق ابو یعقوب تھا۔ حاکم کے زمانے میں مشہور مسلمان سائنس دان و ماہر بصریات ابن الہیشم نے بھی اس جامعہ یں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ المستنصر باللہ کے عہد میں اسماعیلی مذہب کے علاوہ مذاہب جعفری، مالکی اور شافعی کی تعلیم کے بھی انتظامات کیے گئے۔ اس زمانے میں مشہور ایرانی فلسفی حکیم ناصر خسرو اور ممتاز اسماعیلی عالمی و داعی مؤید شیرازی نے بھی یہاں تدریس کی خدمات انجام دیں۔
مملوکوں کے دور میں جامع اذہر کو ازسرِ نو درس و تدریس کے لیے کھول دیا گیا۔ یہاں فقہ شافعی کی تعلیم کی غرض سے 665ہجری (1266ء) میں امیربل بک خازندار نے سرمائے کا انتظام کیا اور ساتھ ہی ساتھ حدیث و قرآن کے اساتذہ بھی مقرر کیے۔ سلطان ناصر کے عہد (761ہجری / 1360ء) میں ازہر میں فقہ حنفی کا حلقہ درس قائم کیا گیا۔ بعدازاں اہل سنت کے چاروں مسلکوں (حنفی‘ مالکی‘ شافعی اور حنبلی) کے فقہی تدریس کے انتظامات کیے گئے اور مذاہب اربعہ کے الگ الگ شیوخ مقرر کیے گئے۔ ان دنوں یتیم طلبہ کے لیے ایک الگ مدرسہ بھی قائم کیا گیا۔
اب سے ایک صدی پہلے تک الازہر بنیادی طور پر علوم قرآن‘ تجوید و تفسیر‘ علوم حدیث و اصول کے علاوہ فقہ حنفی‘ مالکی‘ شافعی اور حنبلی کی درس گاہ تھا۔ طلبہ کی تقسیم بھی انہی فقہی مسالک کے مطابق ہوتی تھی اور وہ اپنے اپنے مسالک کے شیوخ و اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے‘ ان کے رواق (ہاسٹل) بھی الگ الگ ہوتے تھے۔ یہاں صبح کو تفسیر‘ حدیث و فقہ کا درس ہوتا تھا۔ دوپہر کو عربی زبان پڑھائی جاتی تھی اور ظہر کے بعد دیگر مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی مگر امتحان کا کوئی طریقہ رائج نہ تھا۔ 1288ہجری بمطابق 1873ء میں حکومت نے امتحان کا طریقہ رائج کیا اور اعلیٰ جماعت میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو الشہادۃ العالمیۃ (عالم کی سند) دینے کا حکم نافذ کیا۔ اسی سال اعلیٰ تعلیم کا ایک اور دارالعلوم بھی قائم کیا گیا۔ شیخ محمد عبدہ کی تحریئک پر 1313ہجری (1895ء) میں خدیو عباس حلمی نے الازہر کے نظم و نسق کی نگرانی کی غرض سے ایک مجلس ’’ادارۃ الازہر‘‘ کے نام سے قائم کی اسی سال قاہرہ کی باہر طنطا‘ دمیاط اور وسوق کی دینی درس گاہوں کو ازہر سے ملحق کر دیا گیا۔ 1314ہجری مطابق 1896ء میں ازہر میں ایک قانون کے ذریعے نئی اصلاحات کا نفاذ ہوا اور ’’ادارۃ الازہر‘‘ میں جامعہ ازہر کے تین علما اور دو سرکاری افسروں کو شامل کیا گیا۔ طلبہ کے داخلے کے لیے کم از کم عمر کا تعین کیا گیا جو ابتدا میں پندرہ سال تھی اور 1355ہجری مطابق 1936ء کی اصلاحات کی رو سے مصری طلبہ کے لیے سولہ اور غیر مصری طلبہ کے لیے اٹھارہ سال ہے۔ ان طلبہ کے لیے لکھنے پڑھنے سے واقفیت اور نصف قرآن کے حافظ ہونے کی شرط عائد کی گئی۔ البتہ غیر مصری طلبہ کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ 1314ہجری مطابق 1896ء کی اصلاحات کا ایک اہم نقطہ یہ تھا کہ ازہر میں مدت تعلیم کا تعین کیا گیا۔ بارہ سال کی اس مدت میں پہلا امتحان آٹھ سال کی تدریس کے بعد لیا جانے لگا اور کامیاب طلبہ کو ’’الشہادۃ الاہلیہ‘‘ (اہلیت کی سند) دی جانے لگی۔ بارہ سال کی مدت مکمل کرنے والے طلبہ کو ’’الشہادۃ العالمیۃ (عالمیت کی سند) مستحق قرار دیا گیا۔ اسی طرح نصاب تعلیم میں عصر جدید کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا اور تعطیلات کی مدت مقرر کی گئی۔ ریاضی‘ جغرافیہ‘ تاریخ اور قانون بین الممالک کو نصاب کا جزو قرار دیا گیا۔ عربی کے علاوہ جدید مغربی زبانوں میں سے فرانسیسی اور انگریزی کی تعلیم بھی ضروری قرار پائی۔
1903ء میں اسکندریہ میں بھی ازہر کے طرز پر ایک درس گاہ قائم کی گئی اور اس کا الحاق ازہر سے کر دیا گیا۔ اسی طرح 1907ء میں شرعی عدالتوں کے لیے قاضیوں کی تربیت کی غرض سے ازہر میں ایک مدرسہ قانون کا قیام عمل میںآیا۔ 1908ء میں نصاب تعلیم میں ازسر نو اصلاح کی گئی۔ پورے نصاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ہر حصے کی مدت تدریس چار سال قرار پائی اور اس مدت کے اختتام پر امتحان کا طریقہ رائج کیا گیا جس کے بعد بالترتیب ابتدائی‘ ثانوی اور اعلیٰ جماعتوں کی تکمیل کی سند دی جانے لگی۔ اس طرح 1911ء میں یہ قانون نافذ کیا گیا کہ شیخ الازہر کا تقرر خدیو مصر کرے گا۔ ادارۃ الازہر کی بھی توسیع کی گئی۔ اس کے ارکان میں شیخ الازہر کے علاوہ چاروں مذاہب کے شیوخ‘ اوقاف کا ناظم اعلیٰ اور کابینہ وزرا کے نامزد تین ارکان‘ کُل نو افراد شامل کیے گئے۔ اسی طرح تیس صدور شعبہ (شیوخ) کا ایک بورڈ تشکیل دیا گیا جن میں سے شیخ الازہر کا انتخاب ہوتا تھا۔ 1930ء میں ادارۃ الازہر میں اور توسیع کی گئی‘ 1936ء میں نصاب تعلیم میں مزید ترمیم کی گئی اور جدید زبانوں میں فرانسیسی اور انگریزی کے علاوہ فارسی و ترکی کو شامل کیا گیا۔ اسی طرح سائنسی مضامین کا بھی اضافہ کیا گیا۔
اس وقت الازہر کی ہیئت ترکیبی یوں ہے۔ پوری جامعہ تین کلیات‘ کلیہ شریعت‘ کلیہ اصولِ دین اور کلیہ عربی پر مشتمل ہے جن میں مدت تعلیم پندرہ سال ہے۔ ان میں سے ہر ایک میں ابتدائی جماعتوں کا نصاب چار سال‘ ثانوی جماعتوں کا پانچ سال اور اعلیٰ جماعتوں کا چھ سال ہے۔ ان تینوں کلیات (فیکلٹیز) میں عہدِ جدید کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے جس میں ایم اے اور پی ایچ ڈی بھی شامل ہے۔ ازہر کا ’’قسم البعوث‘‘ غیر ملکی طلبہ کے لیے مختص ہے اور اس میں چار‘ چار سال کے تین درجے ہیں۔
جامعہ ازہر میں عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق برابر اصلاحات کی جارہی ہے۔ چنانچہ 1854ء میں طالبات کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ 1955ء میںازہر کی مرکزی درس گاہ کے ساتھ ساتھ قاہرہ‘ منصورہ‘ طنطا‘ سیوط کی درس گاہوں کا الحاق کیا گیا۔ غرض اصلاحی و ترقی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
جامعہ ازہر کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس میں طلبہ سے ملکی ہو یا غیر ملکی‘ کوئی فیس نہیں لی جاتی‘ ان کے قیام و طعام کے سارے انتظامات حکومت کی جانب سے کیے جاتے ہیں اور انہیں وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ الازہر کے یہ تمام اخراجات محکمہ اوقاف اور مصری حکومت پورے کرتی ہے۔

حصہ