سرسبز و شاداب پاکستان کیسے؟

655

موجودہ حکومت ملک کو سرسبز و شاداب بنانے آلودگی سے پاک اور موسمی شدت سے اعتدال میں لانے کے لیے دس بلین ٹری منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ یہ منصوبہ اپنی اہمیت، افادیت اور ضرورت کے اعتبار سے کس قدر ضروری ہے اس کا ادراک سابقہ حکومتوں نے نہیں کیا تھا مگر دیر آید درست آید کے مصداق موجودہ حکومت نے آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو اقدام اٹھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس سلسلے میں چند تجاویز لیے حاضر ہوں امید ہے کہ ارباب اختیار و اقتدار ان پر توجہ فرمائیں گے۔ کراچی میں 1950ء کی دہائی میں کیکر کے بیج کا اسپرے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں اس شہر میں جابجا کیکر کے درخت نظر آتے تھے مگر پھر ایندھن کی ضرورت اور امکانات کی تعمیر نے اسے ناپید کردیا۔ آج جب ہم اپنے بچوں سے ان درختوں کا ذکر کرتے ہیں تو مشاہدہ کے لیے درخت نہیں دکھا پاتے۔ یاد رہے کہ کیکر کے درخت بنا پانی کے نمو پاتے اور موسم کی شدت کو قابو میں رکھنے میں مددگار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1990ء کی دہائی تک کراچی کا موسم انتہائی معتدل رہا کرتا تھا۔ نہ شدید سردی ہوتی تھی اور نہ ہی گرمی کی شدت محسوس کی جاتی تھی بلکہ مجھے خوب یاد ہے کہ جون جولائی میں موسم آبرآلود رہا کرتا تھا اور اکثر پھوار یا ہلکی بوندا باندی معمول کی بات تھی۔ اگر آج بھی کراچی اور اس کے گردونواح میں کیکر کے بیجوں کا فضائی اسپرے کیا جائے تو امید ہے کافی بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ خصوصاً ملیر ندی، لیاری ندی کے کناروں پر درخت لگائے جائیں تو بھی کراچی کے موسم کی شدت کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔
1985ء میں شہر قائد کے میئر مرحوم عبدالستار افغانی نے دو بڑی تجاویز پیش کی تھیں جن میں سے ایک ملیر ندی کے پانی کو سمندر میں لے جا کر ضائع کرنے کے بجائے گڈاپ کے قریب مول ڈیم بنانے کی تجویز تھی جس کا مقصد ایک طرف برساتی پانی کو ذخیرہ کرنا تو دوسری طرف سیروسیاحت اور ماہی پروری کو فروغ دینا تھا۔ عبدالستار افغانی کی معزولی کے بعد یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہا پھر جنرل پرویز مشرف کی دور حکومت میں اس تجویز کو کچھ ردوبدل کے بعد قابل عمل بنایا گیا اور یوں تھدو ڈیم کی تعمیل مکمل ہوئی جس کی بدولت گڈاپ اور گردونواح کی سرسبز و شاداب زمین کو بنجر ہونے سے بچانے میں خاصی مدد ملی ہے اور زیر زمین پانی کی سطح جو 300 فٹ تک گر گئی تھی کافی بہتر ہوئی ہے۔
میئر عبدالستار افغانی نے دوسری تجویز یہ پیش کی تھی کہ سمندر کے ساتھ ساتھ بیس کلو میٹر کی چوڑائی پر ناریل کے درخت لگائے جائیں جس سے جہاں آلودگی میں کمی ہوگی وہیں ناریل اور ناریل کے تیل کو منگوانے پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ کو بھی بچایا جاسکے گا۔ اس سلسلے میں کورنگی میں ناریل کے درختوں کی افزائش کی خاطر ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا گیا تھا جو پھر نہ جانے کیوں فعال نہ ہوسکا۔ دنیا کے جن ممالک میں ناریل کی کاشت ہوتی ہے وہ اکثر سمندر کے کنارے کے علاقے پر ہی ہوتی ہے ہمارے پاس تو کئی سو کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی موجود ہے اگر ناریل کے درخت لگائے جائیں تو جہاں اس سے روزگار ملے گا وہیں کثیر زرمبادلہ بھی بچایا جاسکتا ہے۔
جب ہم کراچی سے کوئٹہ کی طرف سفر کرتے ہیں تو آر سی ڈی ہائی وے کے دونوں جانب ایسے درخت لگائے جاسکتے ہیں جو خود رو ہو یا جو بہت کم پانی میں بھی نشونما پاسکتے ہیں۔ اسی طرح ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ جیکب آباد سے آب گم تک بھی ایسے درخت لگانے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے سب سے بہترین موقع موسم برسات سے قبل کا ہوسکتا ہے کہ اس دوران کی جانے والی کوششیں خاص بار آور ہوسکتی ہیں بلکہ سبّی کے بعد پہاڑی میں ایسے خودرودرخت اور جھاڑیاں اُگائی جاسکتی ہیں جو موسم برسات کے محدود موقع پر ہی کار آمد ہو۔ ملک بھر میں پھیلی ہوئی ریلوے لائن کے کناروں پر ایسے درخت لگائے جائیں جو کم پانی میں بھی نمو پاسکیں۔ اسی طرح ملک بھر میں پھیلی ہوئی شاہراہوں کے کناروں پر بھی شجرکاری مہم کے ذریعے درخت لگا کر ملک کو سرسبز و شاداب بنایا جاسکتا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ شیرشاہ سوری کی تعمیر کردہ پشاور تا کلکتہ سڑک کے دونوں جانب اس قدر درخت لگے ہوئے تھے کہ مسافر جہاں بھی چاہتے تھک کر سائے میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اسی طرح دیگر راہگزر کے بارے میں بھی یہی انداز ملتا ہے۔ آج بھی اگر حقیقی طور پر سنجیدہ کوشش کی جائے تو ملک کو سرسبز و شاداب بنایا جاسکتا ہے جو مستقبل قریب میں آنے والے خطرات، موسموں کی شدت سے محفوظ رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

حصہ