قیصر و کسریٰ قسط (11)

341

عاصم نے جواب دیا ’’اگر میں اگلے مہینے تک زندہ رہا اور ایک حسین دشمن کو دیکھنے کی خواہش پر قابو نہ پاسکا تو ضرور آئوں گا۔ لیکن اس کا انجام کیا ہوگا؟‘‘
’’مجھے معلوم نہیں! میں منات اور عزیٰ سے یہ دعا کروں گی کہ وہ مجھے آپ کو دیکھنے کے لیے بے چین نہ ہونے دیں۔ لیکن آپ ضرور آئیں، ممکن ہے میری دعائیں قبول نہ ہوں‘‘۔
عاصم گھوڑے پر سوار ہوگیا اور کچھ دیر خاموشی سے سمیرا کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا ’’میں نہیں کہہ سکتا کہ منات اور عزیٰ سے میری دعائیں کیا ہوں گی۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ اگر اس طرف نہ آسکا تو بھی یہ راستہ نہیں بھولوں گا‘‘۔
’’میں نے آپ کا نام نہیں پوچھا‘‘۔
’’میرا نام عاصم ہے۔ عاصم بن سہیل۔ لیکن تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم کسی سے میرا ذکر نہ کرو‘‘۔
’’میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اُس تاب ناک ستارے کے سوا کسی سے آپ کا ذکر نہیں کروں گی‘‘۔
’’اگر اُس ستارے کی زبان ہوتی تو وہ تم سے یہ کہتا کہ عاصم تمہارے باپ، تمہارے بھائیوں اور تمہارے قبیلے کا دشمن ہے۔ اُس کے لیے تمہارے دل میں نفرت اور حقارت کے سوا اور کوئی جذبہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ عاصم نے یہ کہہ کر گھوڑے کو ایڑ لگادی۔ سمیرا آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی ہوئی گھر کی طرف چل دی۔ راستے میں وہ بار بار کہہ رہی تھی… ’’کاش، تم سہیل کے بیٹے نہ ہوتے! کاش، تم یہاں نہ آتے!‘‘
عاصم اپنے مکان کی چار دیواری کے قریب پہنچا تو عباد باہر کھڑا اُس کا انتظار کررہا تھا۔
’’آپ نے بہت دیر لگادی‘‘۔ وہ آگے بڑھ کر گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے بولا۔
عاصم نے گھوڑے سے اُترتے ہوئے کہا ’’تمہیں آرام کرنا چاہیے تھا‘‘۔
عباد نے شکایت کے لہجے میں جواب دیا ’’یہاں آرام کون کرسکتا ہے، آپ کے چچا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ وہ تین بار مجھے گالیاں دے چکے ہیں‘‘۔
’’تم نے انہیں کچھ بتایا تو نہیں؟‘‘
نہیں! میں نے ان کی تسلی کے لیے کہہ دیا تھا کہ ہمارا ایک گھوڑا کہیں بھاگ گیا ہے اور آپ اُسے تلاش کررہے ہیں۔ آپ جلدی سے اندر جائیں، وہ بہت پریشان ہیں‘‘۔
عاصم تیز تیز قدم اٹھاتا صحن میں داخل ہوا۔ اُس کے قدموں کی چاپ سن کر ایک لڑکا کمرے سے باہر نکلا اور بھاگ کر اُس سے لپٹ گیا یہ اُس کا چچا زاد بھائی سالم تھا۔
’’ابا جان! بھائی عاصم آگئے!‘‘ اُس نے پکار کر کہا۔
ہبیرہ اور اُس کی بیوی لیلیٰ کمرے سے باہر نکلے‘ عاصم نے سالم کو ایک طرف ہٹا کر اپنی چچی کو سلام کیا اور اس کے بعد ہبیرہ سے بغل گیر ہوگیا۔
ہبیرہ نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ عاصم آج تم نے بھی بہت پریشان کیا۔ اگر تم تھوڑی دیر اور نہ آتے تو میں تمہاری تلاش میں نکلنے والا تھا۔ وہ گھوڑا مل گیا؟‘‘
’’نہیں! وہ بستی کے قریب پہنچتے ہی اچانک ایک طرف بھاگ گیا اور مجھے اُس کا سراغ نہ مل سکا‘‘۔
’’تمہیں اتنے کامیاب سفر کے بعد ایک گھوڑے کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہ تھی چلو اندر چلیں!‘‘
’’سعاد کہاں ہے؟‘‘
’’وہ کھڑی ہے‘‘۔ لیلیٰ نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
سالم نے کہا ’’بھائی جان! سعاد آپ سے روٹھ گئی ہے، وہ کہتی ہے کہ آپ نے بہت دیر لگائی ہے‘‘۔
عاصم نے آگے بڑھ کر سعاد کو چمٹا لیا اور اُس کی ٹھوڑی پکڑ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر میری ننھی بہن مجھ سے خفا ہے تو میں ابھی واپس چلا جائوں گا!‘‘
سعاد مسکرائی’’ سالم جھوٹ کہتا ہے‘‘۔
وہ ایک کشادہ کمرے میں داخل ہوئے اور چٹائی پر بیٹھ گئے‘ عاصم نے کہا ’’سعاد! میں تمہارے لیے دمشق سے کپڑے اور یروشلم سے انگوٹھی لایا ہوں۔ اور چچی جان! آپ کے لیے بھی!!
لیلیٰ نے کہا ’’سعاد اپنے بھائی کے لیے کھانا لائو!‘‘
سعاد دوسرے کمرے میں چلی گئی‘ ہبیرہ نے کہا ’’بیٹا! میں اس کامیاب سفر پر تمہیں مبارک باد دیتا ہوں، یہ تلواریں بہت اچھی ہیں، صرف کپڑا بیچ کر ہم شمعون کا سارا قرضہ اتار سکیں گے لیکن یہ گھوڑے اور اونٹ تمہیں کیسے مل گئے؟‘‘
’’چچا جان یہ آوارہ پھر رہے تھے اگر چند دن تک ان کا وارث نہ آیا تو یہ ہمارے ہیں‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’بیٹا! لوگ اپنے جانور یونہی راستے میں نہیں چھوڑ جاتے، تم مجھ سے کوئی بات چھپا تو نہیں رہے؟‘‘
’’نہیں چچا جان‘‘ عاصم نے اپنی پریشانی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
ہبیرہ نے کہا ’’اب ہمارے قبیلے کا ہر آدمی یہ تلواریں حاصل کرنے کی کوشش کرے گا لیکن ہم صرف اُن لوگوں کے ہاتھ فروخت کریں گے جو دشمن سے لڑنے کا عہد کریں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’چچا جان! میرا کام تلواریں لانا تھا۔ یہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ ان کا حق دار کون ہے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’امن کے دن ختم ہونے کے بعد تمہیں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ تمہاری اس کامیابی کے بعد بنوخزرج حسد کی آگ سے جل اٹھیں گے‘‘۔
’’آپ میری فکر نہ کریں۔ میں اپنی حفاظت کرسکوں گا‘‘۔
سعاد نے کھانا لا کر عاصم کے سامنے رکھ دیا اور ہبیر نے کہا ’’بیٹا تم کھانا کھاتے ہی سوجائو۔ صبح اطمینان سے باتیں کریں گے‘‘۔
’’عباد کھانا کھا چکا ہے؟‘‘ عاصم نے سوال کیا؟
’’ہاں‘‘۔ ہبیرہ نے جواب دیا۔
O
رات کے پچھلے پہر شمعون کے نوکر نے اسے جگایا اور اطلاع دی کہ دائود واپس آگیا ہے اور اسی وقت آپ سے ملنے پر مصر ہے۔
شمعون بدحواس ہو کر اپنے کمرے سے باہر نکلا اور آنکھیں ملتا ہوا مہمان کے کمرے میں داخل ہوا۔
دائود اندر بیٹھا تھا۔ شمعون نے اُسے دیکھتے ہی پوچھا۔ کیا ہوا تم واپس کیوں آگئے؟‘‘
’’ہم پر راستے میں کسی نے حملہ کردیا تھا‘‘۔
’’عمیر کا کیا بنا؟‘‘
’’ہم اُسے ادھ موا کرچکے تھے لیکن یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ رات کے وقت کسی نامعلوم دشمن کا حملہ اس قدر اچانک تھا کہ ہمیں سب کچھ چھوڑ کر بھاگنا پڑا‘ وہ میرے دو اونٹ اور پانچ گھوڑے لے گئے ہیں‘‘۔
’’بدوہوں گے!‘‘
’’نہیں! میرے گھوڑے اور اونٹ یثرب کی طرف آئے ہیں ہم نے اُن کے نشان دیکھے ہیں، اگر راستے میں رات نہ ہوجاتی تو ہم ڈاکوئوں کے گھر تک پہنچ جاتے۔ اگر وہ آگے نہیں نکل گئے تو میرے آدمی صبح ہوتے ہی اُن کا کھوج لگالیں گے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکو یہیں سے ہمارے پیچھے لگ گئے تھے‘‘۔
شمعون مضطرب ہو کر بولا۔ ’’میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا، مجھے تمام واقعات سنائو!‘‘
دائود نے کہا ’’ہم کل رات عمیر کو رسیوں میں جکڑ کر زدوکوب کررہے تھے کہ ڈاکوئوں نے اچانک حملہ کردیا۔ ایک تیر میرے غلام کو لگا اور ہمیں بھاگنا پڑا۔ تاریکی میں ہم یہ نہ دیکھ سکے کہ حملہ آور کون ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے، وہاں سے کوئی سات کوس دور بدوئوں کی ایک بستی تھی، ہم وہاں پہنچ گئے۔ بدوئوں کا سردار ہمارا واقف نکلا۔ اُس نے میرے زخمی نوکر کو اپنے پاس ٹھہرالیا اور ہماری مدد کے لیے بیس آدمی ساتھ کردیے لیکن جب ہم واپس اُس جگہ پہنچے تو میرے گھوڑے اور اونٹ غائب تھے‘ ہم باقی رات اِدھر اُدھر تلاش کرتے رہے اور صبح کی روشنی میں اونٹوں اور گھوڑوں کے تازہ نشان دیکھ کر یثرب کی طرف چل پڑے، بدوئوں نے دن بھر ہمارا ساتھ دیا لیکن غروب آفتاب کے وقت یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ اگر ڈاکو یثرب کے رہنے والے ہیں تو ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ میں اپنے نوکروں کو تلاش جاری رکھنے کا حکم دے کر آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ اگر صبح تک پتا چل گیا تو شاید اپنا مال چھڑانے کے لیے مجھے آپ کی اعانت کی ضرورت پڑے‘‘۔
’’لیکن عمیر کا کیا بنا؟‘‘ شمعون نے سوال کیا۔
’’مجھے معلوم نہیں! ہم نے رات کے وقت اپنے پڑائو میں آگ جلائی تھی، لیکن جب ہم بدوئوں کو ساتھ لے کر واپس پہنچے تو آگ بجھ چکی تھی‘‘۔
شمعون نے تلخ ہو کر کہا ’’تم نے رات کی تاریکی میں صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ تمہارے اونٹ اور گھوڑے غائب ہیں اور تمہیں اس بات کا خیال نہ آیا کہ میرے لیے عمیر کا مسئلہ خیبر کے تمام گھوڑوں اور اونٹوں سے زیادہ اہم ہے، اگر وہ زندہ ہے تو یثرب کے طول و عرض میں میرے خلاف غم و غصہ کی آگ بھڑک اُٹھے گی‘‘۔
دائود نے جواب دیا ’’یہ درست ہے کہ ہم نے عمیر کو وہاں نہیں دیکھا۔ اور میں نے اُسے رات کے وقت اِدھر اُدھر تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ مرچکا ہوگا‘‘۔
’’لیکن تم کہتے ہو کہ تم نے اُس کے ہاتھ پائوں باندھ دیے تھے۔ کیا اب میں اس بات پر یقین کرلوں کہ مرنے کے بعد وہ اپنی رسیاں کھول کر بھاگ گیا ہے؟‘‘
’’ممکن ہے کہ ڈاکوئوں نے اُسے کہیں دفن کردیا ہو!‘‘
’’میں نے آج تک لاوارث لاشوں کو ٹھکانے لگانے والے ڈاکو نہیں دیکھے۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ زندہ ہو اور ڈاکو اُسے اپنے ساتھ لے آئو ہوں اور صبح تک نیوخزرج کے سیکڑوں آدمی میرے گھر کے سامنے جمع ہوجائیں۔ اگر یہ صورت ہوئی تو تمہیں اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کا مسئلہ اس قدر اہم نظر نہیں آئے گا۔ تم اتنے بیوقوف اور بزدل تھے کہ ایک آدمی رسیوں میں جکڑا ہوا تھا اور تم بھاگنے سے پہلے اُسے موت کے گھاٹ نہ اُتار سکے!‘‘
دائود نے کہا ’’اگر مجھے ملامت کرنے سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے تو میں احتجاج نہیں کروں گا لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ڈاکوئوں نے بھاگنے سے پہلے اُس کی رسیاں کاٹ دی ہوں اور وہ کہیں آس پاس پڑا اپنے آخری سانس گن رہا ہو‘‘۔
شمعون نے جھنجھلا کر کہا ’’تم مجھے صرف ایک جواب دے سکتے ہو اور وہ یہ ہے کہ میں نے اپنے ایک بیوقوف رشتہ دار پر اعتماد کرنے میں غلطی کی ہے۔ اب تم یہیں بیٹھو، میں ابھی آتا ہوں‘‘۔
شمعون باہر نکل گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر دائود کے قریب بیٹھ گیا۔
’’آپ کہاں گئے تھے؟‘‘ دائود نے مرجھائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
میں نے اپنے نوکر کو عمیر کے گھر بھیجا ہے۔ اگر ڈاکو اُسے اپنے ساتھ لے آئے ہیں تو اس وقت اُسے اپنے گھر میں ہونا چاہیے۔ اور اگر وہ گھر نہیں پہنچا تو تمہیں فوراً واپس جا کر اُسے تلاش کرنا پڑے گا۔ اگر وہ زندہ ہے تو ہمارے لیے اُسے قتل کرنا ضروری ہے!‘‘
دائود نے کہا ’’آپ کو اُس کے متعلق اس قدر پریشان نہیں ہونا چاہیے، اگر وہ زندہ ہے تو صرف میرے لیے کسی خطرے کا باعث ہوسکتا ہے اور میں اپنی صفائی میں یہ کہہ سکوں گا کہ جب ڈاکوئوں نے حملہ کیا تھا ہم بھاگ گئے تھے اور عمیر اُن کا مقابلہ کرتے ہوئے زخمی ہوگیا تھا۔ پھر جب میں یہ بتائوں گا کہ ڈاکوئوں نے میرے ایک نوکر کو بھی زخمی کردیا تھا تو یہ بات اور وزنی ہوجائے گی‘‘۔
شمعون نے تلخ ہو کر کہا ’’لیکن جب عمیر یہ کہے گا کہ تم نے اُسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی تو اہل یثرب تمہاری بات کیسے مانیں گے؟‘‘
’’اگر یثرب کے یہودی میری وکالت کریں گے تو بنوخزرج کو مجھے جھٹلانے کی جرأت نہ ہوگی‘‘۔
’’لیکن میں عدی کو کیا جواب دوں گا! میں اُس سے کہہ چکا ہوں کہ عمیر میرے گھر سے دو سو دینار چوری کرکے کہیں بھاگ گیا ہے‘‘۔
’’میں تمہارے حق میں یہ گواہی دوں گا کہ میں نے ڈاکوئوں کے حملہ کرنے سے پہلے عمیر کے پاس دو سو دینار دیکھے تھے لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ چوری کا مال ہے‘‘۔
شمعون نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا ’اگر عمیر زندہ ہے تو تمہیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ وہ تمہارے ساتھ سفر کررہا تھا‘ تمہارے لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ تم پر ڈاکوئوں نے حملہ کیا تھا اور تم کچھ دیر مقابلہ کرنے کے بعد بھاگ گئے۔ تمہارے ہاتھوں اُن کا ایک آدمی زخمی ہوا تھا لیکن رات کے وقت تم یہ معلوم نہیں کرسکے کہ وہ کون ہے، پھر اگر عمیر نے ہم پر کوئی الزام لگایا تو ہم کہہ سکیں گے کہ وہ چوری کا جرم چھپانے کے لیے اُلٹا ہمیں بدنام کرنا چاہتا ہے، اگر تمہارے گھوڑے اُس کے گھر سے مل گئے تو ہمیں لوگوں کو یہ یقین دلانے میں دقت پیش نہیں آئے گی کہ عمیر ڈاکوئوں کے ساتھ تھا لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں اس وقت ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ عمیر زندہ ہے یا مر گیا‘‘۔
دائود نے کہا ’’خدا کی قسم! ذہانت میں عرب کا کوئی آدمی آپ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ آپ کو یثرب کے تمام یہودیوں کا سردار ہونا چاہیے تھا۔ کنانہ، حارث اور کعب آپ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتے‘‘۔O
(جاری ہے)
طلوع سحر سے کچھ پہلے عمیر بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ نعمان اور سمیرا اُس کے پائوں کی طرف اور عدی اور عتبہ اُس کے قریب دوسرے تخت پر بیٹھے تھے۔
عدی نے کہا ’’بیٹا! مجھے یقین ہے کہ شمعون نے تم پر بہتان باندھا ہے۔ میں اُسے مرتے دم تک معاف نہیں کروں گا۔ لیکن تمہیں چھڑانے والے کون تھے؟ کاش! تم نے اُن کا پتا معلوم کرلیا ہوتا۔ اب اُن کا احسان ہماری گردن پر رہے گا‘‘۔
عمیر نے کہا ’’ابا جان! رات کے وقت مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ حملہ کرنے والے کون تھے؟ اس کے بعد میں بے ہوش ہوگیا تھا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں اُس جگہ سے کوسوں دور بستی کے باہر پڑا ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ مجھے بچانے والوں نے کسی مجبوری کے باعث ہمارے گھر تک آنا پسند نہ کیا ہو لیکن مجھے یقین ہے وہ کسی دن ضرور آپ کے پاس آئیں گے‘‘۔
سمیرا نے کہا ’’ممکن ہے وہ ہمارا کوئی دشمن ہو‘‘۔
عدی نے برہم ہو کر کہا ’’عمیر کی جان بچانے والا ہمارا دشمن نہیں ہوسکتا!‘‘
عمیر نے کہا ’’ابا جان! دائود، شمعون کو یقینا یہ اطلاع دے گا کہ میں زندہ ہوں۔ اس لیے آپ کسی کو میرے گھر پہنچنے کی خبر نہ ہونے دیں۔ ممکن ہے اب وہ دوسرے کے سامنے مجھ پر چوری کا الزام عائد کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرے۔ اُسے چند دن خاموش رکھنے کے بعد ہم اُسے جی بھر کر ذلیل کرسکیں گے اور مجھے یقین ہے کہ جب تک اُسے میرے مرجانے یا زندہ ہونے کے متعلق اطمینان نہیں ہوجاتا وہ خاموش رہے گا‘‘
عدی نے پوچھا ’’تم نے کسی پڑوسی کو خبر تو نہیں دی؟‘‘
’’نہیں‘‘۔ اُس نے جواب دیا ’’ممکن ہے کہ ہمارے نوکر شاید یہ بات نہ چھپا سکیں‘‘۔
’’میں انہیں تاکید کردوں گا‘‘۔
نعمان نے چونک کر کہا ’’معلوم ہوتا ہے، باہر کوئی آوازیں دے رہا ہے‘‘۔
عدی نے کہا ’’جاکر دیکھو، کون ہے؟ نوکر اس وقت نہیں اُٹھیں گے وہ ساری رات کے تھکے ابھی سوئے ہیں‘‘۔
عمیر نے کہا ’’ٹھہرو نعمان! ممکن ہے شمعون میرا تپا لگانے آیا ہو۔ عتبہ! تم جائو!‘‘
’’نہیں! میں خود جاتا ہوں‘‘۔ عدی یہ کہہ کر اُٹھا اور باہر نکل گیا۔ صحن طے کرکے اُس نے پھاٹک کھولا تو باہر شمعون کا غلام کھڑا تھا۔
عدی خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
شمعون کے غلام نے کہا ’’میں دیر سے آپ کے نوکروں کو آوازیں دے رہا ہوں!‘‘
’’وہ تھک کر سو گئے ہیں۔ ہم نے ساری رات عمیر کو تلاش کیا ہے‘‘۔
’’میرے آقا بہت فکر مند تھے وہ پوچھتے ہیں کہ اُس کا کوئی پتا چلایا نہیں؟
’’اپنے آقا سے کہو کہ میں پھر اُس کی تلاش میں جارہا ہوں۔ اگر وہ نہ ملا تو بھی اس کی ایک ایک کوڑی ادا کی جائے گی‘‘۔
’’میرے آقا نے کہا تھا کہ اگر آپ کو عمیر کا کوئی سراغ ملے تو مجھے ضرور اطلاع دیں!‘‘
’’اس سے کہہ دو کہ اگر عمیر مل گیا تو میں اُس کے گلے میں رسّی ڈال کر تمہارے پاس لائوں گا‘‘۔
شمعون کا غلام واپس چلا گیا۔
O
شمعون اپنے مکان کے ایک کمرے میں دائود کے ساتھ ناشتہ کررہا تھا۔ دائود کے تین نوکر ہانپتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور اُن میں سے ایک نے کہا ’’جناب ہم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ بنواوس کے ایک آدمی کے گھر دیکھ لیے ہیں‘‘
کون ہے وہ؟ شمعون نے چونک کر سوال کیا۔
جناب! وہ ہبیرہ ہے جس کا بھتیجا بچپن میں آپ کے پاس رہ چکا ہے۔
’’یہ ناممکن ہے‘ ہبیرہ ڈاکو نہیں اور اس کا ایک ہاتھ بھی کٹا ہوا ہے‘‘۔
’’جناب! اس کے پڑوسیوں سے ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ اُس کا بھتیجا جو شام کی طرف گیا ہوا تھا واپس آگیا ہے اور اپنے ساتھ بہت کچھ لایا ہے‘‘۔
شمعون اُٹھ کر کھڑا ہوگیا ’’تمہیں یقین ہے کہ تمہارے گھوڑے اُس کے گھر میں ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، وہاں وہ گھوڑا بھی موجود ہے، جس پر عمیر سوار تھا‘‘۔
’’اگر یہ بات ہے تو میری تمام پریشانیاں دور ہوگئیں۔ میں ہبیرہ کے بھتیجے کو جانتا ہوں وہ بنوخزرج کے کسی آدمی کو قتل کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں دے سکتا۔ بالخصوص عدی کے بیٹے کو۔ اب تم یہ کہہ سکتے ہو کہ عمیر تمہارے ساتھ تھا۔ عاصم نے تمہارا قافلہ لوٹا اور عمیر کو قتل کردیا۔ اب ہمیں اُس کی لاش کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اس کے عزیز خود جا کر تلاش کرلیں گے۔ یہ واقعہ یثرب کی تاریخ کا عظیم ترین سانحہ بن جائے گا۔ قبیلہ اوس کے ایک آدمی نے خزرج کے ایک آدمی کو امن کے زمانے میں قتل کیا ہے اب ان کی تلواریں بارہ مہینے میں ٹکراتی رہیں گی اور اہل یثرب قریش اور نبوکندہ کی لڑائیوں کی داستانیں بھول جائیں گے‘‘۔
دائود نے کہا ’’لیکن ہم لوگوں کو کیسے یقین دلائیں گے کہ عاصم نے عمیر کو قتل کیا ہے؟‘‘
شمعون نے کہا ’’تم بہت موٹی عقل کے آدمی ہو۔ اس کے گھر میں تمہارے اونٹ اور گھوڑے اس بات کی گواہی دیں گے کہ عمیر تمہارے ساتھ تھا۔ اور عمیر کا باپ یہ گواہی دے گا کہ اُس کا بیٹا مفقود الخبر ہے۔ عاصم نے صرف یہ سوچا ہوگا کہ تم عمیر کو زدوکوب کرنے کے بعد انتقام کے خوف سے مڑ کر نہیں دیکھو گے۔ لیکن یہ بات اُس کے ذہن میں نہیں آئی ہوگی کہ تمہارے لیے اس کو عمیر کا قاتل ثابت کرنا کتنا آسان ہے۔ لیکن… میں ایک بات پر حیران ہوں کہ عاصم، عمیر کا گھوڑا اپنے گھر کیسے لے آیا، اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس نے عمیر کو نہیں پہچانا اور وہ اُسے مردہ یا زندہ چھوڑ آیا ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ اُس نے اُسے جان کنی کی حالت میں دیکھ کر اُس کی رسیاں کھول دی ہوں اب تم جلدی سے اُس جگہ جائو، اگر وہ زندہ مل جائے تو اُسے موت کے گھاٹ اتار کر فوراً واپس آجائو اور اگر وہ مرچکا ہے تو اپنے آدمیوں کو اُس کی لاش کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر جائو۔ عاصم کے گھر میں عمیر کا گھوڑا اور خیبر کے راستے میں عمیر کی لاش دیکھنے کے بعد کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی‘‘۔
دائود نے کہا ’’لیکن وہ گھوڑا عمیر کا نہیں تھا بلکہ آپ نے اُسے دیا تھا‘‘۔
شمعون نیکہا ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمیں صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ عمیر اُس پر سوار ہو کر تمہارے ساتھ گیا تھا۔ اب تم وقت ضائع نہ کرو۔ تمہاری واپسی تک میں کوئی اقدام نہیں کروں گا۔ میرے اصطبل سے تمہیں تازہ دم گھوڑے مل جائیں گے۔ میں اپنے بیٹوں کو بھی تمہارے ساتھ بھیج دیتا ہوں‘‘۔
دائود نے کہا ’’خدا کی قسم! میں بھی تھکاوٹ سے نڈھال ہوچکا ہوں‘‘۔
شمعون نے جواب دیا ’’یہ کام تمہارے آرام سے زیادہ اہم ہے۔ اب دیر نہ کرو، اُٹھو!‘‘
دائود بادل ناخواستہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے نوکروں اور شمعون کے تین بیٹوں کے ساتھ یثرب کے نخلستانوں سے باہر نکل رہا تھا۔
O
تین دن بعد عمیر اپنے مکان کے ایک کمرے میں چٹائی پر بیٹھا تھا۔ عدی کمرے میں داخل ہوا اور عمیر اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’بیٹھ جائو، بیٹا! آج تمہاری طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’ابا جان! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آج سر کا درد بھی کچھ کم ہے‘‘
وہ دونوں چٹائی پر بیٹھ گئے۔
عدی نے قدرے توقف کے بعد کہا ’’میرے خیال میں اب تمہیں لوگوں سے چھپنے کی ضرورت نہیں رہی۔ میں ابھی شمعون سے مل کر آیا ہوں۔ اُس کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہوچکی ہے۔ کسی نے خیبر کے ایک یہودی کے اونٹ اور گھوڑے چھین لیے تھے۔ اور اب وہ ہمارے ایک دشمن کے گھر سے مل گئے ہیں۔ یہودی اس بات پر سخت برہم ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس واقعہ کے بعد وہ بنواوس کے خلاف کھلے بندوں ہماری حمایت شروع کردیں گے‘‘۔
’’یہ اونٹ اور گھوڑے کس کے گھر سے ملے ہیں؟‘‘
’’ہبیرہ کے گھر سے۔ تم اُس کے بھتیجے کو جانتے ہو۔ وہ تمہارے ساتھ شمعون کے گھر میں رہ چکا ہے۔ سہیل کے بیٹے کا ڈاکو بن جانا مجھے ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے‘‘۔
عمیر نے پوچھا ’’آپ کو یہ شمعون نے بتایا ہے کہ خیبر کے یہودی کو عاصم نے لوٹا ہے؟‘‘
’’ہاں! رات کے وقت راستے میں حملہ کرکے اُس نے یہودی تاجر کے ایک غلام کو بھی زخمی کردیا تھا‘‘۔
عمیر نے کچھ سوچ کر کہا ’’کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ جس طرح شمعون نے مجھ پر بہتان لگایا تھا اُسی طرح کسی یہودی نے عاصم پر جھوٹا الزام لگادیا ہو؟‘‘
عدی نے جواب دیا ’’تمہیں اپنے خاندان کے بدترین دشمنوں کی وکالت نہیں کرنی چاہیے۔ اُن کے ہاتھ تمہارے بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ آج صبح یہودیوں کے چند سرکردہ آدمی ہبیرہ کے گھر پہنچے تو لوٹ کا مال وہاں موجود تھا۔ عاصم نے اپنی صفائی میں یہ کہا ہے کہ اُسے یہ اونٹ اور گھوڑے یہاں سے چند کوس کے فاصلے پر راستے میں ملے تھے اور وہ انہیں لاوارث سمجھ کر اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ یہ بیان اس قدر احمقانہ ہے کہ خود اس کے اپنے قبیلے کے سرکردہ لوگوں کو یقین نہیں آیا اور انہوں نے ہبیرہ کو ملامت کی ہے کہ تمہارا بھتیجا یہودیوں سے بگاڑ کر ہمارے راستے میں کانٹے بو رہا ہے۔ انہوں نے اس جھگڑے کے تصفیے کے لیے کعب بن اشرف کو ثالث مان لیا ہے‘‘۔
’’آپ کا مطلب ہے کہ عاصم نے لوٹ کا مال واپس کرنے سے انکار کردیا ہے؟
’’نہیں۔ یہودی اپنا مال لے گیا ہے‘‘۔
’’تو پھر اُن کے درمیان جھگڑا کیا ہے؟‘‘
’’جھگڑا یہ ہے کہ اُس نے ایک قافلے پر حملہ کیا تھا۔ پھر جب یہودی اُن کے گھر گئے تو شمعون بھی اُن کے ساتھ تھا اور عاصم نے سرکردہ یہودیوں کی موجودگی میں اُس پر ہاتھ اُٹھانے سے دریغ نہیں کیا۔ جب وہ اپنی صفائی پیش کررہا تھا تو شمعون نے اُسے جھٹلایا اور اُس نے شمعون کی ڈاڑھی پکڑلی۔ اُس کے ٹکے سے شمعون کا ایک دانت بھی ٹوٹ گیا ہے‘‘۔
عمیر نے کہا ’’افسوس کہ میں یہ تماشا نہ دیکھ سکا اور زیادہ افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ اُس نے شمعون کا صرف ایک دانت توڑنے پر اکتفا کیا‘‘۔

حصہ