گزرگئی

204

’’ہیلو عاشی! کیا حال چال ہیں؟‘‘ ارسہ نے کالج کے اندر آتے ہی دور سے عاشی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ عاشی نے کہا۔
’’اوہ! یس، آپ تو سلام کے بغیر بات شروع ہی نہیں کریں گی، جیتی رہو، پھولو پھلو، بس ٹھیک۔ اب جلدی سے یہاں بیٹھو، یہ دیکھو۔‘‘ ارسہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر قریب بٹھایا اور اپنے موبائل سے تصویر اس کو دکھائی۔
عاشی نے ایک نگاہ موبائل پر ڈالی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔
’’یہ میں ہوں اور یہ میری نئی بائیک…‘‘ ارسہ چہکتے ہوئے بولی۔
’’ہائے اللہ! تم بائیک چلاؤ گی…؟‘‘ عاشی حیرت سے چلاّئی۔
’’چلاؤ گی کیا مطلب…؟ میں خود چلا کر لائی ہوں، تمہیں بھی میں ہی گھر ڈراپ کروں گی۔‘‘
’’نہ بابا نہ! آج تو بھائی آئے گا، پھر کبھی سہی۔‘‘ عاشی نے حسبِ معمول اپنے گھر نہ لے جانے کا بہانہ بنادیا، اور ارسہ بھی خلافِ توقع بات مان گئی۔ وہ دونوں نہ جانے کیسے سہیلیاں بن گئی تھیں! ایک آسمان اور دوسری زمین۔ مگر دونوں کی دوستی چل رہی تھی۔ عاشی نے اس دوستی کو بس کالج تک ہی محدود رکھا ہوا تھا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے کالج اچانک بند کردیے گئے۔ حالات معمول پر آنے پر آج جشنِ آزادی کے بعد کالج دوبارہ کھل چکے تھے۔ بہت دن کی جدائی نے دوستوں میں نہ ختم ہونے والی باتوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔
’’ارے تم نے تو پوچھا ہی نہیں کہ میں نے 14 اگست کا دن کیسے گزارا؟‘‘ ارسہ کو اچانک کچھ یاد آیا۔
’’ہاں تو پوچھنے کی کیا ضرورت ہے! تمہاری قینچی چل تو رہی ہے، پتا چل ہی جائے گا۔‘‘ عاشی نے چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’تم کو کیا بتاؤں، کتنا انجوائے کیا، موسم اتنا زبردست تھا کہ صبح ہی سب دوستوں کے ساتھ بائیک پر سی ویو پہنچ گئے، وہاں خوب ہلا گلا کیا۔‘‘
پھر یکایک اس نے موبائل نکالا، تصویروں کے ساتھ ساتھ بلا توقف سب گوش گزار کررہی تھی۔ جشن آزادی کے فنکشن کے لیے خاص طور پر گرین شلوار قمیص اور بڑا سا وائٹ دوپٹہ، چہرے پر پاکستانی پرچم کے نقش و نگار اس کو مزید خوب صورت بنا رہے تھے۔
’’یار! میوزیکل بینڈ نے تو مزا ہی دوبالا کردیا۔ ساؤنڈ ٹریک اور بینڈ کے ہم آواز اتنے نغمے گائے کہ میرا تو گلا ہی بیٹھ گیا، اور جھنڈا ہلا ہلا کر بازو میں ایسا درد تھا کہ کیا بتاؤں۔‘‘ وہ رو میں بتا رہی تھی۔
’’پھر کام والی سے مالش کرانی پڑی۔‘‘ وہ ہنسی۔
’’اور فائر ورک …‘‘ ارسہ اپنی کہے جارہی تھی اور عاشی کے دماغ میں گزشتہ دنوں کا نقشہ چل رہا تھا، جب وہ اور اس کے اڑوس پڑوس والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کتنا پریشان تھے، 14 اگست کب آئی اور کب گئی ان کو تو کچھ پتا ہی نہ چلا۔

حصہ