سود

اگر کوئی مستامن مسلمان دارالحرب میں کسی کو قتل کر دے یا اس کے مال کو نقصان پہنچائے تو دارالاسلام میں اسکے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے گی البتہ اس کی دین کے لحاظ سے ایسا کرنا اس کے لیے ناجائز ہے۔
اگر مستامن مسلمان دارالحرب سے غصب کرکے یا چرا کر کوئی مال لے آئے تو مسلمان کے لیے اس کو خریدنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر وہ خرید لے تویہ بیع رد نہ کی جائے گی کیوں کہ قانوناً نفس بیع و شراء میں کوئی نقص نہیں ہے‘ البتہ اصلاً چونکہ یہ مال غدر ہے اس لیے وہ مسلمان اپنے دین کے لحاظ سے اس کو واپس کرنے پر مامور ہے۔
-4 مستامن مسلمان ’’دارالحرب‘‘ مین اہلِ حرب سے سود لے سکتا ہے‘ جوا کھیل سکتا ہے‘ مردار اور خنزیر ان کے ہاتھ بیچ سکتا ہے اور تمام ان طریقوں سے ان کا مال لے سکتا ہے جن پر خود اہلِ حرب راضی ہوں یہ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ کا مذہب ہے‘ امام ابو یوسفؒ سے اختلاف کرتے ہیں۔ فریقین کے دلائل جو امام سرخسی نے نقل کیے ہیں لائق غور ہیں:
’’مستامن کے لیے اہل حرب سے سود پر نقد یا قرض معاملہ کرنا یا خمر یا خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ فروخت کرنا ابو حنیفہ اور محمد رحمہا اللہ کے نزدیک جائز ہے‘ مگر ابو یوسف رحمتہ اللہ کے نزدیک ناجائز ہے۔ امام ابو یوسف کا استدلال یہ ہے کہ مسلمان ملتزم احکام اسلام ہے خواہ کہیں ہو اور اس نوع کے معاملے کی حرمت اسلام کے احکام میں سے ہے‘ کیا نہیں دیکھتے کہ حربی مستامن سے ہمارے دار میں ایسا معاملہ کیا جائے تو جائز نہ ہوگا‘ پس جب یہاں یہ ناجائز ہے تو دارالحرب میں بھی ناجائز ہونا چاہیے۔ اسکے جواب میں مقدم الذکر دونوں امام فرماتے ہیں کہ یہ تو دشمن کے مال کو اس کی مرضی سے لینا ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ ان کی اموال ہمارے لیے مباح ہیں‘ مستامن نے ذمہ داری صرف اس قدر لی تھی کہ ان سے خیانت نہ کرے گا۔ مگر جب اس نے ان عقود کے ذریعہ سے اس کی رضا کے ساتھ یہ مال لیا تو غدر سے تو یوں بچ گیا اور حرمت سے بچا کہ یہ مال اس نے عقد کے اعتبار سے نہیں بلکہ اباحت کی بنا پر لیا ہے۔ رہا دارالاسلام میں حربی مستامن کا معاملہ تو وہ اس سے مختلف ہے کیوں کہ اس کا مال امان کی وجہ سے معصوم ہو گیا ہے اس لیے اباحت کی بنا پر اس کو نہیں لیا جاسکتا۔‘‘ (المبسوط: ج10‘ ص 95)
امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کے لیے اہلِ حرب کے اموال کو لوٹنا اور چھین لینا حلال ہی تو ان کی مرضی سے سے لینا بدرجۂ اولیٰ حلال ہونا چاہیے مطلب یہ ہے کہ لشکر اسلام کے حدود سے باہر ان کے لیے کوئی امان نہیں ہے‘ مسلمانوں کے لیے ہر ممکن طریقہ سے ان کا مال لینا جائز ہے۔‘‘
’’امام ابو یوسفؒ فرماتے ہیں کہ مسلمان چونکہ اہل دارالاسلام میں سے ہے اس لیے وہ حکم اسلام کی بنا پر جگہ ربوٰ سے ممنوع ہے‘ اس کے فعل کی یہ توجیہ درست نہیں کہ وہ کافر کے مال کو بطیب نفس لے رہا ہے بلکہ وہ اس کو دراصل اس خاص صورت معاملہ کی بنا پر لیتا ہے کیوں کہ اگر وہ خاص صورت معاملہ (یعنی عقد فاسد) نہ ہو تو کافر اس کو کسی دوسری صورت سے اپنا مال دینے پر راضی نہ ہوگا۔ اگر دارالحرب میں ایسا کرنا جائز ہو تو مسلمانوں کے دارالاسلام میں بھی اس طرح معاملہ جائز ہوگاکہ ایک شخص ایک درہم کے بدلے دو درہم لے اور دوسرے درہم کو ہبہ کے نام سے موسوم کر دے۔‘‘
ہمارا مقصود دونوں اوال میں محاکمہ کرنا نہیںہے‘ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خود امام ابوحنیفہؒ کے مذکورۂ بالا اقوال سے اور ان کے مذہب کے دوسرے مسائل سے جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں‘ چار باتیں صاف طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
اولاً یہ معاملہ صرف اس مسلمان کے لیے جائز ہے جو دارالاسلام کی رعایا ہو اور امان لے کر دارالحرب میں جائے۔
ثانیاً یہ معاملہ صرف ان حربی کافروں سے کیا جاسکتا ہے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں۔
ثالثاً اس طریقہ سے جو مال لیا جائے گا وہ غنیمت نہ ہوگا اس لیے کہ نہ تو وہ اشرف الجہات سے ہے نہ اس میں دین کا اعزاز ہے‘ نہ اس میں خمس ہے‘ بلکہ وہ مجرد اکتساب مال ہے اسی طرح وہ فے بھی نہیںہے کیوں کہ فے حکومتِ اسلام کی ملک ہوتی ہے اور یہ مال وہ شخص خود لیتا ہے‘ بیت المال میںداخل نہیں کرتا۔
رابعاً اس طریقہ سے کفار کا مال لینا نہ صرف جواز قانونی کے در میں ہے بلکہ جواز کی آخری حد پر ہے اور اس کی قانونی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کرے گا تو امام صاحب کی رائے میں دیتاً بھی اس کو یہ مال واپس کرنے کا فتویٰ نہ یا جائے گا بہ خلاف مال غدر کے کہ اگرچہ قضا اسے واپسی پر مجبور نہ کیا جائے گا مگر دیتاً اس کو واپس کر دینے کا حکم دیا جائے گا۔
خامساً مستامن مسلمان جس طرح دارالحرب کے کافروںسے عقود فاسدہ پر معاملہ کر سکتا ہے اسی طرح وہ وہاں کے مسلمان باشندو ںسے بھی ایسا کرنے کا مجاز ہے کیوں کہ ان کے اموال بھی مباح ہیں‘ اس کے حو الے سے ہم اس سے پہلے درج کر چکے ہیں اور آگے بھی یہ بحث آرہی ہے۔
-3 دارالکفر اور دارالحرب کی مسلم رعایا:
وہ مسلمان جو دارالکفر میں رہیں اور دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کریں اسلام ِکی حفاظت سے خارج ہیں۔ غنیمت اور فے میں ان کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں جیسا کہ بصراحت حدیث میں مذکور ہے اور دنیوی حیثیت سے ان کے نفوس اموال غیر معصوم ہیں کیوں کہ عصمتِ مُقومہ ان کو حاصل نہیں۔
اگر ایسے مسلمان ’’حربی‘‘ قوم سے ہوں تو کیا مباح الدم والا موال ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے قاتل پر قصاص کیا معنی دیت بھی نہیں ہے بلکہ بعض حالات میں کفارہ تک نہیں۔ اس باب میں فقہا کے چند اقوال ہم بے کم و کاست نقل کر دیتے ہیں جن سے دارالحرب کی مسلمان رعیت کا قانونی مقام آپ خود ہی معلوم ہو جائے گا۔’’جو شخص مسلمان ہونے کے بعد ہجرت نہیں کرے اور دارالحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ ہمارے اصحاب نے اس کو حربی کے درجے میں قرار دیا ہے اس حیثیت سے کہ اس کے مال کو نقصان پہنچانے والے پر کوئی ضمان نہیں‘ اس کا مال اس لحاظ سے حربی کے مال کی طرح ہے اسی لیے ابو حنیفہؒ نے اس کے ساتھ بھی خریدوفروخت کی وہ صورت جائز رکھی ہے جو حربی کے ساتھ جائز رکھی ہے‘ یعنی دارالحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا یعنی سود۔‘‘
’’جو شخص دارالحرب میں ہے وہ دارالاسلام والے کے لیے گویا مردہ ہے۔‘‘
’’اگر اہل حرب مسلمانوں کے بچوںکو ڈھال بنائیں تو ان پر نشانہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ نشانہ لگانے والا جانتا ہو کہ مسلمان کو نشانہ بنا رہا ہے… اس پر نہ دیت ہے نہ کفارہ۔‘‘
’’اگر حربی دارالحرب میں مسلمان ہو پھر اس دار پر مسلمان فتح پائیں تو اسکا مال اور اس کے غلام اور اس کے نابالغ بچے چھوڑ دیے جائیں گے… مگر اس کی غیر منقولہ جائداد مسلمانوں کے لیے غنیمت قرار دی جائے گی۔ یہ ابو حنیفہؒ اور محمدؒ کا قول ہے۔ ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ میں احسان کے طور پر غیر منقولہ جائداد بھی اس کے پاس رہنے دوں گا۔‘‘
’’امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے لیے اس کو بھی مکروہ سمجھتا ہوں کہ وہ دارالحرب میں اپنی لونڈی یا بیوی سے مباشرت کرے‘ خوف ہے کہ کہیں وہاں اس کی نسل نہ پیدا ہو‘ کیوں کہ مسلمانوں کے لیے دارالحرب کو وطن بنانا ممنوع ہے… اور اس لیے کہ اگر وہ وہاں سے نکل آیا اور اپنی نسل وہاں چھوڑ آیا تو اس کی اولاد مشرکین کے اخلاق اختیار کرے گی۔‘‘
آخری بات جو اس سلسلے میں ڈرتے ڈرتے ہم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام اعظم کی رائے میں دارالحرب کے مسلمان باشندوں کے لیے ایک دوسرے سے سود کھانا مکروہ ہے‘ لیکن اگر وہ ایسا معاملہ کریں تو اس کو رد نہ کیا جائے گا۔ اس رائے سے امام محمدؒ نے بھی اختلاف کیا ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں مسلمانوں کا مال معصومہ عن التملک بالاخذ ہے‘ جب مسلمان اس ملک پر فتح پانے کی کی صورت میں ان کے مال کو غنیمت قرار نہیں دے سکتے تو ان دونوں کو ایک دوسرے کا مال غنیمت کے طور پر لینے کا کیا حق ہے لیکن امام ابو حنیفہؒ نے اپنی رائے کی تائید میں جو قانونی استدلال کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قانونی حیثیات کے پیچیدہ اور نازک فروق کو سمجھنے میں امام صاحب کا تفقہ کس قدر بڑھا ہوا تھا۔ ہم اس بیان کو لفظ بہ لفظ نقل کرتے ہیں کیوں کہ اس سے اصول قانون کے اہم مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’دارالاسلام کی حفاظت میں آنے سے پہلے محض اسلام سے جو عصمت ثابت ہوتی ہے وہ صرف امام کے حق میں ہے مگر احکام میں نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں ہو اگر ان دونوں مسلمانوں میں سے ایک شخص دوسرے کا مال یا جان تلف کر دے تو اس پر ضمان نہ ہوگا حالانکہ وہ ایسا کرنے میں گناہ گار ہوگا۔ بات دراصل یہ ہے کہ احکام میں عصمت صرف حدود دارلاسلام کے اندر ہونے سے ثابت ہوتی ہے اور یہ حفاظت دار کے سبب سے ہے نہ کہ دین کے سبب سے۔ دین تو حق شرع کے لحاظ سے صرف ان لوگوں کو روکتا ہے جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوں اور ان کو نہیں روکتا جو اسے نہ مانتے ہوں۔ بخلاف اس کے دار کی قوت سے آدمی کے مال کی حفاظت اس کے مقابلے میں بھی کی جاتی ہے جو اس کی حرمت کا اعتقاد رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں بھی جو ایسا اعتقاد نہیں رکھتا۔ پس گناہ ہونے کی حیثیت سے جو عصمت ثابت ہے‘ اس کی بنا پر ہم نے کہا کہ ان کے لیے یہ فعل مکروہ ہے اور قانون کے لحاظ سے عدم عصمت کی بنا پر ہم نے یہ کہا کہ ان کے لیے یہ فعل مکروہ ہے اور قانون کے لحاظ سے عدم عصمت کی بنا پر ہم نے یہ کہا کہ اس کا لیا ہوا مال واپس کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا کیوں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مال جب لیتا ہے تو محض لے لینے ہی کی وجہ سے اس کا مالک ہو جاتا ہے۔‘‘(المبسوط: ج 14‘ ص 58)
یہاں امام صاحب نے اسلامی قانون کے تینوں شعبوں کی طرف اشارات کر دیے ہیں۔ اعتقادی قانون کے لحاظ سے مسلمان کا مال بلا لحاظ اس کے کہ وہ دارالاسلام میں ہو یا دارالکفر میں یا دارالحرب میں‘ بہرحال معصوم ہے اور اس عصمت کا مال یہ ہے کہ اس کی بنا پر خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق کے خلاف لینے والا گناہ گار ہوگا۔ دستوری قانون کے لحاظ سے دارالاسلام میں رہنے والے کافر کے مال کو جو عصمت حاصل ہے وہ دارالکفر میں رہنے والے مسلمان کو حاصل نہیں اس لیے اگر دارالکفر کاکوئی دوسرا مسلمان اس کو حرم طریقہ سے لے لے تو خدا کے ہاں گناہ گار ہوگا مگر دنیا میں اس پر اسلامی حکم جاری نہ ہوگا۔ تعلقات خارجیہ کے قانون کی نگاہ میں کفار کے درمیان رہنے والا مسلمان اپنے تمدنی حقوق اور واجبات کے لحاظ سے انہی کافروں کا شریک حال ہے اس لیے وہ بھی اسی طرح نفس اخذ سے مال کا مالک ہوتا ہے جس طرح خود کفار مالک ہوتے ہیں۔ پس اگر اس بنیاد پر دارالکفر میں مسلمان‘ مسلمان سے سود کھائیں یا مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے سود کھائیں تو وہ ان اموال کے مالک تو ہوجائیں گے اور ان کو واپس کرنے کا حکم بھی نہ دیا جائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سود کھانے اور کھلانے والے مسلمان گناہ گار نہ ہوںگے۔
قول فیصل:
یہاں تک ہم نے قانون اسلامی کی جو تفصیلات درج کی ہیں ان سیجناب مولانا مناظر احسن صاحب کے استدلال کی پوری بنیاد منہدم ہو جاتی ہے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ:
-1 غیر غیر ذمی کافر مباح الدم و الاموال نہیں ہیں بلکہ اباحت صرف ان کافروں کے خون اور مال کی ہے جو برسرِ جنگ ہوں‘ لہٰذا اگر سود لینا اور عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز ہے تو برسر جنگ کافروں کے ساتھ ہے اور ایسا کرنے کا حق صرف ان مسلمانوں کو پہنچتا ہے جو دارالاسلام کی رعیت ہوں‘ جن کے سردار نے فے کسی دارالکفر کو دارالحرب قرار دیا ہو اور جو دارالحرب میں امان لے کر تجارت وغیرہ اغراض کے لیے داخل ہوئے ہوں۔
-2 دارالکفر اوّل تو ہر حال میں دارالحرب نہیں ہوتا اور اگر اعتقادی کے لحاظ سے وہ دارالحرب سمجھا جائے تو اس کے مدرج مختلف ہیں اورہر درجہ کے احکام الگ الگ ہیں۔ ایک ہی معنی میں تمام غیر اسلامی مقبوضات کو دارالحرب سمجھنا اور ا ن میں علی الدوام وہ احکام جاری کرنا جو خاص حالتِ جنگ کے لیے ہیں‘ قانون اسلام کی اسپرٹ ہی کے نہیں بلکہ صریح ہدایات کے بھی خلاف ہے اور اسکے نتائج نہایت خطرناک ہیں۔ اباحت نفوس و اموال کی بنا پر جو جزئیات متفرع ہوتی ہیں‘ وہ صرف اسی زمانے تک نافذ رہ سکتے ہیںجب تک کسی دارالکفر کے ساتھ حالتِ جنگ قائم رہے۔ پھر ان تمام احکام کا تعلق خود دارالحرب کی مسلمان رعایا سے نہیں ہے بلکہ اس دارالاسلام کی رعایا سے ہے جو اس دارالحرب کے ساتھ برسرِ جنگ ہو۔
-3 ہندوستان عام معنی میں اس وقت سے دارالکفر ہوگیا ہے جب سے مسلم حکومت کایہاںاستیصال ہوا‘ جس زمانے میں شاہ عبدالعزیز صاحب نے جواز سود کا فتویٰ دیا تھا‘ اس زمانے میں واقعی یہ مسلمان ہند کے لیے دارالحرب تھا‘ اس لیے کہ انگریزی قوم مسلمانوں کی حکومت کو مٹانے کے لیے جنگ کر رہی تھی‘ جب اس کا اسقیلا مکمل ہوگیا اور مسلمانانِ ہند نے اس کی غلامی قبول کر رلی تو یہ ان کے لیے دارالحرب نہیںرہا۔ ایک وقت میں یہ افغانستان کے مسلمانوں کے دارالحرب تھا۔ ایک زمانہ میں ترکوںکے لیے دارالحرب ہوا۔ مگر اب یہ تمام مسلمان حکومتوں کے لیے دارالصلح ہے۔ لہٰذا مسلمان حکومتوں کی رعایا میں سے کوئی شخص یہاں سود کھانے اور عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ سرحد کے بعض آزاد قبائل اس کو اپنے لیے دارالحرب سمجھ سکتے ہیں اور اگر وہ یہاں عقود فاسدہ پر معاملات کریں تو حنفی قانون کی رُو سے ان کے فعل کو جائز کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ جواز محض قانونی جواز ہے۔ خدا کی نظر میں وہ مسلمان ہرگز مقبول نہیں ہو سکتا ہو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہو اور پھر سود خواری سے‘ مے فروشی سے‘ قمار بازی سے‘ سور کے گوشت اور مردار چیزوں کی تجارت سے اسلام کو غیر قوموں کے سامنے خوار بھی کرتا پھرے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنے قرض دار بھائی کو گرفتار کرائے اور سولی جیل بھجوا دے درآں حالیکہ اسے معلوم ہو کہ اس کے قبضے میں درحقیقت کچھ نہیں ہے اور اس کے بچے بھوکوں مرجائیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرض خواہ کو ایسا کرنے کا حق ہے اور جو کچھ وہ کر رہا ہے قانونی جواز کی حد میں کر رہا ہے۔ مگر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ قانونی جواز کی حد میں کر رہا ہے۔ مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے یہ قانونی جواز بالکل آخری سرحد ہے اور جو انسان قانون کی آخری سرحدوں پر رہتا ہے وہ بسااوقات جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
-4 ہندوستانی مسلمانوں کی حیثیت ہرگز وہ نہیں ہے جس کے لیے فقہی زبان میں ’’مستامن‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مستامن کے لیے پہلی شرط دارالاسلام کی رعایا ہونا ہے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دارالحرب میں اس کا قیام ایک قلیل مدت کے لیے ہو۔ حنفی قانون میں حربی مستامن کے لیے دارالاسلام کے اندر رہنے کی زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ رکھی گئی ہے۔ اس کے بعد وہ قانون تبدیل جنسیت کی رُو سے اس کو ذمی بنا لیتا ہے۔ اسی پر قیاس کی جاسکتا کہ مسلمان مستامن کے لیے دارالحرب میں قیام کرنے کی مدت سال دو سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اسلامی شریعت جو مسلمانوں کو دارالاسلام میں سمیٹنے اور کافروں کو ذمی بنانے کے لیے سب سے زیادہ حریص ہے‘ کبھی اس کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص دارالحرب کو اپنا وطن بنا لے اور وہاں نسلوں پر نسلیں پیدا کرتا رہے اور اس حیثیت میں زندگی بسر کرتا چلا جائے جو مستامن کے لیے مقرر کی گئی پھر جب یہ ایک شخص کے حق میں جائز نہیں تو کروڑوں مسلمانوں کی عظیم الشان آبادی کے لیے کب جائز ہو سکتا ہے کہ قرنوں تک ’’مستامن‘‘ کی سی زندگی بسر کرے اور ایک طرف ان اباحتوں سے فائدہ اٹھاتی رہے جو حالت ’’استیمان‘‘ کے لیے عارضی طور پر منتشر افراد کو محض جنگی ضروریات کے لیے دی گئی تھیں اور دوسری طرف وہ تمام قیود اپنے اوپر عائد کرلے جو مستامن کو عارضی طور پر اسلامی قانون کی پابندی سے آزاد کرکے کفار کے قوانین کا پابند بناتی ہیں۔-5 مسلمانانِ ہند کی صحیح قانونی پوزیشن یہ ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جن پر کفار مستولی ہو گئے ہیں۔ ان کا دار جو کبھی دارالاسلام تھا‘ اب دارالکفر بن گیا ہے‘ مگر دارالاسلام کے کچھ آثار ابھی باقی ہیں۔ ان کا فرض یہ ہے کہ یا تو کسی دارالاسلام میں منتقل ہو جائیں یا اگر اس پر قادر نہیں ہیں تو اس ملک میں جو اسلامی آثار باقی ہیں ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کریں اور جتنی تدابیر ممکن ہوں وہ سب اسے دوبارہ دارالاسلام بنانے میں صرف کرتے رہیں۔ احکام کفر کے تحت جو زندگی وہ بسر کر رہے ہیں اس کا ہر سانس ایک گناہ ہے۔ اب کیا باقی ماندہ آثار اسلامی کو بھی مٹا کر اس گناہ میں مزید اضافہ کرنا منظور ہے؟ اختتام

حصہ