منتخب غزلیں

529

مجروح سلطان پوری
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو چاک گریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاجِ رفو ہے آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا ہم کو رہا ہے شوقِ بہاراں تم سے زیادہ
عہدِ وفا یاروں سے نبھائیں نازِ حریفاں ہنس کے اٹھائیں
جب ہمیں ارماں تم سے سوا تھا اب ہیں پشیماں تم سے زیادہ
ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دیکھا دور سے لیکن
یہ نہ سمجھنا ہم کو ہوا ہے جان کا نقصاں تم سے زیادہ
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ساری لویں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہر و ماہ سلامت جشنِ چراغاں تم سے زیادہ
دیکھ کے الجھن زلف دوتا کی کیسے الجھ پڑتے ہیں ہوا سے
ہم سے سیکھو ہم کو ہے یارو فکر نگاراں تم سے زیادہ
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروحؔ مگر ہم
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہیں عالم زنداں تم سے زیادہ
…٭…
جون ایلیا
بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیان خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے ہے
غنیمت کہ اسرار ہے ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
…٭…
ماہرالقادری

ابھی دشتِ کربلا میں ہے بلند یہ ترانہ
یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ
ترا کام تن کی پوجا مرا کام من کی سیوا
مجھے جستجو یقیں کی تجھے فکرِ آب و دانہ
مرے شوقِ مضطرب سے ہے رواں نظامِ ہستی
جو ٹھہر گئی محبت تو ٹھہر گیا زمانہ
وہ فقیہ کوئے باطن ہے عدوئے دین و ملت
کسی خوفِ دنیوی سے جو تراش دے فسانہ
ترا خار و خس پہ تکیہ مرا عشق پر بھروسہ
مجھے برق سے محبت تجھے خوفِ آشیانہ
مرے جذبِ دل کو ماہرؔ کوئی کیا سمجھ سکے گا
مری شاعری کی حد سے ابھی دور ہے زمانہ
…٭…
خواجہ رضی حیدر

وقت عجیب آ گیا منصب و جاہ کے لیے
صاحبِ دل بھی چل پڑے تخت و کلاہ کے لیے
مرے غنیم سرخرو عرصۂ صد شکست میں کوئی
قتل انا کی شرط ہے اس سے نباہ کے لیے
موسم گل کو کیا خبر شورش ابر و باد میں
طائر دل اداس ہے شاخ پناہ کے لیے
ایک نوائے آتشیں حلقہ بہ حلقہ جسم میں
پھر ہوئی ہے تازہ دم تازہ گناہ کے لیے
کہتا تھا کوئی شمع رخ دیکھ مرے چراغ شب
کوئی کرن بچا کے رکھ روز سیاہ کے لیے
اک شب ماہ کے لیے دل ہے لہو لہو رضیؔ
آنکھ ستارہ کیش ہے اک شب ماہ کے لیے
…٭…
اجمل سراج
گھوم پھر کر اسی کوچے کی طرف آئیں گے
دل سے نکلے بھی اگر ہم تو کہاں جائیں گے
ہم کو معلوم تھا یہ وقت بھی آ جائے گا
ہاں مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ پچھتائیں گے
یہ بھی طے ہے کہ جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے
اور یہ بھی کہ جو کھوئیں گے وہی پائیں گے
کبھی فرصت سے ملو تو تمہیں تفصیل کے ساتھ
امتیاز ہوس و عشق بھی سمجھائیں گے
کہہ چکے ہم ہمیں اتنا ہی فقط کہنا تھا
آپ فرمائیے کچھ آپ بھی فرمائیں گے
ایک دن خود کو نظر آئیں گے ہم بھی اجملؔ
ایک دن اپنی ہی آواز سے ٹکرائیں گے
…٭…
احمد ندیم قاسمی

خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہِ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
…٭…

عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
…٭…
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
…٭…
قیس ہو کوہ کن ہو یا حالیؔ
عاشقی کچھ کسی کی ذات نہیں
…٭…
یروشلم/نعیم صدیقی

یروشلم یروشلم تو ایک حریم محترم
تیرے ہی سنگ در پر آج منہ کے بل گرے ہیں ہم
تجھے دیا ہے ہاتھ سے بزخم دل بچشم نم
یروشلم یروشلم یروشلم یروشلم
…٭…

دلاور فگار
عجب اخبار لکھا جا رہا ہے
کہ منشا وار لکھا جا رہا ہے
لکھی ہے حال دل میں ہائے ہوز
یہ حال زار لکھا جا رہا ہے
کہیں گولی لکھا ہے اور کہیں مار
یہ گولی مار لکھا جا رہا ہے
میں رشتہ دار ہوں اس کا سو مجھ کو
سرشتہ دار لکھا جا رہا ہے
مزاج یار برہم ہے کہ اس کی
مجاز یار لکھا جا رہا ہے
سمندر پار پڑھنے جا رہا ہوں
سمندر پار لکھا جا رہا ہے
…٭…
ابن انشا
انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
…٭…

اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا

تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں

میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا

مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر

راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا

ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا

اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو

مسکراہٹ ہے حسن کا زیور

مسکرانا نہ بھول جایا کرو

حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو

جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو

تاکہ دنیا کی دل کشی نہ گھٹے

نت نئے پیرہن میں آیا کرو

کتنے سادہ مزاج ہو تم عدمؔ

اس گلی میں بہت نہ جایا کرو
اتنا چپ چاپ تعلق پہ زوال آیا تھا

دل ہی رویا تھا نہ چہرے پہ ملال آیا تھا

صبح دم مجھ کو نہ پہچان سکا آئینہ

میں شب غم کی مسافت سے نڈھال آیا تھا

پھر ٹپکتی رہی سینے پہ یہ شبنم کیسی

یاد آئی نہ کبھی تیرا خیال آیا تھا

کہکشاں میرے دریچوں میں اتر آئی تھی

میرے ساغر میں ترا عکس جمال آیا تھا

اب نہ وہ ذوق وفا ہے نہ مزاج غم ہے

ہو بہو گرچہ کوئی تیری مثال آیا تھا

اکبر الہ آبادی کے منتخب اشعار
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
…٭…
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
…٭…
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
…٭…
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
…٭…
جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے
…٭…
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
…٭…
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
…٭…
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
…٭…
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
…٭…

میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ

بی.اے. بھی پاس ہوں ملے بی بی بھی دل پسند
محنت کی ہے وہ بات یہ قسمت کی بات ہے

لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
۔۔
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
۔۔۔
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
۔۔۔
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
۔۔۔۔۔

حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
۔۔۔۔
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے
۔۔
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا

…٭…

حصہ