میر کارواں

173

افرادِ خانہ کی خاموشی نے گہری ہوتی شام کے سکوت میں اضافہ کردیا تھا۔ حالات گمبھیر تھے، ایسے میں ہر ایک کی خاموشی پُرسوچ تھی۔ آخر فیصلہ کیا ہونے جارہا ہے؟ اگرچہ فیصلہ ہوچکا تھا، ایک نیا وطن پاکستان وجود میں آچکا تھا۔ پَر بہت سے دل اب بھی اس شش و پنج میں تھے کہ کیا لاکھوں لوگوں کے مستقبل کی نیّا وہ ایک نحیف و نزار شخص پار لگا سکے گا؟
ہاں پھر اُس شخص کی پُراعتماد گونج دار آواز اور مستحکم ارادوں نے بے چین دلوں کو حتمی فیصلے پر آمادہ کردیا۔ اپنے پشتینی گھر، کاروبار، بزرگوں کی قبروں کو چھوڑ کر آگ و خون کا دریا عبور کرنے چل دیے۔ قوموں کی تعمیر میں مخلص اور قائدانہ کردار ہمیشہ نسلوں کی دعاؤں میں زندہ رہتے ہیں۔ قوموں کی یاد میں تابندہ القابات کی صورت میں یاد رکھے جاتے ہیں۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ہمارے لیے قدرت کا انعام ہیں۔ ان کی زندگی روشن مثال قائم کرتی ہے کہ نیت پُرخلوص ہو تو ہر بیماری پر عزم وحوصلہ غالب آجاتا ہے۔ اطراف کی کوئی بھی کمی راستے کی دیوار نہیں بنتی۔ قائد ہمیشہ آنے والے وقت کا ادراک رکھتا ہے، اسی بنا پر قائداعظم نے نوجوان نسل کو مستقبل کا معمار قرار دیا کہ قانونِ قدرت ہے کہ آنے والے ہی اگلی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ ان کی رائے تھی کہ آنے والی نسل ہی مستقبل کی بقا، استحکام اور امن و سلامتی کی پیامبر ہے۔ سورج کی کرنوں کی مانند ہمارے قائد افراد کی تربیت کے ہنر سے بھی بخوبی واقف تھے۔
نگاہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
اور یہی وہ اوصاف ہیں جو مشعلِ راہ ہیں۔ وہ مشعل جس پر میرِ کارواں، اپنے عمل کی مہر ثبت کرکے آنے والی نسل کو تھماتا ہے۔
1943ء، الہٰ آباد یونی ورسٹی کے یونین الیکشن میں مسلم طلبہ کی کامیابی کا جشن ِ پُرجوش کا موقع۔ پَر پرچم کشائی کے لیے ہندو مسلم اختلاف رونما ہوا، ہندو کہتے تھے کہ ابھی ملک تقسیم نہیں ہوا چنانچہ پرچم ہندوستاں کا لہرایا جائے گا۔ جب کہ مسلم طلبہ کا کہنا تھا کہ جیت ہماری ہے اس لیے پرچم بھی ہمارا ہی لہرایا جائے گا۔
بابائے قوم قائداعظم جشن میں شرکت کے لیے تشریف لاتے ہیں اور طلبہ سے فکری تربیتی خطاب فرماتے ہیں: ’’اگر تمہیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے۔ لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش نازیبا حرکت ہے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ یہ مناسب بات نہیں کہ ہم وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔‘‘
یہی وہ بلند نگاہی تھی اور سخن دل نواز تھا کہ قائد کے ساتھ ایک قافلۂ سرفروشاں سوئے منزل چل دیا، اور یہ منزل تھی ہمارا وطن پاکستان… ہمارا گھر پاکستان۔ اس منزل کو پانا یوں بھی ممکن ہوا کہ پُرخلوص نیت سے گھر بنانے میں تائیدِ رب بھی شامل ہوگئی۔
سو اس عزم کے ساتھ ہم گھر بنانے کا سلسلہ نہ چھوڑیں گے۔ ایک گھر بنانے کے بعد مرحلہ آتا ہے دلوں میں گھر بنانے کا، کہ بنیادوں کی مضبوطی کے لیے جب تک باہم محبت و خلوص کی فضا تیار نہ کی جائے، خاکم بدہن گھر کی بنیادیں ڈھے جاتی ہیں۔

حصہ