امانت

140

بچے بھاگے بھاگے اس درمیانی درجے کے محلے کے چھوٹے سے گھر کے چھوٹے سے کمرے میں آ آ کر بیٹھتے جارہے تھے اور اپنا اپنا سبق نکال رہے تھے۔
’’ہاں بیٹا پڑھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم… شروع کرتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ، جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ استانی جی کی آواز رحم کے الفاظ ادا کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح بھرّا گئی تھی۔
بچوں نے اُن کی بات سن کر آواز ملا کر دہرایا تھا۔ ’’شاباش، پہلے دس دفعہ بسم اللہ کا ترجمہ دہرائو، پھر سبق شروع کرنا۔‘‘ اور بچے زور زور سے ترجمہ دہراتے رہے۔
’’امی…!‘‘ باہر صحن میں بنے چھوٹے سے باورچی خانے سے پہلے کرن نے ماں کو آواز دی، لیکن بچوں کے شور میں اُس کی آواز استانی جی تک نہیں پہنچ سکی تھی، تب وہ خود ہی باہر آئی اور کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر ایک دفعہ پھر انہیں پکارا۔ استانی جی نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا۔ ’’ٹوکری میں آلو ہیں، وہی پکا لوں؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی۔
استانی جی نے گردن کے اشارے سے گویا اُس کی بات کا ہاں میں جواب دیا، اور ایک دفعہ پھر پڑھنے والے بچے کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
’’لیکن امی! ظفر بھائی اور ماموں دونوں غصہ نہ کریں۔‘‘ وہ کچھ ہچکچاتے ہوئے پھر بولی۔
’’چاند! دیکھ کر پڑھو، ب کے اوپر زبر نہیں پیش ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے پاس بیٹھے بچے کو نرمی سے ٹوکا، اور پھر کرن کی طرف گردن گھمائی ’’تو کچھ اور پکالو۔‘‘
’’لیکن گھر میں آلو اور ٹماٹر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ کرن کچھ شرمندگی سے بولی، جیسے گھر میں کچھ نہ ہونے میں اس کا قصور ہے۔
’’تو بیٹا! پھر یہی پکا لو۔ آئو عثمان تم آکر سبق سنائو۔‘‘ استانی جی نے جیسے گویا بات ہی ختم کردی تھی اور دوبارہ اپنے پڑھنے والے بچوںکی طرف متوجہ ہوگئی تھیں۔ کرن نے چند لمحے ماں کو بچوں میں گھرے دیکھا اور خاموشی سے پلٹ گئی۔
…٭…
’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ آج بھی استانی جی ہمیشہ کی طرح بچوں کو سبق دینے اور سننے سے پہلے ایک آسان آیت کا ترجمہ یاد کروا رہی تھیں۔ بچوں نے روز کی طرح آج بھی دس دفعہ یہ ترجمہ پوری قوت سے آواز نکال کر دہرایا، پھر ایک ایک کرکے استانی جی کے پاس سبق سنانے آنے لگے۔
’’تم لوگ ڈھنگ سے سونے بھی نہیں دیتے، جب دیکھو گھر میں بچوں کا شور سنائی دیتا ہے۔ بندہ گھر میں آرام کے لیے آتا ہے، لیکن یہاں…‘‘ ظفر تکیے کو پہلے تو سر کے اوپر نیچے رکھ کر سونے کی کوشش کرتا رہا، لیکن بچوں کی آوازوں نے اس کی نیند خراب کردی تھی۔ چنانچہ وہ تکیہ پٹخ کر اٹھ بیٹھا اور سامنے جھاڑو لگاتی کرن پر برسا۔
’’میں امی سے کہتی ہوں، بچے تھوڑا آہستہ…‘‘ وہ جھاڑو زمین پر رکھ کر تیزی سے اٹھی اور برابر والے کمرے میں بچوں کو پڑھاتی ماں کی طرف بڑھی۔
’’تمہارے کہنے سے آپا کون سا بچوں کو چھٹی دے دیں گی! چند منٹوں کا سکون ہوگا اور پھر وہی شور۔‘‘ اب کے صادق بھی منہ بگاڑ کر بولا، اور چادر پھینکتا ہوا واش روم کی طرف بڑھ گیا، اور کرن جو ماں سے کہنے جارہی تھی، واپس اپنی جگہ پر آگئی۔
…٭…
’’رات میں کب آئے تم لوگ؟‘‘ استانی جی نے سہ پہر میں ان کو کھانا کھاتے دیکھ کر پوچھا۔ پڑھنے والے بچے جا چکے تھے۔
’’تم کو پتا تو ہے، پھر روز روز کیوں پوچھتی ہو؟‘‘ ظفر نے نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
’’آخر یہ کام تم لوگ ختم کیوں نہیں کردیتے جو رات کے اندھیرے میں ہوتا ہے!‘‘ استانی جی ظفر سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
’’آپا! آج کل ہماری نائٹ چل رہی ہے، پندرہ دن ہوجائیں گے تو ڈیوٹی بدل جائے گی، تم ہمارا اعتبار کیوں نہیں کرتیں! فیکٹریوں میں تو اسی طرح کام چلتا ہے، کبھی دن کبھی رات، تم کو تو بھروسا ہی نہیں… نہ جانے کیوں ہر وقت شک کرتی رہتی ہو۔‘‘
’’اس شک کے پیچھے وہ نوٹ ہیں جو میں تمہاری درازوں میں دیکھتی ہوں۔‘‘
’’وہ… وہ تو…‘‘
’’وہ تو دوسری پارٹی کی ادائیگی ہوتی ہے جو پہلے ہمارے پاس آتی ہے، پھر آگے بڑھ جاتی ہے۔‘‘ ظفر نے فوراً ہی بات سنبھال لی تھی۔
’’ظفر! کیوں دھوکا دیتا ہے مجھے، اپنے آپ کو، اور سب سے بڑھ کر اس ملک کو! تُو جانتا ہے نا، کیسے تیرے ننھیال والوں نے خود کٹ مر کر، اپنی جائداد، دھن دولت سب چھوڑ کر ایک جھونپڑے میں رہنا منظور کرلیا تھا، لیکن ناجائز آمدنی کی طرف دیکھنا بھی کبھی پسند نہیں کیا۔ صادق! تم ہی کچھ شرم کرو۔ ماں کیسے تڑپ تڑپ کر وہ قصے سناتی تھیں، کچھ تو اپنے نام کی لاج رکھ لو۔ نہ کرو تم دونوں اس طرح۔‘‘ استانی جی آج پھر سینکڑوں دفعہ کے کہے جملے ان دونوں کے سامنے دہرا رہی تھیں۔
’’اماں کو پھر دورہ پڑ گیا۔‘‘ ظفر لاپروائی سے بولا اور ماںکی باتیں اَن سنی کرکے کھانا کھاتا رہا۔
’’آپا! ایسے سبق صرف اپنے شاگردوںکو پڑھایا کرو، یا اُس کو جو ہر وقت تمہاری جی حضوری اور تابع داری کرتی ہے، یہ وطن سے محبت کا درس تم اُس کو دیا کرو۔‘‘ صادق بھی جھنجھلا گیا تھا۔
’’بہت کرلی ہم نے ملک سے وفاداری۔ کچھ نہیں ملا سوائے دھکوں کے۔‘‘ آج صادق نے ڈھکے چھپے لفظوں میں گویا قبول کرلیا تھا۔
’’چھوڑ دو تم لوگ یہ ہیرا پھیری۔ رفیق بھائی بتارہے تھے کہ تم لوگوں نے ان کے بیٹے کو ایم اے کی جعلی ڈگری دی ہے، اور پان والے کے بھائی کو ویزا لگوا دیا ترکی کا۔ کیوں کررہے ہو ایسا! میں نے تو بچپن سے تم لوگوں کو حق اور سچ کا سبق پڑھایا، ملک سے محبت کا درس دیا، آخر کہاں مجھ سے کوتاہی ہوئی؟‘‘ یہ کہہ کر استانی جی رونے لگیں اور وہ دونوں لب بھینچے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
اب ان سب باتوں کی نفی کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ ان کو لگتا تھا بہت سی حقیقتوں کا علم ہوچکا ہے، اور سچ بھی یہی تھا۔ دونوں ماموں بھانجے بظاہر تو کسی فیکٹری میں کام کرتے، لیکن اس کے پیچھے ہر بدعنوانی میں ملوث تھے۔ لوگوں کو جعلی ڈگری، جعلی ویزا، پاسپورٹ، جعلی دستاویزات، جعلی دوائیاں دینا… غرض ان کا گروپ ملک کی جڑیں کمزور کرنے اور کاٹنے میں بڑا سرگرم تھا۔
…٭…
آج استانی جی کی ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی۔ فجر پڑھ کر وہ بہ مشکل گھنٹہ بھر کے لیے سوئی تھیں، اور پھر دونوں کے آنے اور بے خبر سونے کے بعد وہ حسب معمول گھر کے کاموں میں لگ گئی تھیں۔ دل آج بہت بے چین تھا۔
…٭…
خفیہ پولیس نے اچانک ہی گھر پر چھاپہ مارا تھا، گروہ کے دو اہم کردار موقع پر ہی حراست میں لے لیے گئے، ٹھوس ثبوت بھی مل گئے تھے، لہٰذا دونوں کی ہزار مزاحمت کے باوجود پولیس ان کو پکڑ کر لے گئی تھی۔ اطلاع کا ذریعہ انجانا تھا جس پر پولیس بھی حیران تھی، کیوں کہ یہ گروہ کب سے ان کی آبزرویشن میں تھا اپنی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے، لیکن ناکافی ثبوت کی وجہ سے وہ ہاتھ ڈالنے میں متامل تھے۔ لیکن آج ایک فون کال نے ان کا کام آسان کردیا تھا۔
…٭…
بیٹا پڑھو ’’ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔‘‘ استانی جی کا آج کا سبق تھوڑا مشکل تھا۔ بچے حسب معمول سن کر دہرا رہے تھے۔ بیٹا آج ایک اور سبق یاد کرنا ہے، بولو ’’یہ وطن امانت ہے‘‘۔ بچوں نے سنا اور حیرانی کا اظہار کرکے دوسرا سبق یاد کرنے لگے تھے۔ استانی جی نے دوپٹے کے پلو سے آنکھوں کے کنارے صاف کیے۔ اچانک ہی پلو میں بندھا کاغذ ان کی آنکھوں میں چبھا تھا، انہوں نے وہ کاغذ دیکھا جس میں ایک فون نمبر لکھا ہوا تھا جو انہیں محلے کے ایک بااعتبار شخص نے دیا تھا، جس پر فون کرکے آج انہوں نے امانت کا حق ادا کردیا تھا۔

حصہ