قیدی

198

سات آٹھ سال کی عمر سے ہی باپ کے ساتھ شکار پر جانے والا مہیندر، کتوں کو اپنے شکار کو بھنبھوڑتے دیکھ کر شروع میں کانپ جاتا، پَر چند سالوں میں ہی شکار پر جانا اُس کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔ ایک مرتبہ اپنے چہیتے باز کو بِنا شکار کے ناکام لوٹنے پر غصے میں گردن مروڑنے پر اپنے باپ سے بہت داد پائی۔ معمولی خطا پر ہنٹر سے دھنائی پر دہائی دیتے ماتحتوں کی آہ و بکا پر مہیندرُ سردار بہادر کو اکثر محظوظ ہوتے دیکھتا۔
…٭…
یوں ہی ماہ وسال گزرتے رہے اور مہیندر نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ وہ ایک کڑیل جوان تھا۔ نہ جانے اس کے من میں کیا سمائی کہ اس نے فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ اپنے آپ کو فوجی وردی میں دیکھ کر اُس کی گردن کچھ اسی انداز سے اکڑ جاتی جیسے اپنے مدمقابل کو پسپا دیکھ کر بازی لے جانے والے مرغے کی ہوجاتی ہے۔ کچھ بچپن کا ماحول،کچھ فوج کی تربیت نے مہیندر کو پتھر دل کردیا۔ تقسیم ہند کے موقع پر مسلم کُش واقعات بڑھے تو اس کی تعیناتی مسلم آبادی کے علاقے میں کردی گئی۔ مہیندر بہت پُرجوش تھا۔ اپنی طاقت آ زمانے کا موقع تو جیسے اسے اب ملا تھا۔ معصوموں پر فائرنگ کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتارنے میں اسے  کبھی ہچکچاہٹ نہ ہوئی۔ بہتے لہو سے لت پت نعشوں کو اپنے بھاری بوٹوں سے وہ ایسے روندتا ہوا چلا جاتا جیسے خزاں کے سوکھے پتّوں کو پیروں تلے کچلتے ہوئے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
…٭…
کرفیو کے دوران پہرہ دیتے ہوئے اسے جھاڑیوں کے پیچھے کسی جاندار کا احساس ہوا۔ اس نے لپک کر ہاتھ مارا تو کسی کی قمیص ہاتھ آئی۔ اس نے بے دردی سے کھینچ کر اسے باہر نکالا تو ایک بارہ، تیرہ سالہ منحنی سے لڑکے کو اپنے سامنے پایا۔ لڑکے نے ڈر کر بھاگنے کے بجائے ہاتھ میں پکڑا پتھر اسے دے مارا۔
’’تیری یہ جرأت…‘‘ مہیندر نے غضب ناک نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ لڑکا بھی اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تکنے لگا۔
مہیندر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سختی سے پورے دائرے کی شکل میں مروڑ کر جھٹکا دیا۔ ’’آہ…!‘‘ایک دلدوز چیخ لڑکے کے منہ سے نکلی۔
اس نے لڑکے کے دوسرے ہاتھ کے ساتھ بھی یہی عمل دہرایا۔ لڑکا تکلیف سے کراہتا نیچے گر پڑا۔ مہیندر نے اپنا پیر اس کے سینے پر رکھا۔ اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ انتہائی اذیت کی کیفیت میں بھی لڑکے کی آنکھوں میں عزم تھا، ایک سوال تھا کہ تم کتنوں کی جانیں لو گے؟ زندگی چھین سکتے ہو، عزم و حوصلہ نہیں۔ مہیندر نے گھبرا کر اپنی نظریں اس کے چہرے سے ہٹائیں اور اپنا بھاری بوٹ اس کے سینے میں گھساتا چلاگیا۔
…٭…
’’صاحب، صاحب جی! میرے بچے کو بچالو۔‘‘ دکھیاری ماں فوجیوں کو آتا دیکھ کر اُن کے پاؤں پڑتے ہوئے گڑگڑائی۔ ممتا کی ماری نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ دشمن کے سپاہی ہیں۔ ’’کدھر ہے تیرا پلا…؟‘‘ایک فوجی تمسخر سے بولا۔
’’اُدھر، اُدھر دبا ہوا ہے۔‘‘ بے قرار ماں نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے مٹی کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ کھنڈر بنے مکان کے ملبے تلے، ہلکی سی جنبش زندگی کے آ ثار کی نشان دہی کررہی تھی۔
’’ادھر ہی ہے نا تیرا پتر…؟‘‘ مہیندر نے سفاکی سے پوچھا۔
’’جی…جی!‘‘ عورت نے بڑی آس سے اس طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا۔ مہیندر آگے بڑھا، اس نے بندوق سیدھی کرکے حرکت کرتے وجود کو نشانے پر لیا۔ گولی کی آواز کے ساتھ کئی قہقہے فضا میں گونجے۔ سسکتی بلکتی ممتا کو تڑپتا چھوڑ کر وہ مزید انسانی شکار کے لیے آگے بڑھ چکا تھا۔
…٭…
’’دہشت گردوں کو کوئی رعایت نہیں دینی۔ آپ کو گھر گھر تلاشی لے کر ان کو ٹھکانے لگانا ہے۔‘‘ آرڈر ملتے ہی چھاپے پڑنے شروع ہوئے۔ فوجیوں نے مظالم کے جو پہاڑ توڑنے شروع کیے وہ ناقابلِ بیان تھے۔ ان ’’کارناموں‘‘ میں مہیندر پیش پیش رہا۔کوئی گھرانہ بمشکل محفوظ رہ سکا۔ وہ ایک حسین نوخیز کلی تھی جس کی حفاظت کے لیے اس کا بوڑھا باپ آگے بڑھا۔
’’چل ہٹ بڈھے…‘‘ مہیندر بوڑھے کو زور سے دھکا دیتے ہوئے غرایا۔ بوڑھے کا سر دیوار سے ٹکرایا، خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ مہیندر کی طاقت کے اندازے کے باوجود، نوجوان لڑکی نے قریب پڑا چاقو پھرتی سے اٹھاکر اس کے سامنے لہرایا۔ مہیندر نے قہقہہ لگایا اور دست  درازی کی۔ لڑکی کی آنکھوں میں بے بسی اور خوف کے بجائے نفرت اور حقارت تھی۔ وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح آگے بڑھی۔ مہیندر ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا، لیکن پھر اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ اسی لمحے لڑکی نے چاقو اپنے پیٹ میں گھونپ لیا۔ اس کی دم توڑتی نگاہیں جیسے کہہ رہی ہوں ’’ماں کا تقدس، بہن کی آبرو تم جیسے بزدل، سنگ دل کیا جانیں… ہم جان دے دیں گے پَر تجھ جیسے وحشی کو اپنی عزت سے نہیں کھیلنے دیں گے۔‘‘
…٭…
ظالم مظلوم کی آہ سے نہیں بچ سکتا۔ جلد یا بدیر ظالم کو اپنے انجام کو پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ بہت عرصے سے مہیندر ایک نامعلوم سی بے چینی کا شکار رہنے لگا تھا۔ راتوں کی نیند جیسے اُس سے روٹھ گئی تھی۔ وہ بظاہر سوتا لیکن ذہن جاگا رہتا۔ اکثر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا۔ کئی مرتبہ پسینے میں شرابور ہوتا۔ دن میں وہ کھویا کھویا رہتا۔ بات کرتے کرتے یکدم چپ ہوجاتا، یا پھر خود سے باتیں کرنے لگتا۔
وہ گھبرا کر آنکھیں بند کرلیتا تو سوالیہ نظریں اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتیں۔ اس کی بے بسی پر مسکراتی، قہقہے لگاتی، کسی ماں کی اجڑی گود پر بددعا دیتی نگاہیں، سہاگن کی مانگ اجاڑنے پر کبھی نہ معاف کرنے والی آنکھیں، معصوم بچے کو خاندان سے زندگی بھر کے لیے دور کردینے پر وہ تڑپتی نگاہیں… وہ سب جنھیں مہیندر نے اپنے ظلم کا شکار بنایا، اس سے سوال کرتیں۔
وہ ان سب سے فرار چاہتا تھا۔ وہ ایسی ہی ایک اندھیری رات تھی جب اس نے گھبرا کر دیوانہ وار بھاگنا شروع کردیا۔ وہ جتنا تیز دوڑتا، بے شمار آنکھیں اس کا پیچھا کرتیں۔ وہ دوڑتا رہا، دوڑتا رہا۔ اس کی اپنی آنکھوں میں خوف اور دہشت کے سائے لہرا رہے تھے۔ الجھے بالوں اور گرد سے اٹے وجود کے ساتھ، ایک وحشی کی مانند وہ ایسی راہ کی طرف گامزن تھا جس کی کوئی منزل نہ تھی۔

حصہ