تلاش منزل

144

آج صبح سے ہی گھر میں ہل چل تھی۔ بچے بار بار نوشین سے جشنِ آزادی کے کپڑے پہننے کی اجازت مانگ رہے تھے، اور وہاں ایک ہی تکرار کہ مہمانوں کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے پہننا۔
نوشین اپنی ساس کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ وہ مہمانوں کی آمد سے پہلے کام کاج سے فارغ ہوجانا چاہتی تھی۔ دونوں میاں بیوی عمر اور نوشین نے یومِ آزادی کی مناسبت سے دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ آمد ِ ضیوف کا وقت دوپہر ایک بجے تھا۔ ہلکے ہلکے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ہوا کے ہلکے سے ہلکورے کے ساتھ ہی کاغذ کی بنی جھنڈیاں خوب پھڑپھڑاتیں۔ خوب صورت و پُرسکون منظر کے ساتھ باورچی خانے سے انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو آرہی تھی۔ چکن جیلفریزی، بریانی، مٹن قورمہ، چپلی کباب کے ساتھ ساتھ موسم کی مناسبت سے کڑی پکوڑا بھی بن چکا تھا۔ میٹھے میں فروٹ ڈیزرٹ اور فرنی تھی جو رات کو ہی بناکر فریج میں رکھ لی تھی۔ سارے گھر والے سبز سفید کپڑوں میں ملبوس ہوگئے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ سب سے پہلے آنے والی مہمان جو کہ اس محفل کی بزرگ خاتون اور مہمانِ خصوصی بھی تھیں، عمر کی نانی اور نوشین کی نانی ساس بیگم ذکیہ خاتون تھیں۔ وہ نئی نسل کے عادات و اطوار سے ہٹ کر وقت کی پابند، پوتے کو ساتھ لیے پہنچ گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اِس دنیا میں دو ہی رنگ پیدا کیے گئے ہیں یعنی سبز اور سفید۔ میزبانوں سمیت زیادہ تر مہمانوں نے بھی یہی رنگ زیب تن کر رکھے تھے۔ کھانا پیش کیا گیا۔ سب مہمانوں نے جی بھر کر کھایا اور دل کھول کر تعریفیں بھی کیں۔
گھر میں جشنِ آزادی کے موضوع پر پروگرام بھی رکھا گیا تھا۔ سب کو پہلے سے اطلاع بھی دے رکھی تھی کہ تیاری کے ساتھ آئیں۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید اور نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا۔ پھر دوسرے بچوں نے مِلّی نغمے گائے اور چھوٹی چھوٹی تقریریں کیں۔ آخر میں عمر نے مائیک اپنے ہاتھ میں لیا اور سب بچوں کی تعریف کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کی، اور بچوں کو چھوٹی چھوٹی پیکنگ میں انعامات بھی دیے۔ پھر پُرجوش انداز میں کہنے لگا ’’اب میں مائیک دینے جا رہا ہوں ایک ایسی ہستی کو، جو تعمیر پاکستان کی چشم دید گواہ ہیں، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے حصولِ وطن کی خاطر لوگوں کا خون پانی کی طرح بہتے دیکھا۔ میری پیاری نانی جان، جن کی اپنی عمر اُس وقت تیرہ برس تھی۔‘‘
عمر نے مائیک بوڑھی و نحیف نانی جان ذکیہ خاتون کے جھریوں زدہ ہاتھوں میں تھما دیا، اور ساتھ سب بچوں و بڑوں کو تاکید کی کہ نانی کی قیمتی باتیں خاموشی سے سنیں۔
ذکیہ خاتون نے مائیک پکڑ کر دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور کئی سال پیچھے کی یادوں میں گم ہوگئیں۔ آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔ خاموش چہرے کا کرب اپنی داستان سنانے لگا۔ آخر ہمت مجتمع کرکے گلوگیر آواز میں بولیں:
’’میرے بچو! مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ تم اپنے آزادی کے دن کو یاد رکھتے ہو اور اسے خوشی سے مناتے ہو۔ میرا سوال ہے: کیا تمہارے وطن کا تم سے تقاضا صرف یہی ایک دن منانے کا ہے کہ تم رنگ برنگے کپڑے پہن کر مل بیٹھ جائو، یا پھر چند ملّی نغموں اور تقریروں سے اپنی ذمہ داری پوری کرلو؟
دیکھو، ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی اور اِس آزادی کی قیمت جان و مال اور عزتیں گنوا کر ادا کی، لیکن افسوس! ہمارے لوگوں نے رسم و رواج ہندوؤں کے اور رہن سہن انگریزوں کا اپنا لیا۔ لا الٰہ الااللہ کے نام پر حاصل کیا جانے والا خطہ سود، حرام خوری، رشوت، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، دو نمبری و چوری چکاری سے اٹا پڑا ہے۔ میرے بچو! میں یومِ آزادی منانے کے خلاف نہیں، یہ دن مناؤ، ضرور مناؤ، لیکن تفریح کے لیے نہیں، بلکہ اس کے لیے دی گئی قربانیوں کو یاد کرکے، اس کے حصول کے مقاصد کو ذہن نشین کرکے، اسے خوب سے خوب تر بنانے کے لیے اپنے اندر نیا جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے منائو۔
یہ تو مذہب کے نام پر حاصل کردہ وطن ہے۔ اس کا نام روشن کرنا اور اس کی خدمت کرنا ہماری عبادت ہے۔ آپ سب لوگ بھی عزم کریں کہ ناپاک لوگوں کی پھیلائی آلائشوں سے اپنے وطن کو پاک کرکے اسے معطر و گلزار بنانا ہے، اور اس کا آغاز ہمیں اپنی ذات سے کرنا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ہی ہم سلامت ہیں۔‘‘
ذکیہ خاتون کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتی تھیں لیکن ماضی کے کرب نے قوتِ گویائی کو کمزور کردیا۔ ذکیہ خاتون کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسوؤں نے اس الم کی تشریح بیان کردی تھی۔

حصہ