صحافت کے استاد اطہر علی ہاشمی

550

مرحوم اطہر علی ہاشمی صاحب ایک بھلے، قناعت پسند، بے نیاز، نرم خُو، خوش مزاج اور صلح جُو انسان تھے۔ اگر یہ سوال ہو کہ اطہر علی ہاشمی کون تھے؟ تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ’’اطہر علی ہاشمی ایک بڑا آدمی تھا“۔ میں نے اُن کی زندگی کا تفصیلی اور آخری انٹرویو فرائیڈے اسپیشل کے لیے کیا تھا جو اُن کی رحلت کے بعد شائع ہوا تھا، شاید ہاشمی صاحب بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ اُن کی زندگی میں نہ چَھپے۔ اس بات کا پس منظر یہ ہے کہ انٹرویو مکمل کرکے کئی ماہ پہلے میں نے ہاشمی صاحب کو دیا کہ آپ اس کو دیکھ لیں۔ اُنہوں نے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ’’چھوڑو میاں! اس کو رہنے دو، مت چھاپو“۔ میں نے کہا ”اب یہ ممکن نہیں“۔ ”اچھا! چلو پھر بے فکر رہو‘‘- پھر ہر کچھ عرصے بعد میں پوچھتا ”دیکھ لیا؟“ کہتے ”ہاں یہ دیکھو کچھ دیکھ لیا ہے“۔ پھر کہتے ”چھوڑو میاں اس کو، میرے مرنے کے بعد چھاپ دینا۔“
آخری ملاقات انتقال سے دو تین دن قبل ہی ہوئی تھی۔ میں ان سے پوچھنے گیا تو کہا ”میاں کیا حال ہے، کہاں غائب ہو؟“ میں نے کہا ’’کورونا میں کم لوگوں سے ملنا چاہیے‘‘- کہا ”بیٹھو“۔ اور اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ ایک کتاب رکھی تھی، میں نے کہا ”یہ مجھے چاہیے“۔ کہنے لگے ”فون آیا تھا، تبصرہ کرلوں تو لے لینا“۔ مجھے نہیں معلوم وہ تبصرہ کرپائے یا نہیں۔ سگریٹ کا ساتھ آخری وقت تک جاری رہا۔
ہاشمی صاحب میرے گھر کے قریب گلستان جوہر میں ہی رہتے تھے اور اکثر کہا کرتے تھے ’’میاں کبھی آجایا کرو، تم تو ہمارے بہت قریب رہتے ہو‘‘- میں ہمیشہ کہتا ”جی میری بھی خواہش ہے کہ آپ کے پاس آکر بیٹھا کروں اور کچھ لے کر اٹھا کروں‘‘۔ وہ معدودے چند لوگوں میں سے تھے جن کی صحبت سے سائل کچھ سیکھ کر ہی اٹھتا ہے، لیکن بدقسمتی رہی، اور یہ موقع کم ہی ملا۔ ہماری روایت میں اطہر علی ہاشمی عبدالکریم عابد کا تسلسل اور ہماری صحافت کی آبرو، درویش صفت اور عہد ساز شخصیت کے حامل صحافی تھے۔ آپ حقیقی معنوں میں ایک نظریاتی صحافی بھی تھے، اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رواں دہائی کے ایڈیٹروں میں آپ کا سب سے بڑا مقام تھا۔ آپ صرف صحافت کے استاد نہیں تھے بلکہ آپ سے لوگوں کا تعلق محبت اور عقیدت کا تھا۔ اکبر الہٰ آبادی نے شاید آپ کے لیے کہا تھا کہ
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی
ہر چند کہ ہوں ہوش میں ہشیار نہیں ہوں
اس خانہ ہستی سے گزر جاؤں گا بے لوث
سایہ ہوں فقط نقش بہ دیوار نہیں ہوں
آپ اُن اخبار نویسوں میں سے تھے جو ہر خبر پر گہری اور عمیق نظر رکھتے تھے، جنہیں قدرت کی طرف سے اظہار کا خوبصورت انداز عطا ہوا ۔ آپ سنجیدہ کالم کم لیکن فکاہیہ کالم بھرپور لکھتے تھے۔ حکومت کی پالیسیوں پر اپنے طنز و مزاح کے مخصوص انداز میں ناقدانہ رائے بھرپور طریقے سے پیش کرتے تھے۔ آپ کی تحریر پختہ، مؤٗثر، رواں، شستہ، اور سہل ہوتی تھی، اور اس میں کسی طرح کی پیچیدگی اور ابہام نہیں پایا جاتا تھا۔ اداریوں میں مقامی مسائل، عصرِ حاضر کے مسائل کا ادراک، قوم و ملک کو درپیش چیلنجز، مسلمانوں کی حالتِ زار کا تجزیہ موجود ہوتا تھا، اس میں بھی کبھی کبھی طنز و مزاح کے جملے پڑھنے کو ملتے تھے۔ آپ کا مزاح تحریر کے ساتھ عمل، تقریر، گفتگو… ہر جگہ موجود تھا، یہی وجہ ہے کہ دورانِ انٹرویو میرے بعض سنجیدہ سوالات کا بھی انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا، اور لمبی چوڑی بات کرنے کے بجائے چند جملوں میں پوری بات کردی۔ طنز و مزاح، شوخی، ظرافت… یہ آپ کی شخصیت کا حصہ تھے۔ آپ خود کہتے تھے کہ ’’سنجیدگی میری فطرت میں نہیں ہے“ـ کیونکہ آپ ایک استاد کا درجہ رکھتے تھے اور سیکھنا سکھانا آپ کی سرشت میں شامل تھا، اس سلسلے میں فرائیڈے اسپیشل میں حیدر علی آتشؔ کے شعر:
لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا
سے استفادہ کرتے ہوئے ”خبر لیجے زباں بگڑی‘‘کے عنوان سے زبان و بیان کی اصلاح کرنے اور زبان سکھانے کا سلسلہ شروع کیا، اور یہ ہر جمعہ کو فرائیڈے اسپیشل کے آخری صفحے پر شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا۔ ڈان اخبار سمیت دنیا بھر کی کئی ویب سائٹس پر یہ کالم چھپتے رہے ہیں، جس پر مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ”خبر لیجے زباں بگڑی میرا پسندیدہ کالم ہے اور جب بھی فرائیڈے اسپیشل دستیاب ہوتا ہے، تو سب سے پہلے یہی کالم پڑھتا ہوں‘‘۔
اطہرعلی ہاشمی صاحب 44 سال تک صحافت سے وابستہ رہے۔ دل کے عارضے میں مبتلا تھے، آپ کی اہلیہ بھی ان دنوں سخت بیمار رہیں، لیکن انہوں نے دل کی اپنی اس بیماری کو کبھی’’دل‘‘ پر نہیں لیا۔ بیٹے حماد کے مطابق آپ 18 اگست 1947ء کو جھانسی (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بہاولپور سے حاصل کی۔ آٹھ بھائی اور ایک بہن میں دوسرے نمبر پر تھے۔ والد ’وزارتِ صنعت‘ سے وابستہ تھے۔ والدہ کا انتقال بچپن میں ہوگیا، پھر خالہ کے ہاں تعلیم وتربیت پائی۔ 1977ء میں کراچی آئے، اسی دوران میں شادی ہوئی۔ تین بیٹے ہیں، جس میں بڑے محمد حماد صحافت سے وابستہ ہیں، دوسرے بیٹے احمد فواد اور چھوٹے صاحب زادے مصطفیٰ صارم غیر شادی شدہ ہیں۔ آپ کے سب سے بڑے بھائی میجر سرور ہاشمی کا تعلق فوج سے تھا اور ملتان میں انتقال ہوا۔ ایک بھائی حیدر ہاشمی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک سب سے چھوٹے بھائی حضرت مولانا راحت علی ہاشمی صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے ناظمِ تعلیمات اور استاذ ہیں۔ ہاشمی صاحب نے علاء ٔالدین خلجی کی معاشی پالیسی پر مقالہ لکھا تھا لیکن ایم فل مکمل نہیں ہوسکا تھا۔ آپ جسارت کے علاوہ روزنامہ ”امت“ کے ڈپٹی ایڈیٹر انچیف بھی رہے، جبکہ روزنامہ جنگ لندن اور اردو نیوز جدہ کے بانیوں میں سے تھے۔
ہاشمی صاحب نے اپنے بارے میں ملاقات میں بتایا تھا کہ ”والد نے بہاولپور سے میٹرک اور ایف اے کیا۔ دادا محمد علی بھی تقسیم سے پہلے سکھر آگئے تھے۔ دادا پولیس میں تھے، کوتوال کہلاتے تھے۔ والد انڈیا سے بسلسلہ ملازمت کراچی آگئے تھے۔ وہ محکمہ بحالیات میں عارضی طور پر ملازم ہوگئے تھے۔ جو مہاجرین آرہے تھے اُن کو بسایا جارہا تھا۔ زمینیں، پلاٹ وغیرہ دیے جارہے تھے۔ اس کی وجہ سے لالوکھیت میں خود بھی اسّی گز کا پلاٹ لیا اور رشتے داروں کو بھی دیا۔ آپ نے بتایا تھا کہ وہ وہاں رہنے کو تیار نہیں تھے کہ اس ویرانے میں اپنے بچوں کو مروائیں گے کیا! والد سے لوگوں نے کہا بھی کہ ایک سے زیادہ پلاٹ لے لو، لیکن اُس زمانے میں لوگوں کو دوسروں کا احساس زیادہ تھا۔ انہوں نے کہا: اور مہاجر آرہے ہیں، یہ اچھا نہیں ہے کہ آپ زیادہ پلاٹ لے لیں، جو لوگ آئیں گے بستے چلے جائیں گے۔ چنانچہ اسّی گز کے پلاٹ پر جھونپڑی ڈالی تھی۔ اُس زمانے میں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ پکا مکان بناتے۔ اور لوگوں نے بھی ایسے ہی جھونپڑیاں ڈالیں۔ ہم نے جو ابتدائی زمانہ دیکھا، صورت حال یہ تھی کہ جھونپڑی والے اپنی ملازمت پر چلے جاتے تھے، شام کو آئے تو پتا چلا کوئی اور قابض ہے۔ یا گائے، بکریاں پھوس کی دیواروں پر منہ مارتی چلی جاتی تھیں۔ یہ علاقہ لالوکھیت کہلاتا تھا۔
جسارت آمد کی کہانی بیان کرتے ہوئے ہاشمی صاحب نے بتایا تھا کہ ”ہمارا جرنلزم کا کوئی تجربہ تھا نہیں، اور کوئی ایسا ارادہ بھی نہیں تھا، پہلی سیڑھی اخبار کی، جسارت کی چڑھی۔ اسلام آباد میں جب میں پڑھا رہا تھا تو گریڈ 17 کی تنخواہ بارہ تیرہ سو اُس زمانے میں بنتی تھی۔ بھٹو صاحب نے بنیادی تنخواہ پانچ سو بڑھا دی تھی۔ اسی گفتگو میں رکتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اُس زمانے میں جب ہم اسلام آباد میں ہی تھے ایک سانحہ اور بھی ہوا، کراچی میں ہماری ایک کزن تھیں، اُن سے ہمارا نکاح ہوگیا۔ والد کو دل کا دورہ پڑا تھا، پہلے منگنی کا پروگرام تھا، پھر انہوں نے کہا نکاح ہی کرلو۔ ہماری بیگم صاحبہ کراچی میں گریڈ17میں ڈائو میڈیکل کالج میں پڑھا رہی تھیں، اُس وقت ہم اسلام آباد میں تھے، ہم نے یہی سوچا کہ چلو ہم بھی یہیں آجاتے ہیں۔ اور اُس وقت جو صحافی ویج بورڈ کے تحت تھے اُن میں گریڈ تھری کی تنخواہ ساڑھے سات سو روپے تھی، جو نائٹ الائونس ملا کر آٹھ سو بن جاتی تھی۔ وہاں تیرہ سو مل رہے تھے۔ تو تنخواہ کم ہونے کے باوجود ہم نے سوچا گزارا ہوجائے گا، مکان اور گھر بھی اپنا ہے اور بیگم بھی اپنی ہے۔
کالم لکھنے کے حوالے سے آپ کو صلاح الدین صاحب نے حوصلہ دیا۔ آپ نے بتایا ”ایک کُشتی ہوئی تھی، باہر سے انوکی پہلوان آیا تھا، تو اُس پر میں نے مزاحیہ کالم لکھ کر دے دیا۔ فیض صاحب سٹی ایڈیٹر ہوتے تھے، انہوں نے باکس بناکر شایع کردیا۔ اُس کو دیکھ کر صلاح الدین صاحب نے کہا کہ بھائی! کالم کیوں نہیں لکھتے؟ اس طرح ہم نے اُن کے کہنے پر کالم لکھنا شروع کردیا۔ آپ کو شاید حیرت نہیں ہوگی، اور اگر ہوگی تو میرا کیا بگاڑ لو گے! دس روپے ایک کالم کے ملا کرتے تھے۔ تین کالم میں لکھتا تھا، اور تین طاہر مسعود۔ دونوں باری باری لکھا کرتے تھے اور دس، دس روپے ملا کرتے تھے۔ طاہر مسعود رپورٹنگ میں تھے، تو ڈیڑھ سو روپے ہوجاتے تھے، عیاشی ہوجاتی تھی، مزے آجاتے تھے۔ پھر طاہر مسعود نے ایک درخواست صلاح الدین صاحب کے نام لکھی کہ پیسے بڑھائے جائیں۔ مجھ سے بھی انہوں نے دستخط کروائے اور دونوں کی مشترکہ درخواست پر پندرہ روپے فی کالم ہوگئے تھے۔ ہوا یہ تھا کہ ہمارے یہاں بہت اچھے کالم نگار تھے احمد حمید، جنہیں اردو اور انگریزی پر خاصا عبور تھا، وہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، اس لیے ہماری بن آئی تھی۔
”خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے بارے میں کہتے تھے: ”میں عام غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہوں۔ میں بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ جو عام گفتگو کررہے ہیں، زبان لکھ رہے ہیں اُس کو ٹھیک کرلیں۔ بڑے بڑے کالم نگار ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو نہیں کرنی چاہئیں“۔ میں نے پوچھا ”آپ نے شاعری بھی کی؟“ اطہر علی ہاشمی نے فرمایا ”شاعری کی کوشش کی، لیکن پھر سوچا کہ بے تکے شعر کہنے سے بہتر ہے کہ جو اچھے اور بڑے شعرا ہیں اُن کو پڑھ لو۔“
تو ایسے تھے ہمارے ہاشمی صاحب۔ ذرا منفرد، نمود و نمائش اور شہرت و ناموری کی تمنا سے بے نیاز… اسی لیے بڑے آدمی تھے، اور ہم ہی نہیں ہمارا سماج بھی اُن سے محروم ہوگیا۔

حصہ