سود

مباحث گزشتہ کا خلاصہ:
یہ تمام قانونی تصریحات آپ کے سامنے ہیں ان پر غور کرنے سے سب ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں۔
-1 دارالحرب اگر مطلقاً دارالکفر کے معنی میں لیا جائے تو اس کے اموال مباح نہیں بلکہ صرف غیر معصوم ہیں اور عدم عصمت کا حاصل صرف اس قدر ہے کہ اسلامی حکومت اس دار میں کسی جان یا مال کے تحفظ کے ذمہ دار نہیں ہے۔ وہاں اگر کوئی مسلمان کسی مسلم یا غیر مسلم کو جان و مال کا نقصان پہنچائے گا یا اس کی ملک سے کوئی چیز حرام طریقہ نکال لے گا تو یہ اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔ اسلامی حکومت اس سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گی۔
-2 دارالحرب سے مراد اگر ایسے کفار کا دار لیا جائے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں تو اس معنی میں ہر دارالکفر دارالحرب نہیں ہے بلکہ صرف وہ علاقہ دار الحرب ہے جس سے بالفعل دارالاسلام کی جنگ ہو۔ اس خاص نوع کے دارالکفر کے سوا کسی دوسرے دارالکفر کے باشندے نہ مباح الدم ہیں اور نہ مباح المال‘ اگرچہ وہ ذمی نہیںہیں اور ان کے نفوس و اموال غیر معصوم ہیں۔
-3 جس ملک سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو اس کے نفوس وا موال بھی مطلقاً ایسے مباح نہیں ہیں کہ ہر شخص وہاں لوٹ مار کرنے اور کفار کی املاک پر قبضہ کرنے کا مختار ہو بلکہ اس کے لیے بھی کچھ شرائط اور قیود ہیں:
(الف): امام المسلمین باقاعدہ اعلانِ جنگ کرکے اس ملک کو دارالحرب قراردے۔
(ب): وہاںجنگ کرنے والوں کو امام کا ’’اذن‘‘ اور اس کی ’’حمایت‘‘ حاصل ہو۔
-4 غنیمت صرف اُس جائداد منقولہ کو کہتے ہیں جو دشمن کے عساکر سے لڑ کر حاصل کی جائے یا بالفاظ دیگر اشرف جہاد سے حاصل ہو اور جس میں دین کا اعزاز ہو۔ اس مال میں پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔
-5 فے اُن اموال منقولہ و غیر منقولہ کو کہتے ہیںجو نتیجۂ فتح کے طور پر حکومت اسلامی کے قبضے میں آئیں۔ خراج اور مال، صلح وغیرہ کا شمار بھی فے ہی میں ہے‘ لیکن یہ بالکلیہ اسلامی حکومت کی ملک ہے اور کسی شخص خاص کو اس پر حقوق، ملکیت حاصل نہیں ہو سکتے۔
-6 فے اور غنیمت کے اموال پر فاتحین کو پورے حقوق ملکیت صرف اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب کہ وہ ان کو دارالحرب سے دارالاسلام منتقل کر لائیں یا دارالحرب کو دارالاسلام بنا لیں۔ اس سے پہلے ان اموال میں تصرف کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا مکروہ ہے۔
-7 اسلامی قانون حربی کفار کے اموال پر ان کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے اور ان کی ملک سے کوئی مال مسلمانوں کی ملک میں جائز طور پر انہی صورتوں سے منتقل ہو سکتا ہے جن کو اللہ اور رسولؐ نے حلال کیا ہے یعنی بیع یا صلح یا جنگ۔
مسلمانوں کو حیثیات بلحاظ اختلافِ دار:
ان امور کے متحقق ہو جانے کے بعد اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ اسلامی قانون کے مطابق اختلاف دار کے لحاظ سے جو مسلمانوں میں کیا اختلافات واقع ہوتے ہیں۔ اس باب میں تمام قوانین کی بنیاد حسب، ذیل آیات و احادیث پر قائم ہے:
’’اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر ہجرت کرکے دارالاسلام آ نہیں گئے‘ ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں تاوقتیکہ وہ دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت نہ کریں۔‘‘ (الانفال: 72)
’’ان کو ولی نہ بنائو جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔‘‘ (النساء: 89)
’’جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے اس کو ایک مسلمان بردہ آزاد کرنا چاہیے اور اس کے وارثوں کو دیت دینی چاہیے الا یہ کہ ورثا صدقہ کے طور پر دیت چھوڑ دیں اور اگر وہ مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس سے تمہاری دشمنی ہو اور ہو وہ مومن تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرنا چاہیے اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کی وارثوں کو دیت دی جائے اور ایک مسلمان بردہ آزاد کی جائے۔‘‘ (النساء: 92)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ہر اس مسلمان کی ذمہ داری سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو اور حضورؐ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ جس نے مشرکین کے ساتھ قیام کیا اس سے بری الذمہ ہوں یا فرمایا اس کے لیے کوئی ذمہ نہیں۔‘‘
ابو دائود کی کتاب الجہاد میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو لشکر کا سردار مقرر کرکے بھیجتے تو اس کو منجملہ دوسروی ہدایات کے ایک یہ ہدایت بھی فرماتے تھے:
’’ان کو پہلے اسلام کی طرف دعوت دینا اگر وہ قبول کر لیں تو ان سے ہاتھ روک لینا۔ پھر ان سے کہنا کہ اپنی دار کو چھوڑ کر مہاجرین کی دار یعنی دارالاسلام میں آجائیں اور انہیں بتا دینا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور وہی واجبات ان پر عائد ہوں گے جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ انکار کریں اور اپنے ہی دار میں رہنا اختیار کریں تو انہیں آگاہ کر دینا کہ ان کی حیثیت اعراب مسلمین کی سی ہوگی ان پر اللہ کے وہ تمام احکام جاری ہوںگے جو مومنین پر جاری ہوتے ہیں مگر فے اور غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔‘‘(باب فی دعاالمشرکین)
ان آیات و احادیث فقہاء حنفیہ نے جو احکام مستنبط کیے ہیں ان کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔
-1 دارالاسلام کے مسلمان:
جو نفوس و اموال دارالاسلام کی حدود میں ہوں صرف انہی کی حفاظت حکومت اسلامی کے ذمے ہے اور جو مسلمان دارالاسلام کی رعایا ہوں دینی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ دنیوی حیثیت سے بھی اسلام کے تمام قوانین پر نافذ ہوں گے اور وہی کلی طور پر احکام کے ملتزم ہوں گے۔ یہ قاعدہ اسلامی قانون کی قواعد کلیہ میں سے ہے اور اس پر بہت سے مسائل متفرع ہوتے ہیں۔
-1 اسی قاعدہ کی بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ عصمتِ نفوس و امال و اعراض صرف انہی مسلمانوں کی عصمت محض دینی عصمت ہے‘ عصمت مقومہ نہیں ہے جس کی بنا پر قضا شرع لازم آتی ہے۔
-2 اسی قاعدہ سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اسلامی قانون افعال کو حرام قرار دیتا ہے ان سے دارالاسلام کے مسلمان دیناً و قضاً دونوں حیثیتوں سے روکے جائیں گے مگر جو مسلمان دارالاسلام میں نہیں ہیں ان کا معاملہ ان کے اور خدا کے درمیان ہے‘ دین کا احترام دل میں ہو تو باز رہیں اور نہ تو جو چاہیں کریں اس لیے کہ اسلام کو ان پر نفاذِ احکام کا اقتدار حاصل نہیں ہے۔
-3 یہی قاعدہ اس مسئلے کا ماخذ بھی ہے کہ جو نفوس و اموال دارالاسلام کی حفاظت میں ہوں وہ سب معصوم ہیں اس لیے ان پر حق شرعی کے سوا کسی دوسرے طریقہ سے تعدی کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ اس بارے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ تعدی کرنے سے ہر اس شخص کو روکا جائے گا جو احکام اسلام کا تابع ہو چکا ہو عام اس سے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اور ہر اس شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے جو دارالاسلام کی حفاظت میں ہو خواہ مسلمان ہو یا کافر۔ اسی بنا پر دارالاسلام میں کوئی مسلمان‘ مسلمان سے اور کوئی مسلمان ذمی سے اور کوئی ذمی مسلمان سے اور کوئی ذمی ذمی سے اور کوئی مستامن دوسرے مستامن سے سود پر یا عقود فاسدہ میں سے کسی عقد فاسدہ پر معاملہ نہیں کر سکتا کیوں کہ سب کے اموال سب کے لیے معصوم ہیں اور ان کو صرف انہی طریقوں سے لیا جاسکتا ہے جو اسلامی قانون میں جائز ہیں۔ اسی طرح اگر دارالکفر سے کوئی کافر دارالاسلام میں آئے یا دارالحرب سے کوئی حربی کافر امان لے کر اسلامی ملک میں داخل ہو تو اس سے بھی سود لینا یا عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہیں کیوں کہ حکومت اسلامی کی امان نے اس کو معصوم الدم و مال کر دیا ہے اور حکومت اسلامی کی امان کا احترام اس کی تمام رعایا پر واجب ہے۔ البتہ اگر کوئی حربی بغیر امان لیے دارالاسلام میں آجائے تو اس کو پکڑنا‘ لوٹنا‘ مارنا اور اس سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا سب کچھ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک جائز ہے کیوں کہ وہ مباح الدم ومال ہے لیکن امام ابو یوسفؒ اس سے بھی عقود فاسدہ پرمعاملہ کرنے کو جائز نہیں رکھتے۔
-2 مستامن مسلمان دارالکفر اور دارالحرب میں:
دارالاسلام کی رعایا مین سے جو شخص عارضی طور پر دارالکفر یا دارالحرب میں امان لے کر جائے اس کو اسلامی اصطلاح میں ’’مستامن‘‘ کہتے ہیں۔ یہ شخص اگرچہ اسلامی حکومت کے حدود قضا سے باہر ہو جانے کی بنا پر ہمارے قانونِ ملکی کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے مگر پھر بھی اس کوایک حد تک اسلامی حکومت کا تحفظ حاصل رہتا ہے اور التزام احکام اسلامی میں ذمہ داری اس پر سے بالکل ساقط نہیں ہو جاتی۔ ہدایہ میں ہے:
’’دارالاسلام کی حفاظت سے جو عصمت ہوتی ہے وہ عارضی طور پر امان لے کر داخل ہونے سے باطل نہیں ہو جاتی۔‘‘ (کتاب السیر باب مستامن)
اس قاعدے پر حسب ذیل مسائل متفرع ہوتے ہیں:
-1 جس دارالکفرسے دارالاسلام کا معاہدہ ہو وہاں مستامن مسلمان کے لیے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہاں کے کفار مباح الدم والاموال ہی نہیں ہیں اور جب عقود فاسدہ کے جواز کی بنا پر اباحت پر رکھی گئی ہے تو اباحت کے مرتضع ہونی سے وہ چیز آپ سے آپ مرتفع ہو جاتی ہے جو اس پر مبنی ہے۔
-2اگر کوئی مستامن مسلمان ایسے دارالکفر میں عقود فاسدہ پر معاملہ کرے یا بدعہدی یا غضب اور سرقہ سے کوئی چیز لے کر آجائے تو اسلامی حکومت اس پر نہ کوئی مقدمہ قائم کرے گی اور نہ اس پر کوئی ضمان لازم ہوگا۔ البتہ دینی حیثیت سے ان کو ان تمام افعال سے رجوع کا مشورہ دیا جائے گا جو اس نے شریعت کے خلاف کیے ہیں۔
-3 عقود فاسدہ کو مستثنیٰ کرکے باقی تمام معاملات میں اس مستامن کے لیے بھی حنفی فقہ کے یہی احکام ہیں جو ’’دارالحرب‘‘ میں امان لے کر داخل ہوا ہو۔
’’اگر کوئی تاجر دارالحرب میں امان لے کر جائے اور ان کے ہاں سے کوئی لونڈی چرا لائے تو فی ما بینہ وبین اللہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے اگرچہ امام اس کو ایسا کرنے پر مجبور نہ کرے گا۔‘‘ (المبوسط: ج۔1‘ ص:61)
اگر وہ دارالحرب میں امان سمیٹ کر داخل ہو اور ان سے قرض لے یا وہ اس سے قرض لیں یا وہ ان کا مال غصب کرلے یا وہ اس کا مال غصب کرلیں تو ان کے درمیان دارالاسلام میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا۔ مستامن نے بطور خود ان سے خیانت نہ کرنے کا ذمہ لیا تھا‘ اور اب جو اس نے عذر کیا تو یہ امام کے معاہدہ میں نہیں بلکہ خود اپنے ذاتی معاہدہ میں عذر کیا ہی اس لیے اس کو واپس کرنے کا فتویٰ دیا جائے گا مگر حکماً اس پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
امام ابو یوسفؒ کو اس سے اختلاف ہے کیوں کہ وہ مسلمان کو ہر جگہ ملتزم احکام اسلام قرار دیتے ہیں۔

حصہ